حق نوائی | جہیز کی فرسودہ رسم ایک ناسور

رابعہ شیخ

عام طور پر بیٹی کے پیا دیس سدھارنے کا خواب والدین اسی دن دیکھنا شروع کردیتے ہیں، جس دن وہ پیدا ہوتی ہے۔ شادی والے دن والدین کے لیے بیٹی کی جدائی سے زیادہ اس کا گھر بس جانے کی خوشی اہم ہوتی ہے لیکن اس خوشی کے حصول کے لیے انھیں جہیز جیسی فرسودہ رسم کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے انتظار میں کتنی ہی لڑکیوں کی عمر بڑھتی جارہی ہے، وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ ان کے والدین جہیز کے نام پر مہنگے تحائف دینے یا لڑکے کے گھروالوں کی شرائط پوری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں،جنھیں جہیز کے مطالبات پورے نہ کئے جانے پر شادی کے بعد تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم بچپن سے ہی درسی کتابوں میں جہیز کی رسم کو ایک لعنت پڑھتے آئے ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرے میں یہ رسم دن بدن کسی ناسور کی طرح پنپ رہی ہے۔ برصغیر میں بیٹی کی شادی میں والدین کی طرف سے دیا جانے والا سامان (مثلاً فرنیچر ،کپڑے ،تحائف کراکری کا سامان ،نقد رقم اور سونے چاندی کے زیورات)جہیز کہلاتا ہے۔ اس کا تعلق لڑکی کوسسرال میں دیے جانےوالے مقام سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ جس لڑکی کو جتنا زیادہ جہیز دیا جاتا ہے، سسرال میں اس کی اتنی ہی زیادہ عزت ہوتی ہے۔ مطالبات سے بھری اس رسم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ ہندو رسم ورواج کے تحت یہ رسم مشرقی معاشرے میں داخل ہوئی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاشرے میں سرائیت کرگئی۔اگر دیکھا جائے تو شادی میں مطالبات کی صورت میں مانگا جانے والا جہیز اور رشتہ طے کرتے وقت لڑکے سے پوچھے جانے والے سوالات دو مختلف نظریے رکھتے ہیں۔ یہ سوالات لڑکی یا اس کے گھر والوں کے ذاتی مفاد سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ایک نئی زندگی اور ایک نئی نسل کی کامیابی سے منسلک ہوتے ہیں۔ جس طرح بہو کا انتخاب کرتے وقت لڑکے کے والدین کیلئے لڑکی کے طورطریقےیا اس کی تعلیم اہمیت رکھتی ہے (کیونکہ ایک ماں نسل کو پروان چڑھانے کی ذمہ دار ہوتی ہے)، بالکل ویسے ہی لڑکی کے ماں باپ کیلئے بھی یہ جاننا اہم ہے کہ آیا لڑکا شادی کے بعد ان کی بیٹی کی ذمہ داری اٹھانے کی استطاعت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔

ان سوالوں کو جہیز خوری سے منسوب کرنا درست نہیں کیونکہ گھر کی کفالت کا ذمہ دار مرد ہے، نہ کہ بہو کے گھر سے آنے والا جہیز اور نقد رقم۔ مرد اس معاشرے میں عزت دار مقام کا خواہشمند ہوتاہے تو کیا شادی کے وقت مطالبوں کے ذریعے لیا جانے والا جہیز اس کی عزت میں کمی کا باعث نہیں بنتا؟ ان سب باتوں پر سوچ بچار کی ضرورت ہے، ساتھ یہ بھی ضروری ہےکہ ہر شخص جہیز جیسی قابل مذمت رسم کو ایک لعنت سمجھتے ہوئے اپنا اپنا کردار دا کرے۔ وقت آگیا ہےکہ اس رسم کو ماں باپ پر بوجھ یا گالی نہ بننے دیا جائے۔ ایسا کرنے سے گھر بیٹھی بہت سے لڑکیاں ازدواجی رشتے میں بندھ کر ایک اچھی زندگی گزارسکیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