ذہن کو پڑھ کر الفاظ بتانے والی مشین | مصنوعی خون کی انسانوں پر آزمائش سائنس و ٹیکنالوجی

ویب ڈیسک
امریکی ماہرین نے بولنے کی صلاحیت سے محروم افراد کو زبان دینے کے لیے بنائی گئی کمپیوٹرائزڈ ڈیوائس پر مفلوج انسان کے دماغ سے الفاظ کو نکالنے اور ان الفاظ کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا کامیاب تجربہ کرلیا۔امریکی ماہرین ’نیوروپروستھیٹک ڈیوائس‘ نامی مشین کا مفلوج انسان پر تجربہ کیا اور اس کے نتائج حوصلہ کن نکلنے پر ماہرین کو امید ہے کہ مذکورہ ڈیوائس مستقبل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایجنسی فرانس پریس‘ (اے ایف پی) کے مطابق یونیورسٹی آف کیلفورنیا کے محققین کی جانب سے ’نیوروپروستھیٹک ڈیوائس‘ کا تجربہ ایک ایسے مفلوج شخص پر کیا گیا جو کہ بولنے، سمجھنے اور پڑھنے سے قاصر تھا۔ماہرین کے مطابق تجربے کے دوان جب مفلوج شخص کے ذہن سے ’نیوروپروستھیٹک ڈیوائس‘ منسلک کی گئی تو ڈیوائس نے مذکورہ شخص کے ذہن میں آنے والے 1150 الفاظ کا ترجمہ کیا۔محققین نے بتایا کہ ڈیوائس سے معلوم ہوا کہ مفلوج شخص نے سب پہلے ’سب کچھ ممکن ہے‘ جملہ بولا تھا، اس کے بعد ڈیوائس نے مزید الفاظ کو ترجمہ کیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ’نیوروپروستھیٹک ڈیوائس‘ مفلوج شخص کے 26 الفاظ کا ترجمہ کرنے میں کامیاب رہی، تاہم اس میں ایک مشکل یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شخص انگریزی کا لفظ ’کیٹ‘ یعنی بلی بولے گا تو کمپیوٹر اسے ’بلی‘ کہنے کے بجائے ’چارلی الفا ٹینگو‘ کہے گا، چوں کہ ڈیوائس مفلوج شخص کے ذہن میں آنے والے پہلے انگریزی کے لفظ کو پکڑ کا لفظ بناتی ہے۔خیال رہے کہ ’نیوروپروستھیٹک ڈیوائس‘ ایک کمپیوٹرائزڈ مشین ہے، جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ مشین انسان کے دماغی نظام سے منسلک کی جاتی ہے۔یہ مشین مفلوج انسان کے دماغ میں آنے والے خیالات یا الفاظ کو اس وقت پکڑ یا پڑھ لیتی ہے جب کوئی شخص ان الفاظ کو کہنے کا سوچ رہا ہوتا ہے۔مشین الفاظ یا خیالات کو پکڑ یا پڑھ کر انہیں مصنوعی ذہانت کی مدد سے الفاط میں تبدیل کرکے اسکرین پر دکھاتی یا آڈیو کی صورت میں پڑھ کر بیان کرتی ہے۔مذکورہ مشین ایسی ہی ہے، جیسی مشین برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کے پاس ہوتی تھی جو اپنے خیالات اور الفاظ کا استعمال کمپیوٹر ڈیوائس کے ذریعے کرتے تھے۔
اِدھربرطانوی ماہرین کی جانب سے لیبارٹری میں تیار کردہ خون کی انسانوں میں آزمائش شروع کردی گئی اور ابتدائی طور پر دو صحت مند افراد میں خون کی انتہائی کم مقدار داخل کردی گئی۔برطانوی ماہرین نے پہلی بار 2017 میں لیبارٹری میں انسانی خون تیار کیا تھا، جسے اب پہلی بار انسانوں کے جسم میں داخل کردیا گیا۔برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق تین مختلف علاقوں کے ماہرین نے دو صحت مند افراد میں لیبارٹری میں تیار کردہ سرخ خلیات کو ان کے جسم میں داخل کردیا، جنہیں ہر چار ماہ بعد دوبارہ لیبارٹری میں تیار کردہ خون دیا جائے گا۔ماہرین کے مطابق تحقیق کے لیے 10 رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں لیکن ابتدائی طور پر صرف دو رضاکاروں پر لیبارٹری میں تیار کردہ خون کی آزمائش کی جائے گی۔رضاکاروں کو ایک بار لیبارٹری میں تیار شدہ جب کہ دوسری بار عام انسانوں کی جانب سے عطیہ کردہ خون دیا جائے گا اور ہر بار ان کے ٹیسٹس کرکے خون کی کارکردگی یا اس سے ہونے والے نقصانات یا منفی اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
ماہرین کو امید ہے کہ لیبارٹری میں تیار خون عام انسانوں سے عطیے کے طور پر ملنے والے خون سے زیادہ بہتر نتائج دے گا۔ماہرین نے انسانوں کے خون سے اسٹیم سیل (مرکبات) لے کر ان سے لیبارٹری میں سرخ خلیات تیار کیے اور 5 لاکھ اسٹیم سیلز سے تین ہفتوں کے اندر 50 ارب سرخ خلیات تیار کیے گئے۔
سائنسدانوں کے مطابق لیبارٹری میں تیار کردہ خون پر انسانوں کی جانب سے عطیے کے طور پر ملنے والی خون کی ہر تھیلی کے مقابلے کم اخراجات آئیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر لیبارٹری میں تیار شدہ خون کے نتائج اچھے برآمد ہوتے ہیں تو اس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا دیرینہ مسئلہ ختم ہوجائے گا اور خون کی مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کے علاج میں آسانی ہوگی۔ماہرین کے مطابق لیبارٹری میں خون تیار کرنے کا مقصد ان نایاب بلڈ گروپس کا خون بنانا ہے جن کے حامل افراد کی دنیا میں بہت کم تعداد ہے۔اس وقت ’ممبئی‘ نامی ایک بلڈ گروپ کے دنیا بھر میں محض تین افراد ہے، جس میں سے ایک بھارت جب کہ دو افراد برطانیہ میں مقیم ہیں۔اسی طرح بعض نایاب بلڈ گروپس کے افراد کی بھی تعداد 10 تک ہے اور ہنگامی صورتحال میں ایسے لوگوں کے خون کو یقینی بنانا ناممکن بن جاتا ہے۔
ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ لیبارٹری میں تیار شدہ خون کے اچھے نتائج کے بعد تھیلیسمیا سمیت خون کی کمی اور خون کے دیگر وائرسز میں مبتلا افراد کے علاج میں آسانی ہوگی۔