خود مختار عورت اور معاشرتی روایات غورطلب

 سیدہ رخسار کاظمی،پونچھ
خودمختار ہونا ایک عورت کو پَر دینے کا کام کرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُڑان بھر سکتی ہے تا کہ اسے کسی اور پر منحصر نہ رہنا پڑے۔ خواتین کو خود مختار ہونا چاہئے، ایک خود مختار عورت اپنے آپ کو ہر طرح کے جذباتی، ذہنی، اور معاشی امور سے نمٹنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کی ہر دوڑمیں آگے بڑھ سکیں اور خود اپنے مقاصد تک آپ پہنچیں۔ آج کل کی دنیا میں، خود مختار عورتوں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ وہ خودداری، اعتماد، اور پُرعزم کی حیثیت سے زندگی گزارتی ہیں۔ ایک خود مختار عورت خود کو اپنے ہاتھ میں زندگی کی تکمیل محسوس کرتی ہےاور دوسروں پر انحصار کرنے کے برعکس بذات ِ خودہر کام کو انجام لانے کے لئے حوصلہ مند ہوتی ہے۔ خود مختاری، عورتوں کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ ان کی زندگی کے کثیر اہمیت کے مسائل کے حل کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ خود مختاری سےعورت میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور آگے بڑھنے اور اپنے مقصد تک پہنچنے میں مدد گارثابت ہوتی ہے۔ ایک خود مختار عورت اپنے خوابوں کو خود انجام دینے پر یقین رکھتی ہے، دوسروں کے انحصار پر خواب نہیں سجاتی۔ اس معاشرے میں لوگ مردوں کو خودمختار ہونے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جب بات عورتوں کی آتی ہے تو معاشرہ انہیں پیچھے کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کوکوئی بھی کام کرنے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے باپ پر مختار ہوتی ہے، اور جب وہ بیوی بنتی ہے تو وہ اپنے شوہر پر مختار ہوتی ہے۔ایسے میں خوداس کی کوئی شناخت نہیں رہ جاتی ہے۔ اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے گا تو وہ اپنی زندگی کو کیسے گزار سکتی ہے،معاشرہ اس کا کوئی خیال نہیں رکھتا۔کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کو ہمیشہ کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات اب حقیقت کے روپ میں نہیں رہی ہے۔ اگر خواتین کے راہ میں کوئی کانٹا بننے کی کوشش نہ کرے تو وہ بڑے سے بڑے کام انجام دے سکتی ہیں۔ سروجنی نائیڈو، اندرا گاندھی، سشما سوراج، ثانیہ مرزا، اروندھتی رائے، کرن بیدی، سدھا مرتی، برکھا دت، میتھالی راج، کلپنا چاولا، اور گنجن سکسینہ جیسی ہزاروں عورتوں کے نام لئے جا سکتے ہیں جو اپنے کام کی وجہ سے اپنے خاندان اور اپنے ملک کی عزت و وقار اور فخر کا باعث بنیں۔
دورِ حاضر اور خاص کر بچھڑے ہوئے علاقاجات کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ یہاں عورتوں کو خواب دیکھنے سے پہلے ہی ان کے خواب کچل دئیے جاتے ہیں، انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے کہ شادی بیاہ ہی ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہے۔ اس ضمن میں میں نے جب اپنے محلہ میں نظر دوڑائی تو مجھے قریب 47 سال کی زینت بیگم نظر آئیں، جو چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے شوہر کی چند سال پہلے وفات ہوگئی تھی، میں نے پوچھا کہ کیا وہ پڑھی لکھی ہیں؟ زینت بیگم نے بتایا کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اور وہ اپنے شوہر کی کمائی پر منحصر تھی، لہٰذا اُن کے شوہر کی وفات کے بعد اُنھیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالیں اور اُنہیں تعلیم حاصل دلاوا سکیں۔ جس کی وجہ سے اُن کے بچے جنہیںاس عمر میں پڑھائی کرنی چاہئے، وہ محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ زینت بیگم نے کہا کہ اگر میں پڑھی لکھی ہوتی اور اپنے دم پر پیسے کما سکتی تو شاید میرے بچوں کا مستقبل اس طرح خراب نہ ہوتا۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جو بھی ہو، ہر عورت کے لئےپڑھائی لازمی ہے تاکہ اُن کو مستقبل میں میری طرح مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی حوالے سے جب میں نے شگفتہ ناز سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تعلیم ہر عورت کے لئے بہت ضروری ہے۔ میرے والدین نے میری تعلیم مکمل کروائی تھی جس کی بدولت آج میں اپنا خرچہ خود اٹھا سکتی ہوں اور مجھے کسی اور پر انحصار نہیں کرنا پڑتا ہے۔ میں پیشے سے ایک استانی ہوں اور بچوں کو پڑھاتی ہوں اور مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ میں اپنا خرچہ خود نکال سکتی ہوں اور میں اپنی بیٹیوں کو بھی خود مختار بنانا چاہتی ہوں۔ میری سب والدین سے یہ گزارش ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلائیںاور تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی کروائیں۔ جب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو جائیں تب تک اُن کی شادی نہ کروائیں۔
مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب ہر صدی اور ہر عہد میں عورت نے اپنے حقوق کی پاسداری کے لیے آواز بلند کی۔ مگر افسوس کے کئی بار اس کی آواز کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی مذاہب کےماننے والے ہیں، ہر مذہب میں عورت کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن ہو یا گیتا ہر مذہبی کتاب اپنے اندر عورتوں کے حقوق کو سمیٹے ہوئے وجود میں آئی ہیں۔ زمانے کی تنگدستی و تنگ نظری جب جب عورت کی راہ میں رکاوٹ بنیں، تب تب عورت نے احتجاج کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر بار اُسے دنیا کی دقیانوسی سوچ نے دھتکار دیا۔ یہ عورت ہی ہے جو کبھی ماں بن کر کبھی بیٹی اور بہن اور کبھی بیوی بن کر اپنے گھر کی تربیت کرتی ہے مگر جواب میں اسے فقط ناقص العقل اور کبھی پاؤں کی جوتی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ عورت وہ ہے کہ جو زمانے کے خزاں رسیدہ گلستان میں ایک سدا بہار پھول بن کر محبت کی خوشبو مہکاتی ہے۔ عورت وہ ہے کہ جس کے دم سے یہ دنیا اپنی زندگی کا چراغ جلانے میں کامیاب ہوئی کیونکہ عورت کے دم سے ہی مرد کا وجود بھی ہے۔ آج ضرورت ہے تو خواتین کے حقوق کو بحال کرنے کی ہے، ضرورت ہے تو ایک عورت کو معیاری تعلیم دلوانے کی ہے تا کہ وقت آنے پر وہ مرد کے شانہ بہ شانہ چل سکے اور اپنی زندگی عزت اور وقار کے ساتھ جئے۔ عورتوں کو آزاد ہونا چاہئے، کیونکہ یہ انسانی حق ہے۔ آزادی سے مراد مادی، جسمانی، ذہنی، روحانی اور اجتماعی رویوں کی آزادی ہے۔ عورتوں کو اپنے فردی، تجارتی اور معاشرتی ترقی کے لئے خود کفایتی، قابلِ اعتماد بننا چاہئے۔ انہیں بہترین تعلیم، مہارت اور تربیت فراہم ہونی چاہئے تاکہ وہ خود پرست اور بے بغاوت بن کر معاشرے کی خدمت کر سکیں۔ عورتوں کے حقوق کا احترام کرنا ہماری معاشرتی بنیادوں کے لئے بہت اہم ہے اور یہ ایک عدالتی، مساوی اور بہتر معاشرتی نظام کی بنیاد ہے۔ بقول علامہ اقبال