روس میں مسلح شخص کی بربریت  | سکول میں فائرنگ سے 7بچوں سمیت 13افراد ہلاک

ماسکو//روس کے شہرایزیوسک میں ایک اسکول میں مسلح شخص کی فائرنگ سے 7 بچوں سمیت 13افراد ہلاک ہوگئے۔ روس میں اسکولوں پر حملوں کی کڑی کا یہ نیا واقعہ ہے جبکہ ماضی میں اس طرح کے واقعات نے روس کو ہلا کر رکھ دیا تھا جبکہ اس لاکھوں لوگوں کو یوکرین میں جنگ کا حصہ بننے کے لیے متحرک کیا جا رہا ہے۔

روس کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس حملے میں 13 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں 6 نوجوان اور7 بچے شامل ہیں جبکہ 14 بچے اور 7 نوجوان زخمی ہوئے ہیں۔ روس کی تحقیقاتی کمیٹی نے ٹیلی گرام کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’فائرنگ سے 9 افراد ہلاک ہوئے جن میں 2 سیکیورٹی گارڈ، 2 اساتذہ اور5 بچے شامل ہیں۔انہوں نے مزید بتایا تھا کہ حملہ آور نے فائرنگ کے بعد خودکشی کرلی ہ

ے۔تفتیش کاروں کے مطابق حملہ آور نے سیاہ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جس میں نازی نشان تھے اور سیاہ ماسک سے چہرہ چھپایا ہوا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ حملہ ا?ور کے پاس کوئی شناختی کارڈ موجود نہیں تھا۔تفتیش کاروں نے بتایا کہ ’حملہ ا?ور کی شناخت نہیں ہوسکی، ہم تحقیقات کررہے ہیں‘۔روس کی وزارت داخلہ نے کہا کہ حملے میں 20افراد زخمی ہوئے ہیں۔

علاقےکے گورنر الیگزینڈربر یچالوف نے ایزیوسک میں اسکول نمبر 88 کے باہربات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’ہلاک اور زخمیوں میں بچے بھی شامل ہیں‘۔ویڈیو میں ریسکیو اور طبی کارکنوں کو پس منظر میں جائے وقوع پرکام کرتے دیکھا جا سکتا ہے، چند لوگ اسٹریچر کے ساتھ اسکول کے اندر بھاگ رہے ہیں۔روس کی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے 14 ایمبولینس ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ایزیوسک روس کے اْدمورٹ جمہوریہ کا علاقائی دارالحکومت ہے، جو ماسکو کے مشرق میں تقریباً ایک ہزار کلومیٹر (620 میل) پر واقع ہے، اس شہر کی ا?بادی تقریباً 6 لاکھ 30 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل روس میں اسکول پر حملے کا واقعہ رواں برس اپریل میں پیش آیا تھا جب ایک مسلح شخص نے مرکزی الیانوک کے کنڈرگارٹن میں فائرنگ کرکے ایک استاد اور 2 بچوں کو نشانہ بنایا تھا۔حکام نے کہا تھا کہ حملہ آور ذہنی مریض تھا، جس نے بعد میں گولی مار کر خود کو ہلاک کیا تھا۔روس میں اسکولوں اور جامعات میں بڑے پیمانے پر حملے 2021 تک شاد و نادر ہوتے تھے، جب روس کے وسطی شہروں کازان اور پرم میں دو الگ الگ ہولناک واقعات پیش آئے تھے جس پر قانون سازوں کو ہتھیاروں تک رسائی کے لیے قوانین سخت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔تفتیش کاروں نے کہا تھا کہ حملہ آور ذہنی طور پر پریشانی کا شکار تھا مگر اس کو نیم خودکار شاٹ گن کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے موزوں سمجھا گیا اور اس نے استعمال بھی کی۔گزشتہ برس ستمبر میں سیاہ ٹیکٹیکل لباس اور ہیلمٹ پہنے ایک طالب علم نے رائفل سے لیس پرم اسٹیٹ یونیورسٹی کی عمارت میں داخل ہو کر 6 افراد کو ہلاک کردیا تھا، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں۔اسی سال دوسرا حملہ مئی میں قازان میں ایک 19 سالہ سابق طالب علم نے اپنے پرانے اسکول میں 9 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