حج۔ عبادت ہے اور اُمّت کے لئےپیغامِ اتحاد بھی

TOPSHOTS Muslim pilgrims perform the final walk (Tawaf al-Wadaa) around the Kaaba at the Grand Mosque in the Saudi holy city of Mecca on November 30, 2009. The annual Muslim hajj pilgrimage to Mecca wound up without the feared mass outbreak of swine flu, Saudi authorities said, reporting a total of five deaths and 73 proven cases. AFP PHOTO/MAHMUD HAMS (Photo credit should read MAHMUD HAMS/AFP/Getty Images)

جاوید اختر بھارتی
مذہب اسلام کے پانچ رکن ہیں توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور پانچواں رُکن حج ہے اور آجکل حج کا موسم بھی چل رہا ہے۔ یوں تو ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کعبۃ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس کا طواف کرے، اس لئے خوش نصیب ہے وہ جس کو یہ سعادت نصیب ہوئی اور یہ مقدر کی بات ہے۔ ورنہ بڑے بڑے دولتمند اس دنیا میں ہیں اور کتنے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، انہیں مکہ اور مدینہ کی مقدس سرزمین پر جانا نصیب نہیں ہوا ۔ بہت سے ایسے مسلمان بھی ہیں ،جنہیں دیکھ کر یہ محسوس نہیں کیا جاسکتا کہ یہ وہاں تک پہنچیں گے لیکن اللہ کا کرم ایسا کہ سارے وہم وگمان کو توڑتے ہوئے اُن کی قسمت وہاں تک پہنچا تی ہے۔ حج مقدس ترین عبادت ہے، عالم اسلام کے لئے مرکز اتحاد بھی ہے، اللہ بارگاہ میں حاضری کا موقع ہے، دنیاوی قانون کے مطابق جو مجرم اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیتا ہے یا عدالتوں میں سرینڈر کرتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ رعایت برتی جاتی ہے مگر میدان عرفات تو اللہ کی عدالت ہے۔ جب میدان محشر قائم ہوگا، تب بھی اللہ کی عدالت ہوگی جہاں حساب وکتاب ہوگا اور جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ وہاں بھی کوئی بچے گا تو صرف اور صرف اللہ کے فضل و کرم سے ہی بچے گا، اسی کی ایک جھلک ہے میدان عرفات جہاں لوگ حاضر ہوکر کہتے ہیں کہ اے اللہ میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں خطاکار ہوں، میں سیاہ کار ہوں، دولت کے نشے میں بہک گیا، اپنے جاہ و منصب میں مست ہوگیا، تیرے احکامات کو بھول بیٹھا، لیکن اے رب کائنات آج میں تیرے دربار میں اپنی چودھراہٹ ٹھکراکر آیا ہوں، اپنا جاہ و منصب چھوڑکر آیا ہوں، اپنے تمام گارڈ و پروٹوکول کو ٹھوکر مارکر آیا ہوں، مجھے اپنے سارے جرم قبول ہیں، آج یقین ہوگیا کہ کوئی مددگار نہیں، بس ایک تو ہی مددگار ہے اور تیرے ہی کرم سے بیڑہ پار ہے، تو ہماری حاضری کو قبول کرلے اور رحم و کرم کا معاملہ فرمادے۔
احادیث کی کتابوں میں یہ روایت ملتی ہے کہ جس نے حج کیا اور جس کا حج بارگاہ خداوندی میں قبول ہوگیا تو گویا اس کے سارے گناہ معاف ہوگئے اور وہ ایسا ہوگیا جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، یعنی گناہوں سے پاک و صاف ہوگیا، اب آگے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو پاک صاف رکھتا ہے یا پھر دنیاوی رنگ میں اپنی زندگی کو رنگتا ہے۔ حج کے لیے جائے تو دل میں خلوص کا ہونا ضروری ہے، حج سے قبل حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے، لین دین کا سارا معاملہ پاک وصاف کرنا ضروری ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اتنی مہلت دی ہے کہ جب وسعت ہوجائے تب حج کرنے جاؤ، گھر سے پوری طرح فراغت پاجاؤ، تب حج کرنے جاؤ ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حج کرنے کے بعد اب اتنی ہی پاک صاف زندگی گزارنی ہے جتنی پاک صاف زندگی بندہ حج کے ایام میں گزارتا ہے۔ دل میں یہ خیال ہی نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ میرے پاس دولت تھی تو میں حج کرنے آیا یا میں نے حج کرلیا بلکہ دل میں یہی خیال رہنا چاہیے کہ بس اللہ رب العالمین کا فضل ہوا کہ میں اس کے دربار میں پہنچا اور اس کے محبوب ؐکے مقدس آستانے پر حاضری کا شرف حاصل ہوا ۔ جب یہ شرف حاصل ہوا تو اب ضروری ہے کہ اہل وعیال کی فکر نہ کرے، کاروبار کی فکر نہ کرے بس اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ سے لولگائے، اللہ سے مدد طلب کرے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ ؑ کا واقعہ یاد کرے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہؑ کو جنگل و بیابان میں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ حضرت ہاجرہؑ نے بار بار آواز دی لیکن ابراہیم ؑ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے ہیں، جس جگہ حضرت اسماعیل ؑکو چھوڑا تھا وہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں تھا ،پانی بھی میسر نہیں تھا، جب حضرت ہاجرہؑ کو یقین ہوگیا کہ ابراہیم ؑ پلٹنے والے نہیں ہیں تب یہ پوچھا کہ آخر ہمیں اس بیابان میں جہاں چرند و پرند بھی نہیں ہیں ،نہ کچھ کھانے، پینے کے لیے ہے، آخر کس کے حوالے چھوڑ کر جارہے ہیں، ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟ تب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نگہبان ہے، اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر جارہا ہوں، اتنا سننا تھا کہ ہاجرہؑ کو اطمینان ہوگیا اور کہا کہ تب جاؤ، بیشک اللہ ہماری حفاظت کریگا ۔یہی وہ مقام ہے جسے صفا مروہ کے نام سے جانا جاتا ہے جو اللہ کی نشانیوں میں سے ہے ،جہاں پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہ سات مرتبہ دوڑیں، یہ ادا اللہ تبارک و تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ حج کے ارکان میں شامل کردیا۔ ہر حاجی کو صفا مروہ کی سعی کرنا ہے اللہ پر توکل کا یہ صلہ ملا کہ حضرت اسماعیل ؑ نے پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑیں اور اللہ کے حکم سے حضرت جبریل ؑنےپَر مارا اور پانی کا چشمہ جاری ہوا ،جسے آج ہم آب زمزم کہتے ہیں جو دنیا کا سب سے پاکیزہ پانی ہے، جو شفاؤللناس ہے۔ ایسی مقدس سرزمین پر جاکر کسے دنیا یاد رہے گی جہاں دن رات اللہ کی رحمتیں برستی ہیں۔ مکہ مکرمہ وہ شہر ہے جسے اللہ نے بلدالامین کہا ہے ، اللہ نے جس کی قسم کھائی ہےاور اسے’ ام القریٰ ‘کا درجہ عطا فرمایا ہے یعنی ساری بستی کی ماں قرار دیا ہے۔ مکہ وہ شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے سید الکونین شہنشاہ عرب وعجم صل اللہ علیہ وسلم کی ولادت فرمائی ہے ،جہاں غارحرا ہے ،جہاں قرآن کی پہلی وحی نازل ہوئی ہے ،جہاں خانہ کعبہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے پاکیزہ شہر اور مقدس بستی میں پہنچیں اور اس سے بھی زیادہ خوش نصیبی کی بات ہے حج بیت اللہ کیلئے حاضری کی سعادت نصیب ہوجائے ۔