سنیاس کہانی

ڈاکٹر مشتاق احمدوانی
وہ کم عمری ہی سے مظاہر فطرت پر غور وفکر کرنے کا عادی تھا۔کبھی وہ آسمان کی وسعتوں پہ نظریں دوڑاتا تو کبھی گردش لیل ونہار کے بارے میں سوچتا ۔کبھی وہ موسموں کے تغیر وتبدل ،فلک بوس پہاڑوں،دشت وصحرا،آگ ،پانی ،ہوا،بارش، دھوپ ،چرندوں ،پرندوں ،درندوں اورحشرات الارض کے بارے میں سوچتے سوچتے خالق کائنات کی صناعی پر ششدر رہ جاتاتوکبھی وہ اپنے جسم وجاں پر غور وفکر کرنے کے بعد اپنے من میں ڈوب کر پاجاسراغ زندگی کا جتن کرنے لگتا۔اُس نے سُن رکھا تھا کہ خاموشی آدھی عبادت ہے ۔اسی لئے وہ زیادہ تر خاموش رہنے کوترجیح دیتا تھابلکہ اُس نے خاموشی کو موضوع بناتے ہوئے ’’خاموشی کے فائدئے ‘‘عنوان سے اخبار میں ایک مفصل ومفید مضمون بھی شائع کروایا تھا۔لیکن ہاں اُس کی خاموشی گونگوں والی خاموشی بھی نہیں تھی ۔جب بھی اور جہاں کہیں بھی وہ ظلم وزیادتی ،حق تلفی اور زور ذبردستی ہوتے دیکھتا تو بڑے مہذب طریقے سے احتجاجی رویہّ اختیار کرتا۔سیاہ کو سیاہ اورسفید کو سفید کہنے کا مزاج اُسے قدرت کی طرف سے ودیعت ہواتھا۔بالغ ہونے سے پہلے ہی وہ علم وحکمت کی باتیں کرنے لگا تھا۔ایسی باتیں جنہیں سُن کر اُس کے والدین اور خاندان والے حیران رہ جاتے۔اسی لئے اُس کے والدین نے اُس کانام بصیرت افروز رکھا تھا۔اُس کی دینی تربیت اور دُنیاوی تعلیم میں اُس کے والدین اور اساتذہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔اُس کے والد صاحب اگرچہ بہت زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بچّے کا دل ودماغ ایک صاف وشفاف خالی برتن کی مانند ہوتا ہے ،اُس میں جو کچھ بھی ڈالا جائے گا وہ اُس میں محفوظ رہے گایاایک سفید کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے ،اُس پر جو کچھ بھی لکھا جائے گا وہ اُس پہ نقش ہوکے رہ جائے گا۔
بصیرت افروز کی ذہانت ،متانت اور محنت نے اُسے میٹرک اور بی اے کے امتحانات میں پوزیشن ہولڈر بنادیا تھا۔اُس نے جس مدرسے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی وہاں مقصد حیات وکائنات سمجھایا جاتا۔آداب زندگی سکھائے جاتے۔اُس مدرسے میں عربی ،اردو،فارسی،انگریزی اور ہندی پڑھائی جاتی تھی۔اُس نے میٹرک تک یہ تمام زبانیں سیکھ لی تھیں ۔لیکن میٹرک کے بعد اُس کی دلچسپی ہندی اور انگریزی کے ساتھ زیادہ بڑھ گئی تھی ۔وہ گریجویشن کے دوران ہی ہندی میں کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرنے لگاتھا۔کچھ اردو والوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ بصیرت افروز اردو کے بجائے ہندی میں شاعری کرتا ہے اور کہانیاں لکھتا ہے تو انھوں نے موبائل فون پر کسی حدتک اُس سے اپنی خفگی کا اظہار کیاتھا۔