دین پر استقامت کی اہمیت فکر و فہم

محمّدشمیم احمد مصباحی
دین اسلام پر ثابت قدمی اور استقامت بہت ہی حسّاس اور اہم موضوع ہے۔دین اسلام کی ابتدائی تاریخ اسی ’’استقامت علی الدین‘‘سے ہی تعبیر ہے۔استقامت سے مراداسلام کوعقیدہ،عمل اور منہج قراردےکرمضبوطی سے تھام لیناہےاوراستقامت علی الدین اللّٰہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو لازم پکڑنے اور اس پردوام اختیارکرنے کانام ہے۔
استقامت ایک ایساجامع کلمہ ہے جوتوحیدورسالت ودیگربنیادی وضروری معتقدات پرکامل ایمان واعتقادرکھتے ہوئے فرائض کی ادائیگی، اللّٰہ اوررسولؐ کی محبّت،اللّٰہ اوررسولؐ کی باقاعدہ اطاعت وفرماں برداری لازم پکڑنے،معصیت کے کاموں کوچھوڑدینے اوراللّٰہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی اختیارکرنے کانام ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ اور آپؐ کی امّت کو دین پر ثابت قدمی اوراستقامت اختیار کرنے کاحکم بھی دیاہے کہ وہ ویسی ہی استقامت اختیار کریں جیسی استقامت کاانہیں حکم دیاگیاہے،اور اس سے بالکل بھی انحراف نہ کریں۔ – استقامت علی الدّین کی ضرورت مسلمانوں کو زندگی کے ہر موڑ اور مرحلہ پرپڑتی ہے۔خصوصاً غم اورخوشی کے موقع پرجب کہ دین کو محفوظ رکھنا بہت مشکل ہوتاہےاور زندگی کے ہرطرح کی نامساعدحالات میں استقامت وثابت قدمی ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے، ان حالات میں دین پر مضبوطی سے قائم رہنا اور شریعت اسلامیہ کے مطابق صبروشکراورسکون سے رضائے الٰہی کی خاطر زندگی بسر کرناہی ’’استقامت علی الدین‘‘ ہے۔ – استقامت کاعام فہم مطلب ہے ثابت قدم رہنا،ثابت قدمی اقوال وافعال میں،عقیدہ واعمال میں، ظاہروباطن میں،عمل وسیرت میں، فکرونظرمیں،اللّٰہ کی معرفت اور اس کی خشیّت میں،اللّٰہ کی عظمت وہیبت کے ادراک میں،اس کی کبریائی وجلال کے اعتراف میں،اس سے امّیدوبیم میں اور اللّٰہ وحدہ لاشریک پر توکّل اور دوسروں سے بےزاری میں ،دین اسلام پر ثابت قدمی بہت ہی ضروری ہے۔ ویسے بھی ایمان لانے کے بعد بندے پر اللہ کی طرف سے جو خاص ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں، ان میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بندہ پوری مضبوطی اورہمت کے ساتھ دین پر قائم رہےاورخواہ زمانہ اس کے لیے کیساہی ناموافق ہوجائے وہ کسی حال میں دین کا سراہاتھ سے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو، اسی کانام ’استقامت‘ ہے،قرآن شریف میں ایسے لوگوں کے لیے بڑے انعامات اور بڑے درجوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
قرآن شریف میں ہماری ہدایت کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے کئی ایسے وفاداربندوں کے بڑے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیں جو بڑے سخت ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم ودائم رہے اور بڑے سے بڑا لالچ اورسخت سے سخت تکلیفوں کا ڈربھی ان کو دین سے نہیں ہٹا سکا، ان میں ایک واقعہ تو اُن جادوگروں کا ہے جنہیں کافروں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے مقابلہ کے لیےبلایاتھا اور بڑے انعام واکرام کا ان سے وعدہ کیا تھا لیکن خاص مقابلہ کے وقت جب موسیٰ علیہ السّلام کے دین کی اور ان کی دعوت کی سچائی ان پر کھل گئی تو نہ تو انہوں نے اس کی پرواہ کی کہ فرعون نے جس انعام واکرام کا اورجن بڑےبڑے عہدوں کا وعدہ ہم سے کیا ہے، ان سے ہم محروم رہ جائیں گے اور نہ اس کی پرواہ کی کہ فرعون ہمیں کتنی سخت سزادے گا۔اوراس سے بھی زیادہ سبق آموز واقعہ خود فرعون کی بیوی کا ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ فرعون مصرکی بادشاہت کا گویا اکیلا مالک ومختار تھا اور اس کی یہ بیوی ملک مصر کی ملکہ ہونے کے ساتھ خود فرعون کے دل کی بھی گویا مالکہ تھی، بس اس سے اندازہ کیجئے کہ اس کو دنیا کی کتنی عزت اورکیسا عیش حاصل ہوگا،لیکن جب موسیٰ علیہ السّلام کے دین اور ان کی دعوت کی سچائی اللّٰہ کی اس بندی پر کھل گئی تو اس نے بالکل اس کی پرواہ نہ کی کہ فرعون مجھ پر کیسے کیسے ظلم کرے گا اور دنیا کے اس شاہانہ عیش کے بجائے مجھے کتنی مصیبتیں اورتکلیفیں جھیلنی پڑیں گی؟الغرض ان سب باتوں سے بالکل بے پرواہ ہوکر اس نے اپنے ایمان کا اعلان کردیااور پھر حق کے راستہ میں اللّٰہ کی اس نیک بندی نے ایسی ایس تکلیفیں اٹھائیں جن کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کلیجہ منھ کوآتا ہے، پھر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ درجہ ملا کہ قرآن شریف میں بڑی عزت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا اور مسلمانوں کے لیے ان کے صبر اور ان کی قربانی کو نمونہ بتلایاگیا ۔اللہ تعالی ہم کمزوروں کو بھی اپنے اُن سچے بندوں کی ہمت اوراستقامت کا کوئی ذرہ نصیب فرمائے اوراگر ایسا کوئی وقت مقدر ہوتواپنے ان وفادار بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔
دین پر استقامت کے وسائل:★۔
قرآن مقدّس کی جانب خوب خوب توجّہ وعنایت کرنا،خوف خداوندی دل میں بیٹھانے کی پیہم کوشش ،شریعتِ اسلامیہ پرعمل اورعمل صالح کاالتزام ،اتباع اور عمل کرنےکےلیے انبیائے کرام کے واقعات میں غوروفکر اور اس کا پڑھناپڑھانا،بارگاہ خدواندی میں دعاکرنا،اللّٰہ اوررسولؐ کاذکر،مسلمان کاصحیح اورسیدھےراستےپرچلنے کی حرص وتڑپ،صحیح تربیت ،ثابت شدہ عناصر کواپنانا،نصرت خداوندی پر بھروسہ رکھنا،باطل کی حقیقت کی بھی معرفت رکھنااوراس سے دھوکہ نہ کھانا،ثابت قدمی پر معاون اخلاق کے زیورسےآراستہ ہونا،جنّت کی نعمتوں اورجہنم کے شدید عذاب کے بارے میں غوروفکر کرنا اور موت کویادکرنا،وغیرہ
آخر پر یہی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیںاستقامت کی روش کی توفیق عطافرمائےاورعزّت واکرام کاگھر عطاکرے اور ذلّت ورسوائی سے محفوظ رکھیں۔آمین
[email protected]>