جہالت کفر سے بدتر ہے فہم و فراست

عبدالعزیز

احترام علم کا مطلب یہ ہے کہ علم کی عظمت و افادیت کے پیش نظر اس کی نشر و اشاعت کیلئے تمام انفرادی و اجتماعی وسائل بروئے کار لائے جائیں اور ان تمام عناصر و عوامل کا سدباب کر دیا جائے جو اس راہ میں حائل ہو۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جس معاشرے میں علم کی ضد جہالت موجود ہو وہاں علم کی تذلیل و تحقیر ہے اور علم کے مقابلے میں جہالت جس نسبت سے وہاں موجود ہوگی اسی نسبت سے علم کی عظمت مجروح ہوگی۔
علم کی عظمت و افادیت مسلم ہے، لیکن اسلام نے اسے بطور خاص اہمیت دی ہے۔ وحی کا آغاز ہی ’’اقراء‘‘ یعنی پڑھو سے ہوا۔ پڑھائی کے ساتھ لکھائی کی اہمیت واضح کر نے کیلئے اس پہلی وحی میں ارشاد ہوا ’’علم بالقلم‘‘ (4:96) یعنی ’’اللہ نے قلم کے ذریعے علم دیا‘‘۔ اسلام نے تخلیق انسانیت کے ساتھ ہی یہ بات واضح کر دی تھی کہ دوسری مخلوقات کے مقابلے میں انسان کا اصل امتیاز اس کی علمی فضیلت کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس کیلئے ملائکہ بکثرت موجود ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ ایک ایسی مخلوق چاہتا تھا جو ’’اللہ، اللہ‘‘ کے معانی و مطالب سے بھی پوری طرح آگاہ ہواور عبادت کو علم کی روشنی میں عقل و فکر سے ہم آہنگ کرسکے۔
علم کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ خود ذاتِ خداوندی نے معلم کے فرائض انجام دیئے: و علم اٰدم الاسماء کلہا21:2) )یعنی آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام اورخواص سکھا دیئے۔ فرشتے آدمؑ کی اس علمی عظمت کو دیکھتے ہی پکار اٹھا کہ ’’تو پاک ہے۔ ہمیں اس کے سوا کسی چیز کا علم نہیں جو تونے ہمیں سکھائی ہے۔ بیشک تو بے حد علم اور انتہائی حکمت والا ہے‘‘۔32:2))۔ پھر جب آدمؑ نے باقاعدہ اپنے علم کا اظہار کیا تو بحکم خداوندی ملائکہ کیلئے سوائے اس کے چارہ نہ رہا کہ وہ علم و عبودیت کے اس مجسمہ کی تعظیم و تکریم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ علمی و فکری تربیت کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو معرکہ کارزار کی طرف روانہ کیا تو ساتھ ہی فلاح و کامرانی کا یہ گُر بھی بتادیا: ’’علم و حکمت پر مبنی ہدایت تمہارے پاس آتی رہے گی جو اس کی پیروی کریں گے ان پر نہ خوف ہوگا نہ غم‘‘۔28:2))
قرآن میں احترام علم کا یہ پہلو ادیانِ عالم میں اپنی مثال آپ ہے کہ اس میں ایمان و علم لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان چند حقائق کو پوری طرح جان کر مان لینے کا نام ہے۔ ان حقائق کی معرفت بغیر علم کے ممکن نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سناسکتے ہیں۔ خصوصاً جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں۔ اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچاکر راستہ دکھانے والے ہیں۔ آپ تو صرف انہی کو سناسکتے ہیں جو ہمارے کھلے دلائل پر یقین رکھتے ہیں اور پھر وہ مانتے بھی ہیں‘‘۔80-81:27) )
اس آیت میں ایمان اور جہالت کو ایک دوسرے کی ضد قرار دیا گیا ہے۔ دل و دماغ اور سمع و نظر کی صلاحیتوں سے عاری انسان قرآنی تعلیمات پر ایمان لانے سے قاصر رہتا ہے، حتیٰ کہ رسول اکرمؐ بھی ایسے انسان کو قرآن کی طرف مائل نہیں کرسکتے۔ قرآن پر صرف ایسے لوگ ایمان لاسکتے ہیں جو انفس و آفاق میں پھیلے ہوئے کھلے دلائل کو علم و فکر کی روشنی میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ قرآن نے اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ اندھے اور بہرے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بصارت اور سماعت کی صلاحیتوں ہی سے محروم ہیں بلکہ درحقیقت وہ لوگ جس صلاحیت سے محروم ہیں وہ بصیرت اور تفکر و تعطل کا فقدان ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’کیا یہ لوگ دنیا میں گھومے پھرے نہیں جس سے ان کے دل ایسے ہوجاتے کہ ان سے سمجھنے لگتے یا ان کے کان ایسے ہوجاتے کہ وہ ان سے سننے لگتے۔ بات یہ ہے کہ (ان کی) آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہیں‘‘۔46:22) )
دوسری جگہ یوں فرمایا: ’’یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے اپنی رحمت سے دور کرکے ان کو بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا، تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں‘‘۔23-24:47)) ذرائع علم سماعت و بصیرت سے محرومی کو اللہ کی لعنت سے بھی زیادہ بڑی سزا بیان کیا گیا ہے۔
قرآن دلیل کی زبان میں بات کرتا ہے۔ ’’اگر تم سچے ہو تو مجھے کسی علمی و عقلی دلیل سے تو آگاہ کرو‘‘۔143:6))، ’’ایمان و علم کے التزام کے سبب اسلام جبر و اکراہ پر مبنی دین کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔143:6))، ’’دین میں زبردستی نہیں (کیونکہ) ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے‘‘۔256:2))، ’’تاکہ جسے برباد ہونا ہو وہ واضح ثبوت کی بنا پر ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ واضح دلیل کی موجوگی میں زندہ رہے‘‘۔42:8))، علم و یقین کے التزام کو ایک جگہ یوں بیان کیا ہے: ’’اس چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو‘‘۔36:17))، یعنی جب تک کسی چیز کی حقیقت معلوم نہ ہوجائے اس کی تصدیق نہ کرو اور نہ ہی اس کو مانو۔
علم و ایمان کی ہم آہنگی کے اس بنیادی نظریے کے مطابق قرآن حکیم ان لوگوں کے ایمان کا اعتبار نہیں کرتاجو اسلامی حقائق کو علمی معیار پر پرکھے بغیر علمی وجوہ مثلاً سیاسی یا معاشی مصالح کی بنا پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو واضح طور پر بتا دیا گیا کہ وہ تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرلیا ہے لیکن ایمان کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ کسی چیز پر ایمان اس صورت میں ممکن ہے جبکہ اس کے دلائل کو علم و فکر کی کسوٹی پر پرکھ کر بلا جبر و اکراہ اسے قلب سلیم میں جگہ دے لی جائے۔ اس کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’جاہل، گنوار کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ فرما دیجئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے لیکن یوں کہو کہ ہم نے مخالفت چھوڑ کر اسلام کی بالادستی قبول کرلی ہے۔ ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘۔14:49) )۔ اس نظریے کی مزید وضاحت یوں فرمائی: ’’جاہل و گنوار کفر و نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ان کی حالت اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ ان حدود (کی حکمتوں) کو نہ سمجھ سکیں، جنھیں اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کیا ہے‘‘۔ (97:9)
رابطہ۔9831439068
[email protected]