بصیرت افروز نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ زبانیں مذہب،رنگ ونسل،ذات پات ،فرقہ پرستی ،تعصب اور علاقائیت پرستی سے تعلق نہیں رکھتی ہیں بلکہ زبانیں وسیلۂ اظہار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اُس نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ زبانوں سے گہری واقفیت ہر قلم کار کے لئے نہایت ضروری ہے۔اُس کی غزلیں ،نظمیں اور کہانیاں گریجویشن کے دوران ہی ملک اور بیرون ملک کے اہم اور معیاری ہندی کے رسائل وجرائد میں چھپنے لگی تھیں۔اُس کی زبان میں سحر انگیزی،بیان میں شگفتگی ولطافت پائی جاتی تھی ۔نئے موضوعات پر بصیرت افروز کی کہانیوں او ر اُس کی غزلیہ و نظمیہ شاعری نے ادبی حلقوں میں اک دھوم سی مچانا شروع کردی تھی۔ہندی میں ایم اے کا امتحان دینے کے بعد جب اُس کا نتیجہ آیا تو اُس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی ۔اُسی سال ریاستی گورنر نے اُسے ایک کنووکیشن میں گولڈ میڈل ،ایم اے کی سند کے ساتھ دیا تھا۔۔اُس موقعے پر وہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمایا تھا۔ہندی میں ایم اے کرنے کے دو سال بعد ہی اُس کا ناول ’’بھاو،بھاونا اور بھوشیہ‘‘زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آگیا تھا۔اب اُس نے نہ صرف ہندی ادب کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کے ادبی شاہکار کے مطالعے تک اپنے آپ کو محدود رکھا بلکہ انگریزی ،اردو ،عربی ،فارسی اور سنسکرت ادب کے بلند پایہ ادیبوں اور شاعروں کی نثری وشعری تخلیقات کو بھی لفظ لفظ پڑھنا شروع کیا تھا۔تب اُسے یہ محسوس ہوا تھا کہ وہ تالاب سے نکل کر علم وادب کے سمندر میں غوطہ زنی کررہا ہے۔کچھ مہینے کے بعد ہی اُسے اپنی محنت اور خداداد ذہانت کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل گئی۔ ذریعہء آمدنی سے اُس کے ادبی ذوق کو اور تقویت ملی ۔دوسال کے بعد اُس کی شاعری کا مجموعہ’’دھرتی میں سمائے‘‘شائع ہوا تو اُس کے کچھ مخلص اور خیرخواہ دوستوں نے اُسے مبارک باد دیتے ہوئے مجموعہ ارسال کرنے کی فرمائش کی لیکن زیادہ تر لوگ حسد کی آگ میں جلتے رہے ۔تقریباً دو سال کے بعد اُس کی کہانیوں کا مجموعہ’’مدھو سوگند‘‘شائع ہوا تو اُس کی بھی ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی ہوئی۔
ایک سال کے بعد بصیرت افروز کے والدین نے اُس کی شادی ایک دیندار گھرانے کی تعلیم یافتہ لڑکی گل لالہ کے ساتھ کردی ۔اُس نے اپنا ادبی سفر جاری رکھا۔اُس کے مداحوں اور چاہنے والوں کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہوچکا تھا۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ اُس کی شاعری اور کہانیاں کافی مقبول ہورہی تھیں ۔وہ شاعری کی تمام باریکیوں اور کہانی کے فنی لوازمات سے نہ صرف واقف تھا بلکہ انھیں بہتر طور پر برتنا بھی جانتا تھا۔اُسے اخلاقی وروحانی قدریں نہایت عزیز تھیں۔وہ حیات وکائنات پر اکثر غور وفکر کرتا رہتا تھا۔سماجی ،نفسیاتی اور تہذیبی انتشار پر اکثر اُس کی نظر رہتی تھی ۔وہ اپنی شاعری اور کہانی کے ذریعے سماج میں ذہنی بیداری اور احساس ذمہ داری پیدا کرنے کا خواہش مند تھا۔ناول تو وہ پہلے ہی لکھ چکا تھا لیکن اب اُس نے ڈراما نگاری بھی شروع کردی۔ ڈیڑھ سال میں اُس نے بیس ٹی وی ڈراموں کا ایک مجموعہ’’آشا میں نراشا‘‘شائع کروایاتو اُس کے حریفوں نے بھی اُس کی تخلیقیت کا لوہا مانا۔