ایسی پاک سرزمین پر پہنچ کر صرف عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لبىك اللھم لبیك لبىك لاشریک لك لبىك ان الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك لبيك کی صدائیں بلند کرتا رہے اور اپنے آپ کو ایک مجرم سمجھے، دلوں میں تقویٰ پیدا کرے ،خوف خدا سے پورا جسم لرزہ براندام رہے، دل میں یہ خیال رہے کہ اے اللہ! میں گنہگار و خطاکار ہوں، سیاہ کارہوں، تیری عدالت اور تیری بارگاہ میں آج حاضر ہوں، بیشک توہی خالق ومالک ہے، عزت و ذلت، زندگی اور موت سب کچھ تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہے، تو ہماری حاضری کو قبول فرمالے، ہمارے دلوں کو روشن فرمادے ،ہمارے گناہوں کو معاف کردے۔ حج بیت اللہ کی جنہیں سعادت حاصل ہوئی ہے، وہ اپنی آنکھوں سے اسلامی مساوات بھی دیکھیں اور اللہ کا انصاف بھی دیکھیں کہ بادشاہ اور فقیر، آقا اور غلام، عربی اور عجمی، گورے اور کالے سب کا ایک ہی لباس ہے ،ایک کپڑا اوڑھنا ہے اور ایک کپڑا لپیٹنا ہے ،یہیں سے قبر کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ چاہے بڑے سے بڑا امیر، حکمراں بھی جب موت کی نیند سوئے گا تو قبر میں دفن ہوگا، اوپر سے مٹی ڈال دی جائے گی ۔کسی نے آج تک یہ وصیت نہیں کی کہ میری قبر میں ٹائلس لگا دینا ،بہترین قسم کی قالین بچھا دینا ،دنیا میں چاہے کوئی کتنا ہی کسی کے ساتھ حق تلفی کرے لیکن مرنے کے بعد آخرت کی پہلی منزل قبر سے ہی انصاف شروع ہوجاتا ہے، یہ اللہ کا قانون ہے اور میدان عرفات میں ایک اور سبق ملتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور لوگ عرفات کے میدان میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے بھی رہتے ہیں۔ کاش اسی طرح ہمیشہ تھامے رہتے تو آج اُمت ِمسلمہ انتشار کا شکار نہیں ہوئی ہوتی اور پوری دنیا میں ذلیل و خوار بھی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو ایک موقع دیا ہے زندگی میں انقلاب لانے کا ،جہنم سے نجات پانے کا اور جنت کا حقدار بننے کا، لہٰذا ہر حاجی کیلئے ضروری ہے کہ اس مقدس سرزمین سے اپنے آپ کو ربّ کے قرآن اور نبیؐ کے فرمان کے سانچے میں ڈھال کر آئے، پھر تا عمر ایسا ڈھلا رہے کہ لوگ اس سے متاثر ہوں اور انہیں دیکھ کر اپنے آپ کو تخیُل کی شاہراہ پر سوار ہو کر سوچیں اور غور کریں اور اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں ۔ ہر حاجی اس مقدس سرزمین پر پوری اُمت ِمسلمہ کی خیر و بھلائی کی اور ملک میں امن و سلامتی کی دعا کریں اور جب مدینہ منورہ جائیں اور دربار رسالتؐ میں حاضر ہوں تو پوری امت کا سلام پیش کریں، انتہائی ادب و احترام کے ساتھ، نگاہیں جھکی ہوئی رکھیں اور دل میں یہ بھی خیال رکھیں کہ ہم اس قابل تو نہیں کہ اس دربار میں پہنچیں لیکن یہ سب تمہارا کرم ہے۔آقا کی بات ابتک بنی ہوئی ہے اپنے حالات پر نظر ڈالیں اور آنکھوں سے ندامت کے آنسو برسائیں کیونکہ جو کچھ بھی بھلا ہونا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہی میں بھلا ہونا ہے۔ آخر میں دعا ہے کہ پوری دنیا سے حج بیت اللہ کیلئے جانے والے مسلمانوں کا حج اللہ تعالیٰ رسول اکرم صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

موبائل8299579972
[email protected]