حضرت امام حسنؓ۔سیر ت و کردار کا روشن باب نواسۂ رسولؐ

سید حامد علی شاہ موسوی

28صفر المظفر 50ھ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے، جب نواسہ رسولؐ جگر گوشۂ علیؓ و بتول ؓحضرت امام حسن مجتبیؓ درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ۔امام حسن ؓ15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورۂ کوثر کی پہلی تفسیربن کر صحن علی المرتضیٰؓ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراءؓ میں تشریف لائے ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے امام حسنؓ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی، کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسولؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔
مشرکین کوجواب کے لیے سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐنہیں ہوں گے ،بلکہ آپ کا دشمن ہوگا ۔دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے، لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا یعنی امام حسنؓ و حسین ؓکو قرار دیا گیا۔
بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسنؓ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرتؐنے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دےدی، امام حسنؓ اسے چوسنے لگے، اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اسے اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ۔آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکار کائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ۔( اسدالغابۃ ) اذان و اقامت کہنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے پوچھا۔ ’’ آپ نے اس بچے کا کوئی نام بھی رکھا؟‘‘امیرالمومنین ؓ نے عرض کی ۔’’آپ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔‘‘آپؐ نے فرمایا ’’ میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں‘‘چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل امینؑ آپؐ کی خدمت میں آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس کا نام حسنؓ رکھئے۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ امام حسن ؓسے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔آپ رسول کریم ؐسے چہرے سے سینے تک اور امام حسین ؓ سینے سے قدم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ تھے ۔
حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، حسنؓ اور حسین ؓدونوں جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی،مسند احمد، صحیح ابن حبان)حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐنے فرمایا، حسن ؓاور حسینؓ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ (ترمذی،مسند احمد)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی۔جس نے حسن ؓ اور حسینؓ سے بغض رکھا، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے بغض رکھا۔ (ابن ماجہ، طبرانی فی الکبیر)
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریمؐ نے حضرت حسن بن علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپؐ فرما رہے تھے، ’’اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما‘‘ ۔(بخاری، مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نےارشاد فرمایا ،جس نے ان دونوں یعنی حسنؓ وحسین ؓسے محبت کی ،اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (فضائل الصحابہ)
سیدہ فاطمہ ؓسے روایت ہے کہ وہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓکو رسول کریم ؐکے مرض الوصال کے دوران آپ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہؐ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، حسن ؓمیری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسینؓ میری جرأت اور سخاوت کا وارث ہے۔ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا، جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اِن دونوں یعنی حسنؓ وحسین ؓسے بھی محبت کرے۔ ( صحیح ابن خزیمہ، مجمع الزوائد)
امام حسن مجتبیٰ ؓنے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداؐ کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہراءؓ کی شہادت سے تین یا چھ مہینے پہلے ہوئی۔ آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔امام زین العابدینؓ فرماتے ہیں کہ امام حسنؓ زبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے۔ آپ ؓنے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے، آپؓ اکثریاد ِخداوندی میں گریہ کرتے ،جب آپؓ وضو کرتے ، توآپ کے چہرےکارنگ زرد ہو جاتا تھا اور جب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تو بید کی مثل کانپنے لگتے تھے ۔(روضۃ الواعظین بحارالانوار)
امام حسن ؓکے والد امیر المومنین حضرت علیؓ نے 21رمضان کو شہادت پائی ۔اُس وقت امام حسنؓ کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔امام حسنؓ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہوگئے تھے ، لیکن حق کے مرکزاور تعلیمات محمدی ؐ کے سرچشمہ امام حسنؓ کا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا ،اسی لئےنواسہ رسول ؐ امام حسنؓ کوزہردے کر شہید کردیا گیا۔( مسعودی، مقاتل الطالبین، ابوالفداء ،روضۃالصفا ، حبیب السیر ،طبری، استیعاب) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے نواسے امام حسنؓ نے 28صفر50ھ کو جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
امام حسنؓ کی زندگی تعلیمات مصطفوی ؐ کی عملی تفسیر ہے ۔آپ کا ہر کلام ہر اقدام اُمتِ مصطفویؐ کے لیے درس حیات ہی نہیں ،راہ نجات بھی ہے ۔آج بدترین انتشار کا شکاراُمت ِ مسلمہ کے مسائل کا حل نواسۂ رسول ؐحضرت امام حسنؓ کے افکار و کردار میں پوشیدہ ہے ۔