صبر و ضبط اور تحمل و برداشت کی اہمیت! انسانی زندگی کی متحرک قوت اعتماد ہے

ڈاکٹر قاسم محمود

آج اگر کوئی سوال کرےکہ ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تواس کا مختصر اور جامع جواب یہی ہوگا کہ صبر اور برداشت کا فقدان ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے ، جس نے اوپر سے نیچے تک پوری قوم کا احاطہ کررکھا ہے اور گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہماری قومی زندگی کو لاحق تمام مسائل کہیں نہ کہیں جاکر اسی ایک نکتے کو لنک کرتے ہیں اور اسی کے بطن سے پھوٹتے ہیں۔ گویا صبروتحمل کا فقدان ہماری سوسائٹی، ملک اور قوم کےلیے ام المسائل کا مقام رکھتا ہے۔صبر وتحمل اعلیٰ درجے کی اخلاقی صفت نمایاں ہوکر بروئے کار آتی ہے، اس کے اندر وقار، ٹھہراو، تمکنت، بردباری اور حلم برگ وبارلاتے ہیں اور ایسی قوم یا فرد ہر قدم ٹھہر ٹھہر کر، اچھی طرح ناپ تول اور سوچ سمجھ کر اٹھاتا ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے ہر پیش آمدہ واقعے پر غور وفکر کرتا ہے، تدبر سے کام لیتا ہے، مشاورت کرتا ہے، اس کے اثرات ومضمرات کاجائزہ لیتا ہے اور پھر اسے فَیس کرنے کےلیے جوسب سے بہتر تقاضا ہوتا ہے، اس کے مطابق قدم اٹھاتا ہے۔ بتائیے ایسا فرد یا قوم کسی مشکل میں بے بس ونامراد ٹھہر سکتے ہیں؟مسائل کے گرداب میں پھنس سکتے ہیں؟اس کے برعکس جس قوم میں صبر وبرداشت کی صفت نہ پائی جائے، اس کے بجائے وہ عجلت میں کام نکالنے کی عادی ہو، ایسی قوم کسی دُوررس اور صائب فیصلے تک کبھی نہیں پہنچ سکتی ۔اس کی نظر لمحہ موجود پرہی رہتی ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح کام نکلے اور وقت ٹلے ۔ اندازہ لگائیےایسی سوچ اور عادات وصفات کی حامل قوم بھلا کیسے کامیاب ہوسکتی ہے اور کیسے ترقی کی شاہراہ پر کامرانی سے آگے بڑھ سکتی ہے؟
صبر کے ساتھ ساتھ برداشت کی بھی انفرادی اور اجتماعی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ صبر کی طرح برداشت بھی کئی لباس میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ایک برداشت یہ ہے کہ ایک فرد کو دوسرے فرد کے ہاتھوں صدمہ پہنچے تو وہ اسے برداشت کرے، کسی سے خلاف طبع بات سنے تو بجائے ردعمل دینے کے برداشت کرے اور کوئی آپ کے موقف، فکر ، نظریہ اور خیال سے مختلف رائے اور خیال اختیار کرے تو آپ اسے برداشت کریں اور اس کا حق اختلاف تسلیم کریں۔یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق صبر و برداشت اور تحمل کا بنیادی تقاضا ہے۔
قومی زندگی میں صبر وبرداشت ایک فرد کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور فرد کے مقابلے میں قوم کی اجتماعی زندگی میں صبر وبرداشت کی کہیں زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قدم قدم پر اس کی ضرورت ہے۔ آج دیکھئے کہ ہم صبروبرداشت نہ کرنے کی وجہ سے کہاں کھڑے ہیں؟ اجتماعی اسٹیج پر دیکھا جائے تو صورتحال یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کوتیار نہیں۔
کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی، لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر تحمل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے توزندگی گزارنامشکل ہوجائے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔رسولِ اکرم ؐنے جب نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپؐکے لیے اجنبی بن گیا، وہی لوگ جن کے درمیان آپ ؐ کا بچپن اور جوانی گزری، جو آپؐ کی امانت و صداقت کے بڑے مداح اور عاشق تھے،وہ آپؐ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے۔
عرب کی اجڈ قوم کے دل و دماغ میں اسلام اور آپ ؐ کی بے پناہ محبت اتنی جلدی کیسے رچ بس گئی اور کس طرح اَن جانے دشمنوں نے دل و جان سے آپؐ کی امارت واطاعت قبول کرلی، یقیناً اس پر انسانی عقل دَنگ رہ جاتی ہے اور حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے اس تاریخی انقلاب میں جہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شیریں زبان، اعلیٰ اخلاق، بہترلب ولہجہ اور پیہم جدوجہد کا حصہ ہے، وہیں آپؐ کا صبر و تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ بلاشبہ صبرو تحمل کا وصف انتہائی مفید و معنی خیز ہے، اس سے سعادت و بھلائی اورسکون و اطمینان کے مواقع تو ہاتھ آتے ہی ہیں، ساتھ ہی صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کی قیادت و امامت کا درجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، اللہ نے اپنا یہ دستور اور قانون بہت پہلے ہی ان الفاظ میںبیان فرمایا ہے : ’’ ہم نے ان میں سے بعض کو قائد اور امام بنایا جو ہماری باتوں سے لوگوں کو واقف کراتے تھے، یہ ان کے صبر کا بدلہ ہے۔‘‘
رسولِ اکرم ؐ کی پوری زندگی صبر و تحمل سےعبارت ہے،اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے، پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طورپر جذبات کی رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دُوررس نگاہ متاثر ہوجاتی ہے اور سوچ و تدبّر کا مزاج نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر سیرتِ نبویؐ کے اس پہلو کو اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔
آج قوم کو جس قدر اپنی اجتماعی زندگی میں صبروبرداشت کی ضرورت ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے اس کی اتنی ضرورت کم ہی پیش آئی ہے۔ آج ہمیں اپنے ناکافی وسائل اور کمزور نظام کے ساتھ کورونا کی خطرناک وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ وقت ہے کہ پوری قوم ایک ہو۔ تمام اختلافات بالائے طاق رکھے جائیں ۔ہم ایک قوم ہیں، ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ ہی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام لوگ ایک پیج پر آجائیں، کوئی دوسرے کو زیر کرنے کی سوچ نہ پالے۔ صبروبرداشت کے ذریعے ہی ہم سرخرو ہوسکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ (آمین)