گردش روزوشب میں بصیرت افروز کا وجود مختلف خانوں میں بٹتا چلا گیا ۔ والدین کے حقوق، رشتہ داری،بیوی بچّوں کی ذمہ داری،حقوق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی کے احساس نے آہستہ آہستہ اُس کے سیاہ بالوں میں سفیدی پیدا کردی ۔مؤحد تو وہ بچپن ہی سے تھا لیکن حیات وکائنات کے تجربات ومشاہدات نے اُس کی دینی اور ادبی زندگی میں اور زیادہ نکھار پیدا کردیا۔ایک روز بصیرت افروز لکھنے پڑھنے میں مصروف تھا کہ اسی دوران اُس کے دوست نین کنول کا فون آیا ۔بصیرت افروز نے ہیلوکہاتو نین کنول نے پوچھا
’’کیا حال ہے میرے دوست!آپ سب خیریت سے ہیں نا؟‘‘
بصیرت افروز نے کہا
’’ہاں میں ٹھیک ہوں ۔آج کیسے یاد کیا؟‘‘
نین کنول نے کہا
’’بس یونہی دل نے چاہا کہ اپنے دوست کی خیریت معلوم کروں ۔اس کے علاوہ ایک ضروری اطلاع یہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے شہر کی ایک ادبی تنظیم ’’ہم سب ساہتیہ کار‘‘نے پرسوں اتوار کو چار اہم کہانی کاروں سے اُن کی کہانیاں سُننے کا پروگرام رکھا ہے۔جس میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔اس لئے آپ اتوار کو اپنی کہانی لے کر گول ہال میں پہنچ جائیں‘‘
بصیرت افروز نے پوچھا
’’وہاں کتنے بجے پہنچنا ہے؟‘‘
نین کنول نے کہا
’’پورے دس بجے پروگرام شروع ہوگا‘‘
اتوار کو بصیرت افروز پورے دس بجے گول ہال میں پہنچ گیا۔ہال مختلف زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اس ادبی پروگرام کی نظامت جھنجھن لعل فرمارہے تھے ۔انھوں نے بڑے آداب والقاب کے ساتھ سب سے پہلے پروفیسر قلب مسکیں ،اُس کے بعد پروفیسر من موہنی چاولہ،پروفیسر من پریت سنگھ اور آخر میں پروفیسر رنگین احمد کو ایوان صدارت میں بیٹھنے کوکہا۔آج کے اس پروگرام کی صدارت پرفیسر قلب مسکیں کو سونپی گئی ۔اُن کے علاوہ پروفیسر من موہنی چاولہ کو مہمان خصوصی،پروفیسر رنگین احمد کو مہمان ذی وقار اور پروفیسر من پریت سنگھ کو مہمان اعزازی قراردیا گیا۔اس کے بعد جھنجھن لعل نے سامعین وناظرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
’’معززخواتین وحضرات! آج کے اس پروگرام میں ہمارے شہر کے چار اہم کہانی کار الگ الگ زبانوں میں اپنی لکھی کہانیاں آپ کے سامنے پڑھیں گے ۔اُن میں پہلا نام ہندی کے مشہور ومعروف کہانی کار محترم بصیرت افروزکاہے ۔دوسرانام جناب نندن لال چوپڑہ کا ہے جو اردو میں اپنی کہانی پڑھیں گے ۔تیسری کہانی محترمہ تبسم جان کی ہوگی جو فارسی میں کہانی پڑھیں گی اور آخری کہانی جناب گوتم سنگھ کی ہوگی جو پنجابی میں اپنی لکھی کہانی پڑھیں گے‘‘
