حیا نہیں رہا ہے زمانے کی آنکھ میں باقی کڑواسچ

یاسر بشیر

اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو بنایا اور اس کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔اشرف المخلوقات کا مطلب ہے کہ تمام مخلوقات میں بہتر مخلوق یعنی اللہ نے ایک انسان کو ان نعمتوں سے نوازا ،جن نعمتوں باقی مخلوقات محروم ہے۔مگر ایک دن ہمیں ان سب نعمتوں کا جواب اللہ کے حضور دینا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سوال کرے گا کہ آپ نے میری عطا کردہ نعمتوں کا کس طرح استعمال کیا۔جب اللہ نے انسان کی تخلیق کی تب سے ہی ہمارے پیچھے ایک دشمن ہے، جسے ہم شیطان یا ابلیس کے نام سے جانتے ہیں۔جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے کہ “یہ تمہارا کھلا دشمن ہے”۔یہ ابلیس ایک انسان کو مختلف طریقوں سے اللہ اور رسول اللہؐ کی نافرمانی کی طرف راغب کرتا ہے۔ان طریقوں میں ایک کارگر طریقہ ’’بے حیائی ‘‘ہے۔ابلیس ایک انسان کو بے حیائی پر ابھارتا ہے۔پھر جب یہ انسان بے حیائی کا کام کرتا ہے تو باقی غلط راستوں کی طرف اس کا جانا آسان ہوجاتا ہے۔
یہ بات تھی ابلیس کی،پھر ابلیس نے انسانوں میں اپنے نائب بنائے اور انہیں اپنی اپنی کام رکھی۔ان کی کاموں میں سے ایک کام Valentines day کو منانا ہے۔یہ بے حیائی کا دن جس کو عالم گیر سطح پر حکومتوں کے سائے تلے ہر سال 14 فروری کو منایا جاتا ہے۔اس دن اتنی بے حیائی ہوتی ہے کہ میری نظر میں شیطان بھی اس دن اپنے کارکنوں کو یہ کہتا ہوگا کہ میں نے آپ کو اتنی کام نہیں رکھی تھی۔اس دن کا مقصد ہی یہی ہے کہ ایک انسان خصوصی طور ایک نوجوان بے حیا بن جائے۔مگر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم حیادار نبی کے حیادار امتی ہے۔ہم سے یہ بےحیائی کا دن نہیں منایا جائے گا۔جن اسکولوں کالجوں اور یونیورسیٹیز سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہاں پر تعلیم سے ہماری نسل نو کی تعمیر ہوگی،انہی اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ بے حیائی کا دن منایا جاتا ہے۔اس دن کسی باپ کی مجال نہیں کہ وہ اپنی بیٹی یا اپنے بیٹے کو یہ کہے کہ یہ کام مت کرو۔اس دن کا اثر پورے تک رہتا ہے جب تک یہ بے حیائی کا دن دوبارہ آتا ہے۔کیا اسلام نے ہمیں بے حیائی سے نہیں روکا تھا؟اسلام نے ہمیں حیا دار بننے کی تلقین کی تھی۔حدیث شریف کا مفہوم ہے’’بے شک حیا ایمان میں سے ہے‘‘۔مگر آج ہم حیا کے بجائے بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اور 14 فروری کا دن اس کے لئے خاص رکھا ہے۔غیر مسلم تو کیا،مسلمان نوجوں بھی اس دن کو خوب مناتے ہیں۔حیا نہ ہمارے گھروں میں رہا ہے نہ ہی ہمارے معاشرے میں۔حدیث شریف کا مفہوم ہے۔’’جب آپ کے اندر حیا نہ ہو تو جو چاہو سو کرو‘‘۔اس حدیث شریف سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب آپ کے اندر حیا ہی نہیں ہوگی تو آپ دین کے باقی احکام پر کیسے عمل کرسکتے ہو۔ایک انسان حیا سے ہی پہچانا جاتا ہے۔حیوان اور انسان کے درمیان فرق صرف حیا کی ہوتی ہے۔ورنہ حیوان بھی کھاتے پیتے ہیں اور انسان بھی یہ سارے کام انجام دیتا ہے۔مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’انسان کے اندر شرم و حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے‘‘۔
