خودکُشی نہیں ،زندگی جینے کا نام ہے ! حُسنِ اخلاق سے زندگی آرام سے گذرتی ہے

بلال احمد پرے

خودکشی یعنی اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی جان لینا انتہائی بُرا فعل ہے ۔ یہ اقدام اخلاقی، سماجی ،قانونی اور مذہبی اعتبار سےغلط اور حرام ہے ۔جو صرف ایک بزدلانہ حرکت کہلاتی ہے ۔ خود کشی کے منسلک مختلف انسانوں کے مختلف اسباب نظر آتے ہیں۔ کوئی دسویں یا بارہویں جماعت میں ناکام ہونے یا اُمید سے کم نمبرات حاصل کرنے پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے ۔کوئی نیٹ (NEET) جیسے مسابقتی امتحان میں ناکامی کی خبر سنتے ہی اپنی زندگی کی خیانت کرتا ہے، کوئی نوکری حاصل کرنے کی دوڑ میں ہارکر اپنی جان لیتا ہے ،کوئی کاروبار میں خسارہ ہونے پر موت کو گلے لگاتا ہے۔اسی طرح کئی لوگ عشق میں ناکامی، اپنے عاشق یا اپنی معشوقہ کی بے وفائی پر زندگی کاخاتمہ کر دیتے ہیں ۔ کبھی کوئی بہو اپنے سسرال کے تند و تلخ رویہ سے تنگ آکر یہ انتہائی اقدام اُٹھاتی ہےاور کوئی لاڈلا یا لاڈلی اپنے والدین کی ڈانٹ ڈپٹ پر یہ شیطانی عمل اپناتے ہیں۔ کبھی کوئی غربت کا ماراضعیف العمر شخص یہ قدم اٹھاتا ہے ۔ کبھی کوئی کسان اپنی سال بھر کی محنت پر پانی پھِر جانے کے سبب اپنی جان لے لیتا ہے۔ اسی طرح کوئی کھیل کود کے معاملے میں اپنی یا اپنے ٹیم کی شکست براشت نہ کرتے ہوئےموت کو ترجیح دیتا ہے۔ غرض مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف صورتِ حال، اس طرح کے انتہائی اقدام کے متعلق سامنے آتے رہتے ہیں ۔
عالمی تنظیم برائے صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال 7 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں، جن میں بیشتر نوجوان ہوتے ہیں ۔ اس طرح سے خودکشی نوجوانوں میں اموات کا چوتھا، بڑا سبب بن چکی ہے ۔ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق خودکشی کےباعث ہونے والی اموات کی عالمی فہرست میں ہندوستان 42 ویں مقام پر ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی رپورٹ ہے کہ ہندوستان میں سنہ 2016ء میں خود کشی کےکل 1,31,008 واقعات سامنے آئے، جبکہ سنہ 2017ء میں 1,29,887 ، سنہ 2018ء میں 1,34,516 ، سنہ 2019ء میں 1,39,123 اور سنہ 2020ء میں 1,53,052 افراد نے خودکشی کی ہیں ۔ اسی رپورٹ کے مطابق خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔گویا خودکشی اب یہاں ایک سنگین مسئلہ کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔
دیکھا جائے تو ملک میں نوجوانوں کی ایک خاصی تعدا دکی اموات کا سبب خودکشی ہے ۔ خودکشی کے زیادہ تر واقعات 15 سے 30 سال کے افراد ہوتے ہیں۔ جو خودکشی کے کل واقعات کا 34.4 فیصد ہے، جبکہ 30 سے 45 سالہ افراد میں یہ تناسب 31.4 فیصدی ہے ۔
پیشہ کے لحاظ سے سنہ 2020ء میں سرکاری ملازمین میں خودکشی کا تناسب 1.3 رہا ہے ۔ اسی طرح پبلک سیکٹر ملازمین میں 1.7 فیصد، نجی شعبہ کے اداروں میں 6.6 فیصد، کھیتی باڈی کرنے والوں میں 7 فیصد، طلباء میں 8.2 فیصد، بے روزگاروں میں 10.2 فیصد اور نجی کاروبار کرنے والوں میں 11.3 فیصد ریکارڈ کیے گئے ہیں ۔
ریاستوں کے لحاظ سے مہاراشٹر میں خودکشی کے سب سے زیادہ (13 فیصد) واقعات ہیں ۔ اس کے بعد تامل ناڈو میں (11فیصد) اور مدھیہ پردیش میں (9.5فیصد) اموات کے واقعات بالترتیب ریکارڈ کئے گئے ہیں ۔ خودکشی کے مختلف اسباب کی نشاندہی ہوتے ہوئے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 33.6 فیصد واقعات کے ساتھ خانگی مسائل سب سے بڑا سبب ہے۔ اس کے بعد مستقل بیماری کے سبب 18 فیصد، پھر نشہ آور ادویات و شراب نوشی جیسی عادات کے سبب 6 فیصد، شادی بیاہ کے مسائل 5 فیصد ، بے روزگاری کی وجہ سے 2.3 فیصد، امتحانات میں ناکامی کے سبب 1.4 فیصد اور دیگر چھوٹے بڑے اسباب بتائے گئے ہیں ۔
