شادی نہیں، پہلے لڑکی کو خودکفیل بنائیں

سیدہ رباب نقوی
پونچھ
تعلیم کسی بھی قوم کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے، پھر وہ چاہے لڑکا ہو یالڑکی۔لڑکیوں کی تعلیم بہت اہم ہے کیونکہ وہ گھر کی عورتوں کے لیے نہ صرف فخر کا باعث ہوتی ہیں بلکہ انہیں اپنے آپ کو ہر وقت سے بہتر بنانے کا موقع بھی دیتی ہیں۔لڑکیوں کو تعلیم دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کی اچھی زندگی کی خواہشات پوری کریں انہیں خود مختار بنائیں۔ آج پوری دنیا میں خواتین کے حقوق پر باتیں کی جاتی ہیں اور ان کے حقوق کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمارے معاشرے میں پچاس فیصد سے زیادہ خواتین کا شرح ہے جن کی اعلی تعلیم کروانے کے بجائے ان کی شادی کروا دی جاتی ہے۔کیوں کہ ایک خاندان میں یا ایک گھر میں 6 سے11 زندگیوں کا بوجھ ہو تو ایسی صورتِ حال میں لڑکیوں کی تعلیم کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔کسی لڑکی کی تعلیم اسے خود ساختگی، اعتماد بخش،خود کفاتگی اور مستقبل کی سوچ کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنے دنیاوی مسائل کے حل کیلئے خود بہتریں فیصلے کر سکتی ہے۔ خواتین کی تعلیم معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے وہ معاشرے کے ساتھ مل کر اس کی خدمت کر سکتی ہے۔ دراصل،تعلیم مرد اور عورت کے بیچ کا فرق ختم کرتی ہے اگر وہ تعلیم یافتہ ہو تو اسے مذہب، زبان،جنسیت وغیرہ پر کوئی فرق نہیں کرنا پڑے گا، کسی لڑکی کی تعلیم اس کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک لڑکی، ایک عورت کے کردار کو صرف بیوی،ماں اور بہن کے خانوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔مگر اسکے باوجود ایک بیٹی ایک عورت کا وجود کہیں گم ہے اور اس وجود کا اندازہ ہمیں صرف تب ہوتا ہے جب اس لڑکی کو اپنوں کے غیر ہوتے رویے برداشت کرنے پڑتے ہیں اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ اگر لڑکیوں کو تعلیم یافتہ اور باشعور کیا جائے تو کیوں وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں؟ آج لوگ اپنی بیٹی کی تعلیم پر خرچنے سے زیادہ ان کی شادی پر خرچنا فخر سمجھتے ہیں۔ میری بات تلخ ضرور لگ رہی ہوگی مگر سچ یہ ہے کی لڑکیوں کو اتنا پڑھا کر شادی کروائیں کہ اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر ناجائز طنز نہ سہنے پڑیں۔
کم عمری میں شادی کروانا یا بنا تعلیم کی شادی کے نتیجہ کسی بھی لڑکی کی زندگی کو لے ڈڈوبتی ہے۔ کہیں تو پوری اپنی زندگی پچھتاوے میں گزارتی ہیں،کہیں تو ظلم و ستم کے ساتھ اور کہیں طلاق کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ ایک لڑکی چاہے چاند پر پہنچ جائے مگر معاشرے کی سوچ ویسی ہی رہے گی۔ وہ کہتے ہیں یہ پڑھائی خود مختار وقتی مشغلہ ہو تو پھر خیر ہے لیکن زندگی کا کل حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ہونا چاہیے لڑکی کا کل حاصل وہ تعریف جو ان کے کباب کھا کے جو آج تک خوشی خوشی انہوں نے سنبھال کے رکھی ہے۔ قیمہ کتنا پیسنا چاہیے، نمک، مرچ، مسالے باریک وغیرہ کتنا ہونا چاہیے، یہ ہے ایک ذہنی بیٹی یا عورت کے سفر کا نقطہ عروج۔ یہ لڑکی غلط وہ لڑکی غلط اپنی شناخت اپنی پہچان کی خواہش کرنے والی ہر لڑکی غلط۔ اس کھانا بنانے کے سفر میں ہر سوچ ہر نظریے کو بھی پیس ڈالو اور شادی کر کے ساری عمر بس یہ سوچتے رہو کہ کب کس نے آپ کے کھانے کی تعریف کی؟ کب کس نے آپ کے کفایت شعاری کی، اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ سب چیزیں اپنے سپنے، اپنی اڑان، اپنی تعلیم اپنی ہر وہ چیز جس سے اسے خوشی ملتی ہو، کو بلا کر ایک کارپٹ کے نیچے کر دی جائے کیونکہ رشتہ اچھا ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسا بھی ہوتا ہے اگر لڑکی کو پڑھنے بھیج بھی دیا جاتا ہے تو اسے یہ کہا جائے گا دو سال کا وقت دے رہے ہیں جو کرنا ہے کرو اور پھر شادی کروانی ہے۔ وہ کامیاب ہو نہ ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اصل بات تو ان کی شادی کروانی ہے۔ اسی سلسلے کو نظر میں رکھ کر میں مہنڈر (صلواہ) میں ایک لڑکی مہناز کوثر سے جب بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میں اور میری چچازاد بہن ہم دونوں اپنے پورے خاندان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتی تھی۔ لیکن گھر میں اتنے افراد ہونے کی وجہ سے ہماری پڑھائی کو نظر انداز کیا گیا اور ہماری شادی کروا دی گئی جس کا ہمیں بہت دکھ ہے کیونکہ شادی کے بعد طنز کے ساتھ کیسی پڑھائی۔ وہیں دوسری طرف ہمارے ہی گاؤں سیڑی چوانہ میں ایک انجم نام کی بہن جو ایک غریب گھر سے تعلق رکھتی تھی جو اپنی سکالرشپ کی بیس پر اپنی شادی شدہ بہن کے ساتھ جموں میں رہ کر پڑھائی کر رہی تھی، ابھی وہ بارہویں جماعت میں ہی تھی کہ اس کا رشتہ کر دیا گیا پھر چند ماہ میں اس کی شادی، اس کے بعد لڑکے اور لڑکی کی آپس میں نہ بننے کی وجہ سے ان کا طلاق ہوگیا۔جس سے صرف اس لڑکی کی زندگی پر اثر پڑا کیوں کہ اس کی اگر اعلی تعلیم کروائی ہوتی تو آج اس کو اتنی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اپنی آواز آپ بنتی۔
ایسی ہی کہانی بانڈی چیچیاں کی رہنے والی ایک خاتون کی ہے۔جسکا نام گلشن ہے جو کہ بہت ہی پڑھائی میں اچھی تھی اور ہمیشہ سے اچھے نمبرات لے کے پاس ہوتی تھی جس نے اپنی تعلیم بہت ہی اچھے سکول سے مکمل کی ہے اور آگے کی تعلیم کے لئے کالج میں داخلہ بھی لیا تھا۔ اور کالج میں بہت اچھے نمبرات کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہی تھی لیکن اسی دوران اس کی شادی کروا دی گئی۔ شادی کے بعدوہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکیں۔سفر کے دوران جب میری ملاقات گلشن سے ہوئی تو میں نے دیکھا وہ گاڑی میں اپنے ایک مہینے کے بچے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ جب میں نے اس سے اس کی پڑھائی کے متعلق پوچھا تو وہ بولیں کہ اس کی شادی کو ہوئے دو سال ہو چکے ہیں اور وہ گھر کی الجھنوں میں پھنس چکی ہے اور پڑھائی پر دھیان نہیں دے پا رہی اس لئے مجبوراً اسے پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ آخر ہمارے اس معاشرے کو کب سمجھ آئے گی کہ اگر لڑکاآج ہے تو لڑکیاں کل ہیں، ان کی تعلیم پر پیسہ لگائیں کے ہر بیٹی کی زندگی مہناز، انجم، گلشن کی طرح نہ ہو۔اس لئے ضروری ہے کہ لڑکی کی شادی سے پہلے اسے خودکفیل بنانے پڑ زور دیں۔ اس کی تعلیم پر وقت خرچ کریں۔(چرخہ فیچرس)