شادی بیاہ۔۔۔فطرت کو گوارا نہیں تاخیر کا دستور فکرو ادراک

بشارت بشیرؔ

اخلاقی بدیوں وبرائیوںکا ایک سیل سبک رو ہماری معاشرتی بنیادوں کو ہلا رہا ہے۔ اس سیلاب کو روکنے کی تدابیر کی بات ضرور ہورہی ہے۔لیکن کوئی روک اس لئے نہیں پا رہا ہے کہ خو د اس بھنور میںہچکولے کھا رہے ہیں وجوہات پر غور کیا جائے تو اس اخلاقی بگاڑ کی ایک اہم ترین وجہ اپنی اولاد یعنی نئی نسل کی شادیوں میںتاخیر کا کریہہ عمل بھی ہے۔ اس بات سے کسی کو انکارنہیں کہ انسانی محرکات عمل میں جنس یعنی سیکس سب سے طاقت ور محرک عمل ہے اور اگر درست وقت پر اور مناسب عمر میںہم اپنی نسل نوکی شادیوں و نکاح کا بندوبست نہ کرسکے تو لازماً اُس کے منفی اثرات ہوں گے اور اندر ہی اندر یہ لاوا پک کر اخلاقی اور روحانی اقدار کی بیخ کنی جس انداز میںکررہا ہے، عیاں ہے اور بیان کرنے کی چندان ضرورت نہیں۔ بچوں کی شادیوں میں یہ تاخیر بے شمار اور نت نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔اس تعلق سے والدین مختلف وجوہات بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ بچہ ابھی تربیت وتعلیم کے مراحل سے ہی گذر رہا ہے بس سائیڈ میں تھوڑے پیسے کما رہا ہے ، ڈھنگ کا جاب ابھی ملا نہیں ۔ کسی بیرونی ملک میںکام کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے، ابھی گھر کے بہت سارے مسائل ہیں جن کا حل ہونا باقی ہے، بچہ شادی کے بندھن میںبند گیا تو مکان کی تعمیر نو ہونے سے رہ جائے گی، چھوٹے بھائی بہنوں کی پڑھائی بھی متاثر ہوگی، کسی رقبہ زمین کی خریداری بھی شاید ناممکن بن جائے۔اب اگر خیر سے اچھی نوکری مل بھی گئی یا باہر کوئی نفع بخش کام میسر آیا تو پھر شادی میںمزید طوالت اس لئے کہ مناسب رشتہ مل نہیں رہا ہے، شادیوں کے حوالہ سے یہ پہلا مرحلہ بہت صبر آزما اور سخت ہوتا ہے ۔ پہلے لڑکی کا سو طرح سے امتحان لیا جاتا ہے ۔والدین کی دولت کودیکھا پرکھا جاتا ہے ، رنگ ، قد ، خوبصورتی ، تعلیم ، عمر اور نوکری یہ بھی دیکھنے بالنے کے خاص پیمانے ہوتے ہیں۔ آئیڈیل اور ہم پلہ ہونے کی تلاش بھی سوہان روح بن جاتی ہے۔اکثر اوقات صاحبان دختران میں سے بھی کچھ والدین ایسے نظر آتے ہیں جن کی بیٹیاں سرکاری یا کوئی پرائیویٹ جاب کرتی ہیں۔اُن کا یہ برسر روزگار ہونا بھی اُن کی شادی میں کہیں کہیں رکاوٹ کا باعث بن جاتا ہے۔کیونکہ ایک اچھی خاصی رقم ماہانہ اُن کی تنخواہ کی شکل میں گھر کی پوٹلی میں جمع ہوجاتی ہے۔ اس آمدنی سے گھر کے کچھ اخراجات بھی پورے ہوجاتے ہیں۔اور چھوٹے بہن بھائیوں کی پڑھائی لکھائی کا بندوبست بھی اس آمدنی سے ہوتا ہے۔ یوں دونوں اصناف کی عمریں ڈھل جاتی ہیں۔چہروں کی تازگی ختم ہوکے رہ جاتی ہے اور اس فطری جبلت اور جنسی ضرورت کی تکمیل کا جب درست بندوبست نہ ہو تو اس کے نتائج بھی واقعتا کچھ اچھے نہیں ہوں گے۔ یوں اخلاقی بگاڑ کے آئے سیلاب پر بھلا پھر باندھ کیسے باندھا جاسکتا ہے۔
وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ)
ترجمہ :’’ وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے پھر اس کی جنس سے ایک جوڑا پیدا کیا ،تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے‘‘۔[سورہ:روم : آیت :21]
یاد رہے کہ اسلام تجرد کی زندگی کو پسند ہی نہیں کرتا ۔عصر حاضر میں کچھ اہل مغرب اور مغرب متاثرین نے شادیوں کو غیر اہم بنادیا ہے ۔ اُن کی سوچ کے مطابق انسان اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اپنے فطری جذبات کو جیسے چاہے پورا کرے۔ وہ لوگ اس تعلق سے کسی بندھن یا پابندی کے قائل نہیں۔ چونکہ شادی کو ان لوگوں نے ایک کھیل تماشا بنا کے رکھا ہے اس لئے اُن کے ہاں گھر گرہستی کی کوئی سوچ ہے اور نہ کسی خاندان کا تصور۔اقارب واعزہ کی اصطلاحوں سے جیسے وہ نابلد نظر آتے ہیں۔ ماں اور بچوں کے درمیان کوئی ربط وتعلق نہیں ۔ اس ہیجان انگیز ماحول میں خود مغرب کے حساس اور سنجیدہ صفت لوگ پریشان ہیں۔
