دوسرا سِرا افسانہ

راجہ یوسف
میری نظریں اخبار کی بے ترتیب سرخیوں پر رینگتے رینگتے اچانک ایک چھوٹی سی خبر پر رک گئیں۔
’’کل ہولی ہے۔۔۔” اتنا پڑھنے کے بعدہی اچانک میرے دماغ میں زور کا چھنا کا ہوا۔ نظریں اخبار پر ہی جمی تھیں لیکن متن کی سطور ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ ہوتی جارہیں تھیں۔ الفاظ ایک دوسرے سے الجھتے ہوے محسوس ہورہے تھے ، نظروں کے سامنے دھند سی چھائی جا رہی تھی اور دھندمیں سرخ سرخ ہالے سے بنتے جا رہے تھے جو بڑی تیزی کے ساتھ گھوم رہے تھے ۔ سرخ ہالے آہستہ آہستہ کُھلتے جا رہے تھے جو ذہن کو کہیں دور ماضی کے دھندلکوں میں لے کر جا رہے تھے جہاں میرا بچپن تھا۔ دھند آہستہ آہستہ چھٹتی جا رہی تھی اور میرے بچپن کے بنتے بگڑتے سرابوں کے نقش ابھر کے آ رہے تھے ۔ جو پرت در پرت کھلتے چلے جا رہے تھے۔
زندگی حسین شاہراؤں کی طرح کتنی بھی روشن ہو یا پر رونق بازاروں جیسی پُرکشش بھی ہو یا آتی جاتی گہماگہمی سے رنگین ہی کیوں نہ ہولیکن بچپن کی وہ دھول سے بھری گلیاں، آبڑ کھابڑ پگڈنڈیاں اور مٹی سے لیپا پوتی کئے کچے آنگن ایک انسان کے ذہن کے سکرین پرچکر کاٹتے رہتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ کھیلنا، شرارتیں اور لڑائیاں کرنا ۔ ہار کر رونا اور جیت کر خوش ہونا۔۔۔ وہ ساری خوشیاں۔ وہ سارے غم انہی دھول بھری گلیوں اوربل کھاتی پگڈنڈیوں کے ارد گرد رقص کرتے نظر آتے ہیں۔
میری عادتیں بھی ایسی ہی تھیں جیسی عام بچوں کی ہوتی ہیں۔ شرارتیں کرنا۔ دوستوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے کپڑے گندے کرنا۔۔۔ ماں کے نہانے،نئے کپڑے پہنانے اور ڈانٹے کے باوجود بھی میں پھرسے شرارتیں کرتا تھا اور انہی لڑکوں کیساتھ کھیلتا تھا جن کے ساتھ کھیلنے سے ماں منع کرتی تھی۔ ماں اکثر کہتی تھی۔
’’ ان لڑکوں کے ساتھ مت کھیلا کرو۔ یہ گندھے ہیں، ان کے ماں باپ نیچ ہیں۔‘‘
لیکن میری بدقستی ، کہ میں یہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہا ہوںکہ یہ اونچ اور نیچ کیا بھلا ہوتی ہے۔ پہلے پہل میں سمجھتا تھا کہ نیچ شاید بونے آدمی کو کہتے ہیں لیکن بعد میں میری رائے غلط ثابت ہوئی کیونکہ میرے ایک ساتھی ہری کا باپ میرے باپ سے ایک دو اینچ لمبا ہی تھا۔ خیر جو بات میری سمجھ میں نہیں آتی ، اس پر میں کم ہی سوچتا ہوں۔ زیادہ ڈانٹ ملنے کی وجہ سے میں نے دوستوں کے ملنے سے تھوڑا بہت پرہیز تو کر لیا لیکن رام لال کی بیٹی موہنی سے میں باوجود کوشش کے بھی دور نہ رہ سکا۔ نہ جانے موہنی میں ایسی کون سی بات تھی جو میں موہنی کے گھر کی جانب کھینچتاچلا جاتا تھا لیکن باغیچے میں پہنچنے سے پہلے ہی ماں آ جاتی تھی کیونکہ مجھے اسکول بھی جانا ہوتا تھا۔ اس لئے اسکول جانے کی مجبوری ہمیشہ میرے ارمانوں پرپانی پھیردیتی تھی۔ نہانے اور اسکول وردی پہنے کے بعد دل میں اٹھتی سسکیوں کا گلا گھونٹ دیتا تھا اور بے دلی کے ساتھ اسکول چلا جاتا تھا۔ چھٹی کا دن تو میرے لئے ہولی سے بھی بڑا دن ہوتا تھا۔ میں ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اور ہاتھوں میں مسرتوں کے گلدستے لئے موہنی کے گھر پہنچ جاتا تھا۔ ہم دونوں ان کے چھوٹے سے آبڑ کھابڑ باغیچے میں آنکھ مچولی کھیلتے تھے۔ درختوں پر چڑھنا۔ چھوٹی چھوٹی شاخیں کاٹنا۔ ان کے پتے توڑنا۔ پھولوں کی مالائیں بنانا۔ یہی دن بھر کا کام ہوتا تھا۔
