سیاحوں پر جان دینے والے کشمیری ٹورسٹ گائیڈ

غازی سہیل خان
سورہ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے ساری انسانیت کی جان بچائی ‘‘۔اس آیت کے مصداق کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیورسٹ گائیڈ نے ایک سیاح کی جان بچاتے بچاتے اپنی جان بھی گنوا دی ۔ویسے بھی کشمیر یوں کا صدیوں سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ہی مہمانوں پہ کسی بھی قسم کی آنچ نہیں آنے دی بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے بہت سارے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جس دوران کشمیر کے بہادر سپوتوں نے اپنے جانوں قربانی دے کے دوسروں کی زندگیوں کو بچایا ہے ۔ویسے بھی ایک مسلمان پر قرآن کریم کی رو سے یہ فرض ہے کہ جب جہاں کہیں بھی کسی مسلمان کو کوئی بھی انسان چاہیے وہ کسی بھی مذہب و دین کا ہو ،اگرضرورت مند ہو یا کسی مشکل میں ہو تو اُس کی مدد کرنا فرض اولین ہے ۔اسی فرض کو نبھاتے ہوئے کشمیر کی مٹی سے ایک بہادر ٹیورسٹ گائیڈ نے جنم لیا اور گزشتہ دنوں ایک سیاح کو بچاتے ہوئے اپنی جان کی بازی بھی ہار گیا ۔یہ واقعہ حالیہ ہفتے پہلگام میں رونما ہوا۔ کشمیر میں چار دن تک لگاتار بارشوں کا سلسلہ لگاتار چلتا رہا جس کے سبب سیلابی صورتحال کشمیر میں پیدا ہو گئی تھی، ندی نالوں میں پانی کا بہائو بڑھ گیا تھا ۔سیاحتی مقامات پہ سیاحوں کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، پہلگام کی تارسر جھیل کے مقام پر بھارت کے ایک سیاح اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ وہاں موجود تھے، جن کے ساتھ چند ٹیوریسٹ گائیڈ بھی تھے، ان میں ایک گائیڈ شکیل احمد بھی تھا ۔ہوا یوں کہ ایک سیاح’’ڈاکٹر مہیش‘‘ پہلگام کشمیر میں تارسر جھیل کے مقام پر ایک عارضی پُل پار کرنے کی کوشش میں اپنا توازن کھو کر جھیل میں گر گیا۔اسی اثنا میں اُن کے ساتھ ٹورسٹ گائیڈ شکیل احمد کو مہیش پر نظر پڑی کہ وہ جھیل میں گر گیا ہے تو اُس نے مہیش کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے باہر نکالنے کی کوشش کی۔لگ بھگ دو سو میٹر تک شکیل مہیش کا ہاتھ پکڑے رکھا، تاہم پانی کا بہائو اتنا زیادہ تھا کہ ان دونوں بدقسمت انسانوں کو پانی اپنے ساتھ بہا کے لے گیا۔اس طرح سے شکیل نے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کی اور انسانیت کے لئے ایک بہادری اور ہمدردی کی ایک زندہ مثال چھوڑ کے اس دنیا سے چلے گئے ۔اس سے قبل شکیل نے پانچ سیاحوں کو ہاتھ پکڑ کے یہ عارضی پُل پار کروایا تھا۔شکیل اورڈاکٹر مہیش کے ڈوب جانے کے بعد انتظامیہ نے ان کی نعشوں کو ڈھونڈنے کا کام شروع کیا اور اگلے دن شکیل کی لاش کو دریاے لدر وٹھ کے مقام پر نکالا گیا،وہیں ڈاکٹر مہیش کی نعش تادم تحریر ملنا باقی ہے، جس کی انتظامیہ کی بڑے پیمانے پر تلاش جار ی ہے ۔شکیل کی نعش ملنے کے بعد مرحوم کے ایک دوست کوہ پیماعارف احمد مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’اپنے دس سالہ کیئرئیر کے دوران شکیل نے ہمیشہ سیاح کی زندگی کو ترجیح دی ہے ۔عارف نے کہا کہ وہ انتہائی دلیر اور با ہمت نوجوان تھا اور رواں سال شادی کا ارداہ بھی رکھتا تھا۔گگنگیر گاندربل سے تعلق رکھنے والے 26؍سالہ ٹورسٹ گائیڈ شکیل احمد، جس نے انسانیت کے لئے ایک مثال قائم کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے کو کشمیر اور باہر کی دنیا میں اسے سراہا جا رہا ہے ۔بلکہ جواں مردی ،ہمت اور جرأت کا استعارہ قرار دیا جا رہا ہے ۔