شادیوں میں تاخیر کی وجہ ؟ | لمحۂ فکریہ پیر محمد عامر قریشی

نکاح کو اسلام میں متعدد ذمہ داریوں کے ساتھ ایک سماجی معاہدے کے طور پر دیکھا جاتاہےنہ کہ وہ عہد جو صرف جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ الٰہی عقیدے کے مطابق، عورت ایک روحانی اور اخلاقی وجود ہے جس پر اللہ کو گواہ بناکرمقدس وعدے کی بنیاد پر ایک مقررہ مہر کے تحت مرد کو دیاجاتا ہے۔ وہ بھی محض مرد کے ہاتھ میں کھیلنے کی چیز کے طور پر نہیں،بلکہ انسانیت کی بقا ،با مقصد زندگی کے حصول اورخاندان کے وجود کی برقراری کے لیے دیا جاتا ہے۔ میاں بیوی بننے کا مقصد صرف ایک دوسرے کی جنسی خواہش کو پوراکرنا نہیں ہوتا بلکہ اس مقدس رشتے کا مقصد ایک دوسرےکی زندگی کا ہمسفر، ساتھی اورصلاح کاربننےکے ساتھ ساتھ، آپس داری کا پاس و لحاظ رکھنے، ہر معاملے میں تعاون ِکار رہنے اور سلسلۂ نسب چلانے کاہوتا ہے۔اسی لئے اسلام نےمرد اور عورت کے درمیان میاں بیوی کےرشتے میں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔
بلا شبہ نکاح زندگی کا ایک اہم معاملہ ہے، لہٰذا اس سلسلے میں اگر کوئی مشورہ طلب کرے تو اسے درست اور صحیح مشورہ دینا چاہئے۔ لڑکا یا لڑکی یا اس کے خاندان کے بارے میں جو اچھی باتیں معلوم ہوں، انہیں بتانا چاہیے اور اگر کوئی نامناسب بات معلوم ہو تو اُسے بھی بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اسلام میں عفت ایک شرط ہے۔ اسلامی قوانین میں ایک شخص کو شائستہ،ایمان دار، ہمدرد ،مہربان، وفادار اور انسان دوست ہونا چاہئے اور پانچ وقتہ نمازوں کا پابندہونا چاہئے، لیکن ہم جو مشاہدہ کرتے ہیں، وہ یہی ہے کہ ان سب باتوں کو بالائے طاق رکھ کرشادی کے لئے لڑکے اور لڑکیوںکو محض اُن کی ملازمت ،عہدہ داری اور آمدن کے پیمانوںسے تولا جاتا ہے، جس سے بیشتر معاشرتی مسائل پیدا ہوچکے ہیں، جن میں شادیوں میں تاخیر ، طلاقیں،نام نہاد محبت کی شادیاں اور خود کشیاں بھی قابل ِ ذکر ہیں۔حالانکہ قرآن میں کہیں بھی لڑکے یا لڑکی کی ملازمت یا عہدہ داری کا تذکرہ شرطِ شادی کے طور پر نہیں کیا گیا، اس کے باوجود یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ گذشتہ چند دہائیوں سےہمارے معاشرے میں شادیوں کے معاملے میں سرکاری ملازمت کرنے والوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ دیگر پیشوں سے منسلک ہنر مندوں ،کاری گروں،محنت کشوںاور چھوٹے چھوٹے تاجروں کوکوئی اہمیت نہیںدی جاتی۔گویا واضح طور پر امتیازی طرزِ عمل پر شادی بیاہ کے معاملات کو طے کرنےکی نئی رسم رائج کردی گئی ہے۔یہ دیکھے بغیر کہ لڑکے کی ملازمت ،عہدہ داری یا ذرائع آمدن جائز ہے یا ناجائز،حلال ہے یا حرام یالڑکااہل ہے یا نااہل،رشتے کے لائق ہے یا نہیں۔
یہ سروے برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال، مدھیہ پردیش انڈیا کی ہے۔ جس سے پتہ چلا کہ 98.33 فیصد مرد وں کو بے روزگاری کی وجہ سے شادی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہمیں اللہ تعالیٰ پر اٹل یقین ہونا چاہیےکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ اگر تم اللہ پر دل سے بھروسہ کرو گے تو وہ تمہیں اسی طرح رزق دے گا، جس طرح پرندوں کو دیتا ہے جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں‘‘۔ شادی کے لیے ملازمت شرط نہیں ہےبلکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہوا ہے اور اب ہر معاملے میں لالچ،ہوس اور خود غرضی کا بول بالا ہے۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے 2011 کے مطالعے کے مطابق، جو مرد بے روزگار ہیں، ان میں ملازمت کرنے والے کے مقابلے میں طلاق کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہمیں اسلام اور اللہ تعالیٰ کاپُرجوش پیروکار ہونا چاہیے۔ چونکہ معاشرے کا بڑا حصہ اللہ کے احکامات اور نبی کریم ؐ کے ارشادات سے غافل ہے، اس لیے ہم زندگی کے تمام شعبوں میں مسلسل غلط فیصلے کر رہے ہیں۔ بے روزگاری نہ کوئی بیماری ہے اور نہ ہی گناہ، اس لئےبے روزگاروں کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور انہیں ان کے حقوق بھی ملنے چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے وہ راستہ روشن کرے جسے ہم بالکل بھول چکے ہیں۔
(مضمون نگار،حیوانیات میں ایم ایس سی کر رہے ہیں۔ اسےehssanamy133@ gmail.com
پر میل کیا جا سکتا ہے)