خواہش افسانہ

رئیس احمد کمار

بچپن سے ہی شاکر بہت ذہین تھا ۔ پڑھنے لکھنے میں بھی تیز تھا ۔ اسکول کے اکثر اساتذہ صاحبان وقت وقت پر اسکی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ زندگی میں ایک قابل اور نامور ڈاکٹر بنے کیونکہ گاؤں اور ملحقہ علاقے میں کوئی ڈاکٹر تھا ہی نہیں ۔ اس لئے اس کی نیک نیت ہی تھی کہ لوگوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھے۔۔۔۔۔
لیکن اس کے گھر والے، خاص کر اس کے ماں باپ اُسکے تحصیلدار بننے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ وہ چاہ رہے تھے کہ انکا اکلوتا بیٹا اچھی محنت کرکے تحصیلدار بنے ۔ کافی مدت تک بیٹے نے اپنے والدین کی خواہش پر کوئی دھیان ہی نہیں دیا تھا لیکن والدین کے اسرار پر اُسے اپنی خواہش قربان کرنی ہی پڑی ۔
اپنا من بدلنے کے بعد بیٹے نے شہر کے ایک نامور پرائویٹ کوچنگ مرکز میں داخلہ لیا ۔ شہر ہی میں ہوسٹل میں رہنے کا بھی بندوبست کیا۔ اب وہ مہینے دو مہینے بعد ہی گھر کا رخ کرتا تھا ۔ کتابیں اور باقی ضروری میٹیریل بھی ملک کے عظیم اداروں سے حاصل کرلیا ۔ اب وہ دن دوگنی اور رات چوگنی محنت امتحان پاس کرنے کی غرض سے کرتا تھا ۔ اپنے والدین کی امیدوں پر پورا اترنے کی بھر پور طرح کوشش کرتا رہا ۔
ایک دن کسی ہمسایہ کے ساتھ شاکر کے والدین کی تو تو میں میں ہوئی ۔ ہمسایہ کا مکان ان کے مکان کے متصل ہی تھا۔ جب آپس میں مفاہمت نہ ہوئی تو مقامی تحصیلدار کے پاس معاملہ پیش کیا گیا ۔ ان کے مکان کے پیچھے کچھ سفیدے کے درخت برسوں سے کھڑے تھے ۔ وہ شاکر کے دادا کے زمانے کے تھے ۔ محلے کے تمام رہنے والوں کو بھی اس بات کا پورا پتہ تھا لیکن جس ہمسایہ کے ساتھ ان کی لڑائی ہوئی اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک تو سفیدوں کے درخت اُس کے ہیں دوسرا وہاں سے دوسرے محلے تک بہت سال پہلے ایک راستہ گزرتا تھا جو انہوں نے بعد میں بند کیا تھا ۔ ہمسائے کا یہ دعویٰ غلط ، بے بنیاد اور حقیقت پر مبنی تو نہیں تھا لیکن محکمہ مال کے افسران، جن میں مقامی پٹواری اور تحصیلدار شامل تھے، نے ان کا یہ دعوی سچ قرار دے کر ان کی بھرپور مدد کی ۔ شاکر کے والدین نے ہر ایک آفیسر کے دفتر کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اُن کی ایک نے بھی نہ سنی ۔ مایوسی کے سوا ان کو کچھ حاصل نہ ہوا ۔ محلے والوں کو بھی جب اس بارے میں شاکر کے والدین نے پوچھا تو انہوں نے بھی سچائی بتائی یعنی درخت شاکر کے والدین کے ہیں اور ماضی میں وہاں سے کوئی راستہ بھی نہیں گزرتا تھا ۔ سچائی اور حقیقت پر مبنی شاکر کے والدین کے بیان کو کسی بھی آفیسر نے حقیقت نہیں سمجھا بلکہ مخالف دھڑے کی ہی حمایت میں پہلے سے کھڑے رہے ۔
شاکر کے والدین کو دکھ ہی نہیں ہوا بلکہ اس کی ماں نے بہت بار مکان کی اوپری منزل سے چھلانگ مارنے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی بھی کوشش کی ۔ ایک تو درختوں کی صورت میں لاکھوں کی پراپرٹی سے انہیں محروم کیا جارہا تھا، دوسرا راستہ بنانے میں بھی زمین بغیر کسی معاوضہ کے اُن سے زبردستی سے چھینی جارہی تھی ۔ شاکر کا باپ ایک مزدور تھا ۔ مزدوری کرکے اپنے عیال کو پالتا پوستا تھا ۔ بچوں کی پڑھائی اور ان کی شادیوں پر وہ درختوں کو فروخت کرنا چاہتا تھا لیکن اُس کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا ۔ کچھ دن بعد ہی سرکاری ٹیم، جس کی قیادت تحصیلدار کررہے تھے، نے درخت بھی کٹوائے اور باضابطہ وہاں سے روڈ بھی نکالاگیا ۔۔۔۔۔
تین دن تک شاکر کے والدین نے کچھ کھایا پیا نہیں لیکن اگلے ہفتے جب شاکر کا باپ کام کے لیے قصبے کی طرف نکلا تو گاؤں کے چوکیدار نے اُسے یہ خبر دی کہ مخالف دھڑے نے پٹواری اور تحصیلدار کو تین لاکھ روپے رشوت دیے تھے ۔ اسی لیے شاکر کے والدین کا بیان غلط قرار دیا گیا اور ان کی زمین پر زبردستی سے راستہ بھی نکالا گیا ۔ شاکر کا باپ ایک غریب اور مفلوک الحال آدمی تھا رشوت کے لیے اس بیچارے کے پاس پیسہ نہیں تھا ۔ مشکل سے ہی گھر چلتا تھا جس وجہ سے اس کی سچائی جھوٹ میں تبدیل کردی گئی اور مالی حیثیت سے بھی محروم کیا گیا ۔
سنیچر کے دن ان کا لاڈلا پیارا بیٹا شاکر شہر سے گھر واپس آیا ۔ شام کو ناشتہ کرنے کے بعد جب تمام افراد باورچی خانے میں موجود تھے تو شاکر کو بھی سارا قصہ سنایا گیا ۔ سارا ماجرا سننے کے بعد شاکر بھی مغموم ہوا ۔ وراثتی پراپرٹی اور اپنی زمین مفت میں کھو جانے کے غم نے اسے کافی ستایا ۔ مشکل سے ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا ۔ تین دن بعد ہی اسے امتحان میں شامل ہونا تھا تاکہ اپنے والدین کا خواب پورا کرسکے ۔ اپنی قابلیت اور محنت سے وہ امتحان ضرور پاس کرتا اور اپنے ماں باپ کا سپنا بھی پورا کرپاتا لیکن تحصیلدار کے اس رویے اور بےایمانی نے اس کا ذہن پھر سے پرانی سوچ پر لاکھڑا کیا ۔ تحصیلدار بننے کے بجائے اس نے یونیورسٹی میں ماسٹرس کی ڈگری کے لیے فارم بھرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ اس کے والدین اور دو بہنیں جو قریب ہی بیٹھیں تھیں نے اس بار شاکر کو مجبور نہ کیا بلکہ اس کی رائے پر ہی اتفاق کرنا مناسب سمجھا ۔

���
قاضی گنڈ کشمیر ،[email protected]