کیوں نہیں جب کوئی نوجوان جس کو یہ معلوم ہو کہ یہاں زندگی اور موت کا سوال ہے، اس کے باوجود بھی اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک انسان کو بچانے کی کوشش میں ساری انسانیت کو ہی بچالیا گیا۔سیاحتی صنعت سے وابستہ لوگوں کے علاوہ سماجی رابطہ کی ویب سائیٹس پہ بھی شکیل احمد کی بہادری کی داد اور خراج پیش کیا جا رہا ہے ۔گاندربل کے ہی ایک سماجی کارکن فاروق گاندربلی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’یہ کشمیر کی اصل پہچان ہے جہاں لوگ اپنے آپ کی فکر کئے بغیر دوسروں کے لئے جانیں قربان کرتے ہیں ۔پیپلز کانفرنس کے یوتھ جنرل سیکرٹری مدثر کریم نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں شکیل کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی جان کی قربانی دینا ہی سچی کشمیریت ہے ۔ایک صارف نے لکھا کہ ’’اس دانائی پر کچھ بحث تو کی جا سکتی ہے تاہم انسان کو بچانے کی اس کی بے لوث خوبی سے انکار نہیں کر سکتے ‘‘۔وہیں ایک اور صارف نے کہا کہ شکیل احمد نے بے لوث بہادری اور انسانیت کی بہترین مثال قائم کی ہے ۔
واضح رہے کسی غیر مقامی سیاح کو کسی کشمیری کی اور سے بچانے کے دوران اپنی جان گنوا دینا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے جاں باز کشمیریوں نے ملک کی مختلف ریاستوں کے افراد کی جانیں مختلف مقامات پر بچائیں ہیں ۔2019؍ میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پہلاگام میں دریائے لدر میں رافٹنگ کے دوران کشتی کے اُلٹ جانے سے پیش آیا، جس میں محکمہ سیاحت کا ایک ملازم اور ایک خاتوں سیاح ’’سنجنا‘‘ ساکن جموں ڈوب گئے جب کہ کشتی میں سوار مزید 6؍افراد بھی ڈوب گئے تاہم انہیں بچا لیا گیا تھا۔مذکورہ واقعہ میں بھی ایک ٹورسٹ گائیڈ ’رئوف احمد ڈار‘ سیلانوں کی کشتی ڈوبنے کے دوران ،انہیںبچاتے ہوئے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔یعنی کشمیری اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کسی بھی انسان کی جان بچانے کو ترجیح دیتا ہے ۔اس ساری صورتحا ل کے دوران ایک ریسرچ اسکالر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا کہ اس واقعہ کے بعد بھی ملکی میڈیا کشمیریوں کو دہشت گرد کے طور دیکھانا بند نہیں کرے گی بلکہ کشمیریوں کو انسانیت کے خلاف بنا کے پیش کیے جا رہے ہیں ۔ ایک اور سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات کے بعد بھی ’کشمیر فائلز ‘نام کی فلموں کی صورت میں کشمیریوں کے خلاف پروپگنڈہ کر کے ان کی شبیہ کو خراب کرنے کی نا کام و نامراد کوشش کی جاتی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی میڈیا کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے نوجوانوں کے اصل کرادر کو پیش کریں کہ کس طرح سے وہ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر انسانوں کی جان بچانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور ملکی عوام کو بھی زمینی حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ میڈیا میں کس طرح سے جھوٹ کا سہارا لے کے کشمیریوں کو بدنام کرنے کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے ۔ جموں کشمیر کی حکومت کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے حادثات کو روکنے کے لئے موثر اقدامات اُٹھائیںتاکہ جو لوگ سیاحت سے جُڑے ہوئے ہیں ،اُن زندگیان کا بھی محفوط ر ہ سکیں اور جو لوگ اس طرح کے حادثات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں، اُن کے وارثوں کی بھر پور امداد کریں ۔
(رابطہ۔ 9906664012)
<[email protected]>