جہیز افسانہ

مینا یوسف

اُس نے لہنگے کا ڈوپٹہ پھیلا کر اپنے سر پر ڈالا۔چہرے پر ایک الگ ہی نور چمک رہا تھا۔ـ’’ماشاء اللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی‘‘۔فاطمہ بیگم اپنی بیٹی کے پاس آئی اور اسکا ماتھا چوما۔ماہ رخ ایک دم سے اپنی ماں کو دیکھ کر شرما گئی اور ڈوپٹہ اُتار کر تہہ کر کے واپس رکھ دیا۔اچھا ماہ رخ ،میں ذرا بازارسے ہو کے آتی ہوں کچھ ضروری سامان لانا ہے۔فاطمہ بیگم نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو تے ہوئے کہا اور بازار کی اور نکلی۔
’’اسلام علیکم‘‘ ۔۔۔ فاطمہ بیگم نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک الگ ہی قسم کی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی۔ ’’وعلیکم اسلام ۔۔۔ارے بیٹا وسیم‘‘۔ فاطمہ بیگم نے اسکا ماتھا چوما۔انہیں وہ بہت عزیز تھا کیونکہ وہ ان کے گھر کا ہونے والا اماد تھا۔’’دراصل میں گھر ہی جا رہا تھا ۔آپ کو یہاں دیکھا تو سوچا آپ کو سلام کرتا جائوں۔‘‘ وسیم نے مسکرا کر کہا۔
’’بہت اچھا کیا بیٹا ۔‘‘فاطمہ بیگم نے شفقت بھرے لہجے میں اس کو جواب دیا اور پیار سے اپنا ہاتھ اس کے سر پر پھیر دیا وہ وسیم کو اپنا بیٹا مان چکی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کی وسیم اُسکی بیٹی کو پلکوں پر بٹھا کر رکھے گا۔
لہذا فاطمہ بیگم اور اس کے شوہر اللہ کا شکر ادا کرتے تھکتے نہ تھے کہ وسیم ان کی بیٹی کے نصیب میں تھا۔
تھوڑی سی بات چیت کے بعد وسیم اپنے گھر چلا گیا۔
’’دیکھو وسیم ، تم میری اولاد ہو اور میں تمہاری ماں۔ میرا کہا ہوا تمہیں ماننا ہی پڑے گا‘‘۔رضیہ بیگم نے اپنے بیٹے سے تلخ لہجے میں کہا۔
’’امی آپ جو کہہ رہی ہے وہ بالکل غلط ہے۔ میں ایسا نہیں کر سکتااور نہ ہی میں ماہ رخ کے گھر والوں کو یہ سب کہہ سکتا ہوں ۔وہ یہ سب کیسے کریں گے۔‘‘ اسی اثناء میںوسیم کی بہن رقیہ کمرے میں داخل ہوئیں، وہ بھی یہ سب باتیں سن رہی تھی۔’’کیوں نہیں کرئینگے۔اگر انہیں اپنی بیٹی کا گھر بسانا ہے تو اتنا تو وہ کر ہی سکتے ہیں۔‘‘ رضیہ بیگم نے وسیم سے کہا۔
’’امی میں پہلے ہی کہ چکا ہوں کہ میں اُن سے کسی بھی طرح کی کوئی فرمائش نہیں کروں گااور اب آپ یہ سب۔۔۔‘‘۔
’’میں کہاں کہہ رہی ہوں فرمائش کرو۔میں تو بس چاہتی ہوں کہ وہ تمہیں ایک موٹر سائیکل لیکر دیں اور اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ میں یہ سب کچھ تمہارے بھلے کے لئے ہی کہہ رہی ہوں۔ ویسے بھی ہم جہیز تو نہیں مانگ رہے ہیں ان سے ‘‘۔وسیم نے بے بس نظروں سے اپنی بہن رقیہ کی طرف دیکھا۔جوں ہی رقیہ نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولنا چاہا تو رضیہ بیگم نے وسیم سے کہا۔ ’’بس اگر یہ شادی ہوگی تو صرف اسی شرط پرہوگی اس کے آگے مجھے کچھ نہیں سُننا ‘‘اور وہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔وسیم بیچارہ فرمائش سُن کر پریشان ہوگیا۔وہ بھلا اپنے سسرال والوں سے کیسے یہ کہہ سکتا تھا کہ اسے ایک موٹر سائیکل لادیں جبکہ وہ ان سے پہلے ہی کہہ چکاتھا کہ وہ جہیز کے نام پر ان سے ایک سوئی بھی نہیں لے گا اور اب اتنی بڑی فرمائش، وہ اب اپنی ماں کو بھی نہیں سمجھا سکتا تھا۔