ہماری وہ بہنیں یا بھائی جو بےحیائی کو فروغ دیتے ہیں اور یہ بے حیائی کا دن مناتے ہیں، حضرت فاطمہؓ اور حضرت امام حسبن و امام حسنؓ کو کیا جواب دینگے ۔حضرت فاطمہؓ کو اتنا زیادہ حیا تھا کہ انہوں نے یہ بھی گوارا نہیں کیا کہ ان کا جنازہ دن کی روشنی میں اٹھایا جائے بلکہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھایا جائے۔
کیا ایک مسلمان کا یہ شیوا ہونا چاہئیے کہ وہ Valentines day کو منائے اور اس بے حیائی کے دن کو فروغ دے؟ہمیں صحابہ اور صحابیات کا حیا دیکھنا چاہئے اور اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔جب بنی قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کی تو نبی اکرمؐ نے ان سے جنگ کی۔مسلمانوں نے عورتوں اور بچوں کو ایک قلعے میں رکھا۔عورتوں کی حفاظت کے لئے حضرت حسانؓ مقرر تھے۔قلعے کے باہر ایک یہودی گھوم رہا تھا۔اس یہودی کو دیکھ کر حضرت صفیہ گھبرائیں اور خود ہی اس کو قتل کیا۔لوٹ کر وہ قلعے میں آئیں اور حضرت حسانؓ سے کہا’’وہ مرد ہے میں نے اسے ہاتھ لگانا اچھا نہیں سمجھا،جایئے اس کے جسم سے ہتھیار اتار لایئے۔‘‘یہ تھا صحابیات کا حیا اور پاکدامنی۔ مسلمانوں کا Valentines day منانا اسلامی تہذیب کے منافی ہے۔اسلام کی اپنی ایک مکمل تہذیب ہے۔مگر آج ہم نے غیروں کی تہذیب اپنائی اور اسلام کی تہذیب بالائے طاق رکھی۔حضورؐ نے غیروں کو پردہ کیا مگر ہم ان عورتوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔یہ دور کی بات ہے کہ ہم یہ دیکھ چکے، ہم کیا کرتے ہیں۔ہم میں اب یہ احساس بھی نہیں رہا ہے کہ ہم جو کرتے ہیں، وہ غلط ہے۔یعنی احساس بھی ہم میں نہیں رہا ہے۔علامہ اقبال حسرت کہ آہ سے کہتے ہیں:
وائے!ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
جب سے یہ بے حیائی ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی تب سے ہی مختلف مہلک بیماریوں نے ہمارے معاشرے میں جنم لیا۔جن میں AIDS سر فہرست ہے۔اگر ہمارا معاشرہ حیادار معاشرہ بنتا تو ہمیں ان بیماریوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا کیونکہ حدیث شریف کا مفہوم ہے’’حیا تو خیر کا ہی سبب بنتا ہے‘‘۔
ہمیں چاہئے کہ اس بےحیائی کے دن کا رد کرے۔اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حیا کو فروغ دیا جائے، تب ہی ہمارے معاشرے میں اسلامی فکر کی تعمیر نو ہوسکتی ہے۔یہ ہمارا فرض منصبی ہےاور ہمیں چاہئےکہ حیا کو فروغ دینے والے کاموں میں ساتھ ساتھ رہنا چاہئے اور اس بے حیائی کے دن کو ہمارے معاشرے میں مٹانا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ،’’نیک کاموں میں دوسروں کا تعاون کرو اور بدی اور برائی میں تعاون مت کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں بے حیائی کے کاموں سے دور رکھے اور ہم میں یہ ہمت اور طاقت دے کہ ہم ہر جگہ حیا کا پرچم بلند کرے۔
یہ کام ہے صبح و شام کرنا حیا کے کلچر کو عام کرنا
حیا کی جمعیت دودہائی فروغ نہ پائے بے حیائی
(رابطہ۔9149897428)
[email protected]>