خالد بشیر تلگامی کےافسانچوی مجموعہ ’’دُکھتی رگ‘‘ پر ایک نظر!

بشیر اطہر

’’پاپا !یہ ایوارڈ آپ کو کس لئے ملاہے؟ بیٹے نے سوال کیا‘‘
’’گھریلو اہنسا روکنے کےلئے میں نے جو کام کئے ہیں ان کےلئے۔‘‘
بیٹے نے اور کچھ نہیں کہا، صرف اپنی ماں کے مایوس چہرے کو دیکھتا رہا۔
ایسے ہی کئ افسانچوں کے خالق وادی کشمیر کے مایہ ناز قلمکار، افسانہ نگار، محسنِ اردوادب خالد بشیر تلگامی ہیں۔ آپ تلگام پٹن کے رہنے والے ہیں۔تلگام پٹن ادبی لحاظ سے کافی ذرخیز ہے،جہاں بڑے بڑے قلمکاروں، شاعروں اور نقاد نے جنم لیا ہے۔ خالد بشیر تلگامی کانام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔آپ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں ،انہوں نے کم وقت میں ہی اپنے افسانوں تخلیقات سے ادب کے شیدائیوں کو محظوظ کیا اوراب انہوں نے افسانچوں پر مشتمل ایک پُر کشش کتاب’’دُکھتی رگ‘‘ شائع کرکے اردو ادب پر نہ صرف احسان کیا بلکہ اپنی کتاب منظر عام پر لانے سے اردو زبان وادب میں اپنا نام کمانے میں اردو زبان وادب کے ادیبوں کی چوٹی کو عبور کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ۔آپ وادی کشمیر کے نوجوان افسانچہ نگاروں میں ایک معتبر افسانچہ نگار ہیں، جن کے افسانے سماج کے ہر طبقہ، ہر فکر اور ہر دور کی رہنمائی کرتے ہیں ۔وادی کشمیر میں افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جنہوں نے افسانوی ادب میں اپنا نام کمایا ہے، انہیں میں خالد بشیر تلگامی کا نام بھی بڑے ادب و احترام کے ساتھ لیا جارہا ہے۔ آپ نے ’’دُکھتی رگ‘‘ میں ایک سو چھ افسانچہ شامل کئے ہیں۔ افسانہ نگار کےلئے یہ ضروری ہے کہ وہ افسانوی تکنیک، موضوعاتی اعتبار ، فن اور ہئیت سے باخبر ہو، جس پر خالد بشیر کھرے اترتے ہیں۔ انکے اکثر افسانے تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں مگر املا میں کئی غلطیاں رہ گئی ہیں، ایسالگتاہے کہ وہ غلطیاں مصنف کی نہیں بلکہ کمپیوٹر آپریٹرکی ہیں ،جن کی طرف دھیان دینے کی ضرورت تھی۔ یعنی پرُوف ریڈنگ میں عدم توجہی کے باعث وہ غلطیاں رہ گئ ہیں۔ خالد بشیر کے افسانچوں میں ایک پیغام لوگوں کی بے بسی اور مزاج عیاں کررہا ہے۔ آپ نے اپنے افسانوں میں ولایتی موضوعات سے کام نہیں لیا یعنی امریکہ، روس، چین وغیرہ جیسے موضوعات سے انحراف کیا ہے بلکہ اُن کو نجی و علاقائی زبان دیکر ان کو عام فہم بنایا ہے،جس سے ان کے افسانوں میں ایک نیا رنگ اور ایک نیا ولولہ پایا جارہا ہے۔ شاعری کی طرح افسانوں میں بھی تخیل ہونا ضروری ہے اور بلند خیالات ہونے سے ایک اچھا افسانہ بننے کے توقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ دُکھتی رگ میں ایک سے بڑھ کر ایک افسانہ متاثر کن ہونے کے ساتھ ساتھ معنی خیز بھی ہے۔ کبھی کبھار انسان کی بے بسی کارونا بھی رو لیاہے۔’’ سکون‘‘ افسانچہ میں میاں بیوی کے قصے کو اس طرح سمالیا کہ ایک بہت بڑا افسانہ نگار اس کو دو چار صفحات پر محیط کر سکتا ہے۔
’’جمیل نے ماں کی گود میں سر رکھا ہی تھا کہ اچانک بیوی کمرے میں آدھمکی اور غصے سے چلاتے ہوئے اُس سے پوچھا:جمیل، تم نے تو مجھے کہا تھا؟۔۔۔
نہیں، نہیں جانو! میں۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں !۔
’’یہ میں میں تو میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے…. سیدھے سیدھے بتاؤ کہ بات کیا ہے؟‘‘
بات دراصل یہ ہے کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ماں کی گود میں زیادہ سکون ملتا ہے یا بیوی کی ۔
گو کہ خالد بشیر تلگامی کے افسانچوں میں نصیحت بھی بھری ہے اور طنز ومزاح بھی۔۔۔۔
’’دُکھتی رگ‘‘ پر کئی قلمکاروں نے اپنے تبصرے رقم کئے ہیں، جنہوں نے اپنے ذریں الفاظ سے اس مجموعے کو جِلابخشی ہے۔ ان کے تبصروں پر میری بات کرنا آفتاب کو چراغ دکھانا ہے،البتہ جب کتاب پڑھی جاتی ہے تو سینے میں درد سا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اگر کچھ رقم نہیں کیا تو مصنف کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ دُکھتی رگ دراصل افسانچوں کا وہ مجموعہ ہے،جس نے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے پردے کو ہٹا کر ان حقائق کو آشکار کیا ہے جن کی زد میں یہ سماج آچکا ہے اورانسان اب انسانیت سے عاری ہے۔دوسرا پہلو اس مجموعے کا یہ ہے کہ انسان جتنا آجکل علمی خزانوں سے باخبر ہوچکا ہے اتنا ہی انسانیت سےبے خبر ہے۔ آج بیشتروالدین کسمپرسی کی زندگی جی رہے ہیں جبکہ بچے دنیاوی مستیوں میں مشغول ہیں۔ آج کل کے اس پُرآشوب دور میں قلمکاروں کی ایسی خدمات کو انجام دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔خالد بشیر تلگامی کا مجموعہ صرف فنی لحاظ سے ہی بہتر نہیں بلکہ علمی لحاظ سے بھی اعلیٰ وعمدہ ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے ایک قاری کے فہم وفراست کے دریچے وا ہوسکتے ہیں ،مجھے یہ کتاب پڑھ کر ایسا لگا کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کتاب ہے۔ سرورق عمدہ، چھپائی دیدہ زیب اوربہترین کاغذسے مزین خالد بشیر تلگامی کی ’’دُکھتی رگ‘‘ دُرّ شہوار سے بھی بھری پڑی ہے۔ ایک اور بات جس سے اس مجموعے کی خصوصیت یہ ہے کہ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ صرف خالد بشیر تلگامی کی ہی رگ نہیں دُکھتی ہے بلکہ معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے ہراُس شخص کی رگ دُکھتی ہے جو باحوش اور زیرک ہے ۔اس میں شامل افسانچے دُکھ کی کہانی زیادہ سُنا رہے ہیں۔ میں اپنے ان مختصر سے الفاظ کا یہیں پر ختم کرنا چاہتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ میرے محسن دوست خالد بشیر تلگامی آئندہ بھی اچھی اچھی تخلیقات سے ہمیں نوازتے رہیں گے۔
(رابطہ۔7006259067 )