ناظم کی ترتیب کے مطابق سب سے پہلے بصیرت افروز کو مائک پر کہانی پڑھنے کے لئے بلایا گیا۔وہ بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ آگے اسٹیج پر آیا اور ایوان صدارت میں تشریف فرما اہم شخصیات کے سامنے آداب بجالاتے ہوئے اپنی تحریر کردہ کہانی ’’دو جنم دو مرن‘‘پڑھنا شروع کی ۔سامعین اُس کے کانوں میں رس گھول دینے والی آواز ،کہانی میں پیش کئے گئے واقعات کی منطقی ترتیب ،کرداروں کی آپسی دلچسپ بات چیت ،اُن کی نفسیات ،ماحول ومنظر نگاری اور تحیر وتجسس قائم رکھنے کے منفرد انداز سے محظوظ ہورہے تھے ۔سامعین ہمہ تن گوش بصیرت افروز کی کہانی سُن رہے تھے ۔بیچ بیچ میں تالیاں بھی بجارہے تھے اور جب کہانی کا اختتام ہوا تو پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ان تالیوں کی گونج یہ ظاہر کررہی تھی کہ بصیرت افروز کی کہانی ’’دو جنم دو مرن‘‘فنی اعتبار سے مکمل اور موضوعاتی اعتبار سے ایک منفرد کہانی ہے ۔بصیرت افروز نے اپنی اس کہانی میں یہ ثابت کردیا تھا کہ انسان اس دُنیا میں دو طرح کا جنم لیتا ہے اور دو طرح سے اُس کی موت ہوجاتی ہے۔بصیرت افروز کے بعد جھنجھن لعل نے نندن لال چوپڑہ کو اپنی کہانی سامعین کی سماعتوں کی نذر کرنے کی دعوت دی۔اُس کی کہانی کا موضوع جہیز تھا۔اُس کے بعد تبسم جان نے فارسی میں کہانی پڑھی ۔اُس کا موضوع طلاق تھا۔آخر پر جب گوتم سنگھ نے کہانی پڑھی تو اُس کا موضوع شراب تھا۔کہانی کاروں کی کہانیاں سُننے کے بعد ناظم جھنجھن لعل نے ایوان صدارت میں تشریف فرما اہم شخصیات کو باری باری ان چاروں کہانیوں کے بارے میں اپنے اپنے تاثرات کے اظہار کی دعوت دی۔پروفیسر رنگین احمد نے بصیرت افروز کی کہانی کے بارے میں کہا
’’بصیرت افروز صاحب کی کہانیوں کو میں نے مختلف رسائل اور اخبارات میں پڑھا ہے ۔ان کی کہانیاں واعظانہ نوعیت کی ہوتی ہیں ۔میرا خیال ہے کہانی میں جنسی تلذّزاور نسوانی جمالیات کی پیشکش کہانی کو پُر لطف بناتی ہے‘‘
رنگین احمد کے بعد جب پروفیسر من موہنی چاولہ کو اپنے تاثرات کے اظہار کی دعوت دی گئی تو وہ اپنی رنگین ساڑھی کا پلُّوسنبھالتی ہوئی مائک کے سامنے آئی اور کہنے لگی
’’میں نے چاروں کہانیاں بڑی توجہ اور دھیان سے سُنی ہیں ۔جہاں تک پہلی کہانی ’’دو جنم دو مرن‘‘کا تعلق ہے کہانی کسی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ایک بات کہنا بہت ضروری سمجھتی ہوں ،وہ یہ کہ ہمارے کہانی کاروں کو کہانیاں لکھنے کا شوق تو ہوتا ہے لیکن وہ کہانی کے فن سے واقف نہیں ہوتے‘‘
بصیرت افروز ،پروفیسر من موہنی چاولہ کی باتیں سُن کر آگ بگولہ ہوگیا۔اُس نے اپنے آپ سے کہا یہ خاتون یونیورسٹی کے طلبہ کو کہانی کے اجزائے ترکیبی دیکھ کے پڑھاتی ہے ۔تخلیقی جوہر سے یہ عاری ہے اور یہاں یہ کہانی کے فن پر اپنی مہارت جتارہی ہے!۔آخر پر جب صاحب صدر پروفیسر قلب مسکیں کو صدارتی کلمات کے لئے بلایا گیاتو انھوں نے کہا