کل ہولی کی چھٹی تھی اس لئے میں اچھلتے کودتے ہاتھ میں درانتی لئے موہنی کے گھرکی طرف دوڑ رہا تھا۔ آنگن میں پہنچتے ہی میں نے موہنی کو بلایا اور وہ جیسے بادلوں پر تیرتے ہوئے گھر سے باہر آگئی۔ اس کا شوخ چہرہ مست لگ رہا تھا۔ ہم دونوں باغیچے کی طرف دوڑنے لگے۔ میں بے حد خوش تھا۔ اس کو ہولی کی چھٹی کے بارے میں بھی بتانا تھا۔ باغیچے میں پہنچتے ہی ہم اخروٹ کے پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے۔میں نے اُسے خوشخبری سنائی اور وہ زور زور سے تالیاں بجانے لگی۔۔۔ پھر ہم نے کل کا پروگرام مرتب کر لیاکہ کس طرح صرف ہم دو یہاں پر ہولی کھیلیں گے۔
ڈھیر ساری باتیں کرنے کے بعد ہم دیرتک آنکھ مچولی کھیلتے رہے اور پھر میں درانتی لئے اخروٹ کے چھوٹے پیڑ پر چڑھ گیا اور اس کے پتے کاٹنے لگا۔ موسم بہارکا تھا اور شاخوں پر لگے اخروٹ ابھی چھوٹے چھوٹے ہی تھے۔ موہنی نیچے پتے جمع کر رہی تھی ۔ اخروٹ کے پتے لڑکیاں دانتوں کی صفائی کے لئے استعمال کرتی ہیں اوران کو چبانے سے مسوڑوں اور ہونٹوں پر چاکلیٹ جیسارنگ آجاتا ہے۔ رنگے ہوئے ہونٹوں کو کھولتے وقت سفید سفید دانت موتی جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لئے عورتیں اور چھوٹی بڑی لڑکیاں یہ پتے داتُن کے بدلے استعمال کرتی ہیں۔
ایک ٹہنی پر درانتی مارتے ہوئے اچانک درانتی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور ایک خوفناک چیخ میرے کانوں سے ٹکرائی۔جب میں نے نیچے کی طرف دیکھا تو موہنی کے سرسے فوارے کی طرح اُبلتا خون پیڑ کی جڑ یں تر کر رہا تھا ۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ۔ چیختے چلاتے پیڑسے نیچے آنے کی کوشش میں کوئی ٹہنی میری آنکھ میں گھس آئی جس کی وجہ سے میں آدھا اندھا ہو چکا تھا۔پھر میں پیڑ سے گر کو بے ہوش ہو گیا۔۔۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنے آپ کو اسپتال کے صاف و شفاف بستر پر پایا۔ موہنی مجھ سے ہمیشہ کے لئے روٹھ کر جا چکی تھی۔لیکن جاتے جاتے میری آنکھ کو پھر سے روشن کر گئی تھی۔ پولیس کے گشت شروع ہوگئے تھے۔کچھ میری کم سنی کی وجہ سے ، کچھ میرے پتا جی کے اثر و رسوخ سے اور سب سے زیادہ موہنی کے والدین کی شرافت سے وہ کیس ختم ہو گیا۔
انسان بڑا ہوکر کتنا بھی بڑا آدمی بن جائے ۔ اس کی زندگی کتنی بھی بدل جائے لیکن کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو اس کے ذہن و دل میں ثبت ہو کر رہ جاتی ہیں۔ موہنی صرف میری یادوں میں ہی زندہ نہیں تھی بلکہ وہ میرے شریر کا حصہ بن کر ہمیشہ میرے ساتھ جیتی رہی ہے ۔
اچانک ایک خوفناک چیخ نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔ میرے خوابوں کا طلسم بکھر گیا اور ساتھ ہی بچوں کی چیخ و پکارمیری سماعت سے ٹکرانے لگی۔ میں نے اخبار ایک طرف پھینک دیا۔ ننگے پاؤں باہرکی طرف دوڑنے لگا۔ چیخ وپکار مسلسل ہوا میں تھر تھرا رہی تھی اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میری سماعت نے منزل کا تعین کر لیا ۔ میرے قدم خود بخود آواز کی جانب اُٹھ رہے تھے ۔ میں گھر کے پیچھے اخروٹ کے باغ کی طرف دوڑتا چلا گیا اور وہاں کا منظر دیکھ کر میں ہکا بکا ہوکررہ گیا ۔ کئی بچے گول دائرہ بنائے چلا رہے تھے۔ ان کے پاس پہنچتے ہی جومنظر میںنے دیکھا، اس سے میں حواس باختہ ہوگیا۔ میرا سر چکرانے لگا۔میری بیٹی مُنو میری بیوی کی گودمیں تھی۔ منو کے سر میں جو میں نے آدھی سے زیادہ درانتی گھسی ہوئی دیکھی تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ خون فوارے کی طرح اوپراُٹھ کر میری بیوی کے کپڑوں کے ساتھ ہولی کھیل رہا تھا۔ میری بیوی روتی آنکھوں سے مجھے درانتی کی طرف اشارہ کررہی تھی ۔ شاید وہ مجھ سے کچھ کہہ بھی رہی تھی لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں بیٹی کے سر سے درانتی کو نکال دوں۔
���
اسلا م آباد،اننت ناگ ، فون نمبر9419734234