’’فاطمہ بیگم مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ‘‘ اُس کے شوہر نے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے کہا۔
شوہر کی بات سُن کر فاطمہ بیگم پریشان ہو کررہ گئیں۔’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم کیسے خرید کے دیں موٹر سائیکل۔ وسیم نے تو۔۔۔۔
دیکھو بیگم اب بیٹی کی شادی اگر کرنی ہے تو یہ سب کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔اس کے سوا ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی تو نہیں۔ہمارے پاس جو تھوڑی سی زمیں ہے ہم اسے ہی بیچ کر موٹر سائکل خرید کر دیں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹی یہ بات سن کر پریشان ہو۔شادی کو اب کچھ ہی دن بچے ہیں۔ ‘‘
’’اسلام علیکم امی، وعلیکم سلام۔ بھلا یہ بھی کوئی وقت ہے اُٹھنے کا۔‘‘ماہ رخ کی ساس یعنی رضیہ بیگم نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔کیونکہ وہ ہمیشہ سے یہ چاہتی تھی کہ وسیم کی شادی ایک ایسے گھر میں ہو جہاں سے اس کو ڈھیر سارا جہیز ملے۔لیکن ملا بھی تو صرف ایک موٹر سائیکل جس سے ماہ رخ انجان تھی کہ یہ موٹر سائیکل اس کے والد نے خرید کر دی ہے۔
کچھ عرصہ بعد رقیہ کا رشتہ پکا ہوگیا۔ ماہ رخ اپنی نند سے بہت پیار کرتی تھی۔سب لوگ بہت خوش تھے۔لیکن فاطمہ بیگم کچھ ذیادہ ہی اکڑ رہی تھی۔’’ میں تو اپنی بیٹی کو ضرورت کی ہر چیز دوں گئی،اس کی شادی دھوم دھام سے کروں گی تاکہ سسرال میں کوئی اسے کل کو باتیں نہ سنائے۔‘‘ماہ رخ بیچاری چپ چاپ اپنی گردن جھکا کے رہ گئی۔
کچھ دن بعد رقیہ کی ہونے والی ساس اور سسر کچھ بات کرنے کے لئے اُن کے گھر آئے۔
’’ میں بہت خوش ہوں کہ میری بیٹی کی شادی آپ کے گھر میں ہو رہی ہے،ویسے میں نے اپنی بیٹی کے جہیز کی تیاری پہلے سے ہی شروع کر دی تھی‘‘ رضیہ بیگم نے کہا۔۔۔۔’’ارے نہیں رضیہ بہن ہم تو یہاں شادی کی تاریخ نکلوانے کی بات کرنے آئے ہیں اور ویسے بھی ہمیں اس لمبے چوڑے جہیز کی کوئی لالچ نہیں ہے‘‘رقیہ کی ہونے والی ساس نے کہا۔ وسیم اور ماہ رخ دونوں یہ بات سُن کر بہت خوش ہو گئے۔
’’واقعی رضیہ بہن ہمیں کچھ نہیں چاہئے آپ کیوں تکلیف کر رہی ہیں۔ہاں اگر آپ کچھ دینا ہی چاہتی ہے تو بس ایک ’’کار‘‘ دے دیجئے‘‘۔ جی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ کاررضیہ بیگم نے دبھے ہوئے لہجے میں کہا۔جی رضیہ بہن آپ نے بالکل صحیح سنا۔آپ کو تو پتا ہی ہے کہ احمد دوسرے شہر میں ملازمت کرتا ہے ان دونوں کے آنے جانے میں آسانی ہو جائے گی اور آپ سے بھی ملنے چلے آیا کریئں گے۔ وہاں موجود گھر کے لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
وسیم شکایت بھری نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا تھاجیسے وہ اس سے کہہ رہا ہوکہ دیکھا امی کسی کے ساتھ کی ہوئی ذیادتی اور بُرا سلوک اپنے آگے آجاتا ہے۔رضیہ بہن اب اگرشادی کرنی یہ سب تو آپ کو کرنا ہی پڑے گا۔رقیہ اندر کمرے سے یہ سب باتیں سُن رہی تھی وہ بے چاری اندر ہی اندر رو رہی تھی۔اس کی ماں کی بنائی ہوئی بدعت ’’جہیز‘‘اس کی زندگی تباہ کر گئی۔

���
سفاپورہ مانسبل
[email protected]