ذی الحجہ کا رواںعشرہ ۔’’ایام ِمعلومات ‘‘

فضائل

افتخاراحمدقادری
ماہ ذی الحجہ اسلامی مہینوں کا بارہواں مہینہ ہے ۔اس ماہ کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس میں لوگ حج کے فرائض انجام دیتے ہیں اور اس ماہ کے پہلے عشرے کا نام الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ’’ ایام معلومات‘‘ رکھا ہے۔یہ ایام الله کو بہت پیارے ہیں ،اس ماہ مبارک کی پہلی تاریخ کو حضرتِ خاتونِ جنت فاطمہ الزہراءؓ کا نکاح حضرت علی المرتضیؓ کے ساتھ ہوا۔ماہ ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں،کیونکہ حجاج کرام اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے، تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے یا اس لیے اس اس دن کو یوم ترویہ ( سوچ بچار) کہتے ہیں کہ حضرتِ سیدنا ابراہیم ؑ نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ الله رب العزت تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر، تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور فرمایا کہ آیا یہ الله تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے، اس لیے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں۔اس ماہِ مبارک کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں کیونکہ حضرت ِ ابراہیم ؑنے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے، اسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔
اس ماہ مبارک کی دسویں تاریخ کو یومِ نحر کہتے ہیں، کیوں کہ اسی روز حضرتِ اسمٰعیل ؑ کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی، اور اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک کی گیارہویں، بارہویں، تیرہویں کے دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں اور اسی ماہ مبارک کی بارہویں تاریخ کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرتِ علی المرتضیٰ ؓسے بھائی چارہ قائم کیا تھا اور اسی ماہ مبارک کی چودہویں تاریخ کو حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے نماز میں اپنی انگوٹھی صدقہ کی تھی، اس ماہ کی چھبیس تاریخ کو حضرتِ دؤاد ؑ پر استغفار نازل ہوئی تھی اور ستائیس تاریخ کو حادثہ حرا رونما ہوا تھا کہ یزیدیوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کردیا تھا، اور اسی مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو حضرت علی ؓ مسندِ خلافت پر بیٹھے تھے۔ (عجائب المخلوقات، صفحہ نمبر/46)
ماہ ذی الحجہ چار برکت اور رحمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔ اس ماہ مبارک میں کثرتِ نوافل ، روزے ، تلاوتِ قرآن مجید ، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ الله رب العزت نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’قسم ہے مجھے فجر کی عید قربان کی اور دس راتوں کی جو ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں، اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان المبارک کی آخری راتیں، اور قسم ہے اپنے حبیب ؐ کے معراج کی رات کی‘‘۔( سورہ فجر) اس قسم سے معلوم ہوتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے ۔ان دنوں میں عرفہ کا دن بڑا عظیم ہے کہ عرفہ کا روزہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر یہ غیر محرم کے حق میں ہے اور محرم عرفہ کے دن روزہ نہ رکھے تاکہ مناسکِ حج کے ادا کرنے میں سستی نہ ہو ( ماثبت من السنتہ/ صفحہ نمبر، 179)
یوں تو ذی الحجہ کا سارا عشرہ ہی نور علی نور ہے مگر دسویں ذی الحجہ کا دن سب سے زیادہ معظم ہے۔ الله نے اس دن کی فجر کی قسم کھائی ہے۔ اس روز سب سے زیادہ محبوب عمل قربانی کرنا ہے۔ صحابہ کرام ؓنے حضورِ اقدس ؐ کی خدمت میں عرض کیا! یا رسول ؐ یہ قربانیاں کیسی ہیں، فرمایا تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یارسول اللهؐ ہمیں اس میں کیا ثواب ملے گا؟ فرمایا ،ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یارسول اللهؐ! صوف میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا صوف کے ہر بال میں ایک نیکی ملے گی ( رواہ احمد وابن ماجہ/ مشکوٰۃ شریف، صفحہ نمبر 129)
یاد رہے ،اگرچہ مسافر پر قربانی واجب نہیں مگر نفل کے طور پر کرے تو کر سکتا ہے، ثواب پائے گا۔ حج کرنے والے جو مسافر ہوں ،ان پر قربانی واجب نہیں اور مقیم ہوتو واجب ہے، جیسے کہ مکہ مکرمہ کے رہنے والے حج کریں تو چونکہ یہ مسافر نہیں، ان پر قربانی واجب ہوگی۔( درمختار۔ ردالمحتار)،قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے جب وہ آگیا اور شرائطِ وجوب پائے گئے، قربانی واجب ہوگئی اور اس کا رُکن ان مخصوص جانوروں میں کسی کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا ہے۔ ( درمختار)
[email protected]