اسلا م نے ہی ان سبھی مسائل ومعاملات کا حل دیا ہے کیونکہ یہ فطرت واعتدال کا دین ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ :
(فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ للَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیلَ لِخَلْقِ للَّہِ ذَٰلِکَ الدِّینُ لْقَیِّمُ وَلَـٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ)[سورۃ الروم :30]
ترجمہ : ’’ یہ فطرت (یعنی فطری جذبات)اللہ کی طرف سے ہے اسی فطرت پر انسان قائم ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرے‘‘۔
اسلام نکاح کو روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا ہے۔ اس لئے اس نے نکاح کو اس قدر آسان بنا کررکھ دیا ہے۔ ایجاب و قبول ، عورت کے لئے ولی کا ہونا ، کچھ مہر کی ادائیگی ، دو گواہوں کا ہونا ۔ یہ نکاح کے بنیادی شرائط ٹھہرے ہیں۔اس کے لئے بھاری بھرکم اخراجات اُٹھانا ، شاہ خرچیاں ، بڑی باراتیں ، ٹھاٹھ باٹھ ، یا نام ونمود کے اظہار کی کوئی بھی شرائط موجود نہیں اور نہ اسلام فضول خرچیوں اور اسراف وتبذیر کی اجازت دیتا ہے۔اُس نے مبذرین کو شیطان کے بھائی تک کہا ہے ۔ ہم تھوڑا پیچھے جائیں تو صاف نظر آئے گا کہ شادیوں کا تصور کیا تھا ۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کون نہیں جانتا ، اُن کے فضائل ومناقب سے کون آشنا نہیں ۔ عشرئہ مبشرہ میںسے ہیں ۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے آئے ،بازار کا راستہ لیا ، پنیر فروشی کا کام شروع کیا ۔ اس عمل سے یہ پیغام بھی دیا کہ مسلمان کسی بھی شدید ترین صورتحال سے بھی گذرے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے ۔ کسی پر وبال نہ بنے ۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرے۔ اور حلال رزق کے حصول کے لئے کسی بھی جائز پیشہ اور کام کو حقیر نہ سمجھے ۔ صحابیت رسول کے اعلیٰ درجے پر فائز اس عظم المرتبت شخصیت نے پنیر بیچنے کا کاروبار چھوٹے پیمانے پر شروع کیا ۔ اللہ نے برکت دی ۔ایک روز دربار نبوی میںحاضر ہوئے ۔ مبارک کپڑوں پر زعفران یا خوشبو کا کوئی نشان دیکھ کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ عبدالرحمنؓ آپ نے شادی کی ہے؟ جی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے شادی کی ہے، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ‘‘۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حیرانگی کا اظہار نہیں فرمایا : کہ عبدالرحمن تم نے شادی کی ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ، نہ یہ فرمایا : مجھے نہیں بلایا، نہ یہ سوال کیا : نکاح کس نے پڑھایا ، بارات میںکتنے لوگ تھے، کہاں شادی کی ۔ بس اتنا فرمایا : ولیمہ ہوا ۔ عرض کیا نہیں ہوا۔ تو فرمایا: ولیمہ کرو ،چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ہے اسلام کے یہاں شادی اور نکاح کا تصور ۔
ایک اور واقعہ ملاحظہ ہو: ۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہماری اسلامی تاریخ کے تابندہ تارے ہیں ،عظیم صحابی تھے ، والد گرامی أحد میں جام شہادت نوش کرچکے تھے، اپنے پیچھے کئی بیٹیاں بھی چھوڑ گئے تھے۔ اُن کی کفالت کی ذمہ داریاں بھی اب بھائی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ پر آن پڑی تھی۔ دربار نبوی میںآنا جانا رہتا تھا۔ ایک دن سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : جابر تم نے شادی کی ۔