’’تمام کہانی کاروں کو مبارک باد ۔پہلی کہانی کو چھوڑ کر باقی تین کہانیوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔جہاں تک جناب بصیرت افروز کی کہانی کا تعلق ہے اس میں مجھے سعادت حسن منٹو جیسی کہانی نظر نہیں آئی ۔دیکھئے منٹو نے طوائفوں کے کوٹھوں پر جاکر اُن کی زندگی کو اپنی کہانیوں میں کس اعلیٰ فنکاری سے پیش کیا ہے۔بصیرت افروز کی کہانیوں میں ہمیں شباب،شراب ،کباب اور رباب کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ہے ۔بس ان کی کہانیاں ہمیں فکری ارتکاز اور احساس کی دولت سے مالال نظر آتی ہیں‘‘
صدارتی کلمات کے بعد پروفیسر قلب مسکیں اپنی کرسی پر بیٹھ گئے ۔جھنجھن لعل نے آج کی اس ادبی محفل میں آئے مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔اسی کے ساتھ دیکھتے دیکھتے گول ہال خالی ہوگیا۔ادبا اور شعرا اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
بصیرت افروز جب اپنے گھر میں پہنچا تو وہ کسی حدتک مایوس تھا ۔وہ علم وہنر کے بارے میں غوروفکر کرنے لگا۔اُس کے دماغ میں بار بار یہ سوال پیدا ہورہا تھا کہ علم کیا ہے؟اور ہنر کیا ہے؟آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ سائنسی،تکنیکی اور جدید تعلیمی اداروں میں ہنر سکھایا جاتا ہے ۔علم کچھ اور چیز ہے ۔علم وہ ہے جس سے معرفت ِ الٰہی حاصل ہو ۔جس سے نہ صرف حیات وکائنات کے بارے میں جانکاری حاصل ہو بلکہ مرنے کے بعد والی ابدی زندگی کے بارے میں کامیابی کا علم ہو۔پھر اُس کے نرم ونازل اوردردمند دل ودماغ سے یہ خیال ایک احساس بن کر آیا کہ شاعری کرنا اور کہانیاں لکھنا بھی ایک ہنر ہے ۔تب اُس نے یہ تہیہ کرلیا کہ وہ آج کے بعد نہ تو شاعری کرے گا اور نہ ہی کہانیاں لکھے گا۔بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کا علم سیکھے گا۔کچھ عرصے تک جب اُس کی غزلیں،نظمیں اور کہانیاں اخبارات ورسائل میں شائع نہیں ہونے لگیں تو اُس کے معیاری ادب کے شیدائیوں کے اُسے فون آنے لگے ۔وہ اُنھیں ادھر اُدھر کی باتیں کہہ کرٹال دیتا۔لیکن جب ایک روز اُس کے گہرے دوست بہرام،پریم گوپال اور منطور نظر ایک گاڑی میں اُس کے گھر پر آئے تو تب بصیرت افروز کو مجبوراًاُنھیں اپنی ادبی زندگی سے سنیاس لینے کے بارے میں کہنا پڑا۔بصیرت افروز کے کمرے میں چاروں طر ف شیلفوں میں ہندی،انگریزی،اردو،عربی اور فارسی کی بڑی ضخیم ضخیم کتابیں بھری پڑی تھیں۔ یہ تینوں دوست اُس کی شاعری اور کہانیاں بڑے شوق سے پڑھتے تھے ۔اُن کا شمار سنجیدہ قارئین میں ہوتا تھا۔پریم گوپال نے بصیرت افروز سے کہا
’’میرے دوست ! آخر تُونے کیوں ادبی دُنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی؟آخر وجہ کیا ہے؟‘‘
بصیرت افروز نے جواب دیا