این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سنہ 2017ء میں خودکشی کے 287 واقعات رونما ہوئے ہیں جب کہ سنہ 2018ء میں 330 ، سنہ 2019ء میں 284 اور سنہ 2020ء میں 291 واقعات پائے گئے ہیں ۔ ذہنی ہسپتال سرینگر کی تازہ تحقیق کے مطابق خودکشی کرنے کی کوشش کرنے والے 45 فیصد افراد ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ اس تحقیق کے مطابق اکثر خودکشی کرنے والے افراد کی عمر 18 سے 34 سال کے درمیان کی تھی ۔ تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں خودکشی کرنے کا رجحان زیادہ پایا گیا ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں میں اُناسی (79)فی صد آبادی ذہنی تناؤ ( Depression ) کی شکار ہیں ۔ بین الاقوامی تنظیم میڈیسن سائنس فرنٹیئرز (MSF) کی ایک تحقیق کے مطابق وادئ کشمیر میں پنتالیس (45) فی صد آبادی نفسیاتی پریشانی میں مبتلا ہے ۔ وادئ کشمیر کے ماہرِ نفسیات (Psychiatrist) کا ماننا ہے کہ ذہنی تناؤ (Depression ) ، جسمانی دباؤ (Stress) اور منشیات کی بُری عادت (Drug Abuse ) خودکشی کے بنیادی اسباب ہیں ۔ وادی کے مشہور نیورولوجسٹ ڈاکٹر سشیل رازدان کے مطابق دنیا کے باقی حصّوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ جو جدید زندگی کے تناؤ، تعلیم، تنہائی، جوہری خاندان، منشیات، تشدد وغیرہ جیسے وجوہات سے ہو سکتی ہیں ۔
دین اسلام درحقیقت انسانیت کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور انسان کے لئے عموماً جب کہ مسلمان کے لئے خصوصاً قرآن کریم کا نسخہ بطور ہدایت عطا فرمایا گیا ہے ۔ا ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ اور اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو، بے شک ﷲ تم پر مہربان ہے ۔ اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ ﷲ پر بالکل آسان ہے۔‘‘ (النساء ؛ 29 تا 30)
اللہ پاک کا کُھلا اعلان ہے کہ وہ کسی انسان کے اوپر اس کی مقدرت سے زیادہ مشکلات کا بوجھ نہیں ڈالتا ۔ ارشاد ہے کہ ’’ اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت (طاقت) سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔‘‘ (البقرہ، 286)مفسرین قرآن اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے ۔ دوسری جانب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اطمینان، ہمت و حوصلہ اور دلاسا دے دیتا ہے کہ پیش آیا ہوا مشکل ترین وقت زیادہ عرصہ کا نہیں ہے بلکہ اس کے بعد فراخی و آسانی ضرور بالضرور ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ پس حقیقت یہ ہے کہ ہر مشکل (تنگی، دشواری) کے ساتھ آسانی ہے ۔‘‘ (النشرح؛ :5)
اس طرح سے ربّ العالمین اپنے بندوں کو اس آیت مبارکہ کے ذریعے صبحِ نو کی ایک نئی امید تھما دے دیتا ہے ۔اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے کسی بھی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔ احادیث میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے خودکشی کرنے والوں کو وعید سناتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جو شخص لوہے سے خودکشی کرے گا وہ قیامت تک جہنم کی آگ میں لوہے سے خودکشی کرتا رہے گا ،اور جو جان بوجھ کر مرجانے کی نیت سے زہر کھا لے گا، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں زہر کھاتا رہے گا اور جو شخص اپنے تئیں جس چیز سے قتل کرے گا اُسے قیامت والے دن اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا ۔ ‘‘ ( صحیح البخاری و المسلم)اس فرمان کے مطابق خودکشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب شخص کو سخت ترین دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔لہٰذا اس حرام فعل سے بچنے کے لئے سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں پہ خاص نظر بنائے رکھنی چاہئے ۔دوم اساتذہ کرام، ائمہ و خطیب حضرات کو اس ضمن میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے ۔پریشانیوں میں مبتلا افراد کو بر وقت کونسلنگ اور صحیح طور پر صلح و مشورہ سے مستفید کرنا چاہئے اور مناسب مداخلت (Proper Intervention) کر کے قیمتی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ماہر نفسیات کی طرف رجوع کر کے ذہنی تناؤ اور دباؤ کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
اس وقت کئی سماجی و فلاحی تنظیمیں مایوسی و ناامیدی اور تناؤ جیسی کیفیات کے تئیں سماج میں بیداری لانے کی کوششیں کر رہی ہیں ۔ جس میں ڈاکٹر بغیررنگ و نسل ،ذات و ملت اور مسلک یا سرحدتندہی سےاپنا رول نبھا رہے ہیں ،اُن کے ساتھ رابطہ بنائے رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ خود کشی سماج کا ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے، لیکن ناقابل حل نہیں ۔ آئیےعہد کریں کہ ہم سب ایک دوسرے کا ہمدرد و غمگسار بن کر اسانتہائی بُرے فعل کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے ۔
رابطہ ۔ 9858109109
[email protected]