عرض گذار ہوئے ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔جواب میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بس اتنا فرمایا : کنواری سے شادی ہوئی یا بیوہ سے ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ گویا ہوئے کہ بیوہ سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باکرہ سے کرلیتے تم اُس کے ساتھ کھیلتے و ہ تمہارے ساتھ کھیلتی ۔جواب میںحضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری چند بہنیں میرے ساتھ ہیں ، مجھے (کنواری نکاح میں لانے میں ) یہ خوف لاحق ہوا کہ وہ کہیں میری اور اُن کی محبت میںرکاوٹ نہ بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :تم نے ٹھیک کیا۔عورت سے شادی اس کا دین دیکھ کر ، اس کا مال دیکھ کر ، اس کی خوبصورتی دیکھ کر کی جاتی ہے ۔تو تم کو دیندار عورتوں کو ترجیح دینی چاہیے۔
بہر حال معاملہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہوگیا کہ اسلام نے انسان کی اس فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نکاح کو آسان بنادیا ہے اور اس عمل کو طول دینے کے مضراثرات ہم سب پر ظاہر و باہر ہیں ہی۔ یعنی اسلام نکاح کو ایک فطری انسانی ضرورت سمجھ کر ، اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مرد اور ایک عورت کو لگے بندھے قواعد وضوابط کی روشنی میں شادی کی بندھن میں باندھنے کیلئے سادگی کا ہی درس دیتا ہے۔ یہ واقعات ہمیں یہ سمجھانے کیلئے کافی ہیں کہ ہم نے نسل نو کی شادیوں کو روکے رکھنے کے جو جواز گڑھ لئے ہیں درست نہیں ہیں۔ ہمارے اس طرز عمل سے معاشرے میں جو اخلاقی انارکی اور بگاڑ پیدا ہورہا ہے اس کے منفی نتائج بہت سنگین ہیں۔لازم ہے کہ انسانی معاشروں کی صحت مند تعمیر کے لئے بزرگ اور والدین اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیں۔ یاد رہے اپنی اولاد کی شادیوں کے حوالہ سے اُن کا تساہل مجرمانہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس غفلت کے نتیجے میںکوئی کوتاہی نسل نو سے سرزد ہو تو والد ین گناہ سے اپنا پلہ جھاڑ نہیں سکتے۔ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’ اے جوانان ملت جن لوگوں کو تم میں سے شادی کرنے کی قوت وطاقت حاصل ہے ، وہ نکاح کرلیں ۔ اور جو اس طاقت سے عاری ہیں ، وہ روزہ رکھ لیں ۔‘‘ اندازہ کیجئے کہ کس قدر اہم امر ہے ۔ اس لئے اپنی نگاہوں کو نیچے رکھنے کا حکم قرآن بہ اصرار دے رہا ہے کہ نظر دل میں اُتر کر رہ جاتی ہے۔ اور پھر فتنے کی چنگاریاں آگ بن کر اخلاق وسیرت کے محل کو بھسم کرکے رکھ دیتی ہیں۔ ہمارے پاس بہت سارے نوجوان ایسے بھی آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم برسرروزگار بھی ہیں لیکن والدین نت نئے بہانے تراش کر اُن کی شادیوں کو طول دے رہے ہیں۔ کہیں ذات برادری کا بہانہ بنالیتے ہیں کہیں ہم پلہ و ہم سر نہ ہونے کا حیلہ تراشا جاتا ہے ۔ کہیں تعلیم میںکچھ کمی بیشی کا رونا رویا جاتا ہے ،کہیں مزید کچھ بہانے تراشتے جاتے ہیں۔ کہیں مزید کچھ دور کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں ۔یوں ایسے والدین نہیں جانتے کہ وہ کر کیا رہے ہیں۔ اُنہیں احساس بھی نہیں کہ ’’ اللہ پنج انگشت یکسان نہ کرد‘‘ یعنی اللہ نے پانچ انگلیاں ایک سی نہیں بنائی ہیں۔ کچھ اونچ نیچ تو ہر معاملے میںرہتا ہے ۔اُنیس بیس کا فرق ہونا لازمی ہے۔ جو چیز دیکھنے بھالنے کی تھی وہ ہم دیکھ نہیں رہے ۔ یعنی تقویٰ ودینداری مگر یہ اصطلاحیں تک بھی ہمیں شادیوں کے موقع پر یاد تک نہیں آتیں اور ’سماج میںاپنی ناک کا بھرم‘‘ رکھنے کے لئے ہم کیا کیا نہیں کرتے یہ ایک داستان الم ہے۔ آج بھی ہم دین سے قریب تر ہوں اور تقویٰ ہمارا شعار بن جائے ۔ تو پھر یہ انسانی سماج قابل رشک بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیںزندگی کے ہر شعبہ میںاسلام سے رہنمائی کے حصول کی توفیق عطا کرے۔ آمین
)رابطہ ۔7006055300)