’’میرے دوستو! معیاری ادب پڑھنے اور لکھنے والے لوگ اب نہیں رہے ۔کیونکہ لوگ اس انٹر نیٹ کی دُنیا میں تقریباً سولہ گھنٹے موبائل فون پہ رہتے ہیں ۔کتابیں اپنا ماتم کررہی ہیں ۔یہ دیکھئے میرے آس پاس کتابوں کے انبار لگے ہوئے ہیں ۔ان میں بہت سی کتابوں کو میں نہیں پڑھ پارہا ہوں۔ایک دن جب میں دُنیا سے چلا جاؤں گا تومیرے بعد میری ان کتابوں کو پڑھنے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘
منظور نظر نے کہا
’’بصیرت! یار میری رائے یہ ہے کہ لکھنا پڑھنا جاری رکھ‘ ‘بہرام نے منظور نظر کی تائید کی۔لیکن بصیرت افروز خاموش رہا۔
کوئی دوگھنٹے تک بصیرت افروز کے دوست اُس کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں اور ادبی موضوعات پر گفتگو کرتے رہے اور اُس کے بعد بصیرت افروز سے رخصت لے کر باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس چلے گئے ۔ابھی کوئی آدھا ہی گھنٹہ ہوا تھا کہ بصیرت افروز کو فون پہ یہ مایوس کن خبر سُننے کو ملی کہ اُس کے تینوں دوستوں کی گاڑی ایک بڑی گاڑی کے ساتھ ٹکرا گئی ہے۔جس میں پریم کمار جائے حادثہ پر ہی دم توڑ بیٹھا ہے جبکہ منظور نظر اور بہرام شدید طور پر زخمی حالت میں اسپتال بھیج دئے گئے ہیں !۔یہ خبر سُنتے ہی بصیرت افروز اپنی گاڑی میں بیٹھا اور اسپتال چلا گیا۔اُس کے گہرے دوست ایمر جنسی وارڈ میں انتہائی نازک حالت میں تھے ۔اُس نے انھیں دُور ہی سے دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو اُمنڈ آئے ۔اسپتال سے نکل کر وہ پریم گوپال کے گھر چلا گیا۔وہاں پر پریم گوپال کی لاش کو فرش پہ رکھا گیا تھا۔اُس کے والدین ،بھائی بہنیں اور رشتے دار چیخ چیخ کے اُس کا ماتم کررہے تھے ۔بصیرت افروز یہ حال دیکھ کر انتہائی مایوس ہوا۔دوسرے دن پریم گوپال کی ارتھی اُٹھی تو بصیرت افروز بھی اُس کے ساتھ ساتھ شمشان گھاٹ پر گیا۔کچھ ہی وقت کے بعد چتا تیار ہوگئی پھر پریم گوپال کو نذر آتش کردیا گیا!دوسرے دن منظور نظر نے زخموں کی تاب نہ لاکر اسپتال میں دم توڑ دیا!۔بصیرت افروز فوراً اُس کے گھرجا پہنچا ۔منظور نظر کے بیوی بچّے ،اُس کی لاش کے ساتھ لپٹ کر رورہے تھے ۔اُس کے گھر میں اک کہرام سا مچا ہوا تھا۔کچھ ہی وقت کے بعد اُس کی تہجیزوتکفین شروع ہوگئی ۔دیکھتے دیکھتے منظور نظر سب کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے اوجھل ہوگیا!تیسرے دن یہ خبر آئی کہ بہرام بھی اسپتال میں دم توڑ بیٹھا !بصیرت افروز کا دماغ یہ خبر سُن کر چکرانے لگا۔وہ فوراً اُس کے گھر جاپہنچا ۔وہاں بھی صف ماتم بچھ چکی تھی۔ بہرام پارسی تھا ۔اس لئے اُس کے والدین اور خاندان والوں نے اُس کی لاش کو اپنے عقیدے کے مطابق کھلے مینار نُما عمارت میں رکھ آئے تاکہ مردار خور پرندے اُس کی لاش کو کھا جائیں۔ دیکھتے دیکھتے بڑے بڑے گدھ نہ جانے کہاں سے اُڑ کے بہرام کے خوب صورت جسم کو نوچ نوچ کر کھانے لگے!ادھر بصیرت افروز کی آنکھیں آنسو بہارہی تھیں!
���
سابق صدر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532