جُھمکا افسانہ

شبنم بنت رشید

رضیہ تب بہت چھوٹی تھی جب اس کے پھوپھی زاد بھائی کی شادی ہوئی تھی۔ اس کی پھوپھی بھی اسی کے محلے میں رہتی تھی۔ رضیہ کے اَبا اور ان کی بہن کے درمیان بہت پہلے ایک جائداد کے معاملے پر جھگڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے دونوں گھرانوں کے درمیان ناراضگی چل رہی تھی۔ اسی دوران رضیہ کے پھوپھی زاد بھائی کی شادی ہوئی۔ ناراضگی کی وجہ سے رضیہ کے گھروالوں نے شادی میں شمولیت نہیں کی۔ لیکن رضیہ ایک لاابالی پگلی سی چھوٹی سی لڑکی تھی اور ولیمے کے دن اپنے گھروالوں کو بتائے بغیر ہی اپنے محلے کی چھوٹی چھوٹی سہیلیوں کے ساتھ دلہن دیکھنے گئی۔
رضیہ نے دلہن کو دیکھا۔ دلہن کے سر پر سنہری کناری والا لال دوپٹہ اور کانوں میں سونے کے لمبے لمبے ڈبل جھمکے (جھمکے کے اندر جھمکہ) تھے، جو دلہن کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے۔ رضیہ کو دلہن بہت پیاری لگی اور اس سے بھی زیادہ اسے دلہن کے ڈبل جھمکے لگے۔ اس معصوم کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں ماں سے کہوں گی کہ میرے لیے بھی ایسے ہی بھاری بھاری سونے کے جھمکے لائے تاکہ میں بھی اپنے کانوں میں پہن لوں لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اس کے کانوں میں ابھی چھید ہی نہیں ہیں تو وہ کیسے جھمکے لگا سکتی ہے۔
ڈبل جھمکے کو ذہن میں رکھ کر ایک دن اس نے اپنی ماں سے کہہ دیا “ماں آپ میرے کان کب چھدواؤ گے؟” ماں نے جواب میں کہا،” تجھے ابھی کان چھید کر کیا کرنا ہے۔ ابھی تو چھوٹی ہے۔ جب تم اپنی پڑھائی پوری کروگی تب تمہارے کان چھید یں گے۔ ابھی کان چھیدنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔” ماں نے اسے سختی سے منع کیا۔ اس طرح رضیہ چپ ہوگئی اور اس نے جھمکے کی بات دل میں ہی رکھ لی۔ لیکن رضیہ کی آنکھوں کے سامنے ہمیشہ وہ جھمکا رہتا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے وہ ہمیشہ سوچا کرتی تھی کہ کیا کوئی ایسا دن بھی آئے گا جب میرے کانوں میں بھی سونے کا ڈبل جھمکہ ہوگا۔
کچھ عرصہ بعد اسکے والدین نے اس کی پڑھائی چھڑوا دی۔ رضیہ تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ وہ تعلیم آگے جاری رکھنا چاہتی تھی مگر وہ ایک غریب گھر کی بیٹی تھی۔ غریب گھروں کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ وہ جلد اذ جلد بیٹیوں کو اپنے گھر بار کے کردار میں ڈھالنا مناسب سمجھتے ہیں ورنہ ماں باپ اپنے بچوں کی بہتری کےلئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ رضیہ اپنے گھر کے حالات سے واقف تھی۔ اس کا باپ مقامی مسجد میں امام تھا۔ اس کے علاؤہ کئ گھروں میں جا کر چھوٹے چھوٹے بچوں کو ناظرہ پڑھاتا تھا۔ اسکی ماں چرخہ کاتتی تھی، تب جاکر ان کے گھر کی ضروریات پوری ہوتی تھیں۔
رضیہ کی پڑھائی چھوٹتے ہی اس کے کان چھید دیئے گئے۔ اب رضیہ کو یقین ہو گیا کہ اب وہ سونے کے ڈبل جھمکے لگا سکتی ہے۔ بچپن سے لیکر اب تک اگر رضیہ کو کسی چیز کی تمنا تھی تو صرف ڈبل جھمکے کی تھی۔ کچھ ہی عرصہ بعد رضیہ کا رشتہ طے ہوگیا اور پھر منگنی بھی ہوگئ اور شادی کی تاریخ بھی طے ہوگئ۔ گھر میں جتنا بھی پیسہ جمع تھا وہ سارے کا سارا منگنی کی رسم پہ خرچ ہوگیا۔ اب شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ماں کے پاس اپنی شادی کے تھوڑے بہت جو زیورات موجود تھے، ماں اور آبا نے انہیں بیچ کر جو پیسہ لایا اس سے رضیہ کے لیے کپڑے اور ضرورت کی تھوڑی بہت چیزیں اور مختصر سی بارات کے کھانے پینے کا خرچہ پورا ہوا۔ زیور کے نام پر رضیہ کے لیے ایک چھوٹی سی بالی بن گئ۔ رضیہ اپنی شادی پر دنیا کے سارے رنگ خریدنا چاہتی تھی مگر وہ سمجھ گئی تھی کہ دنیا کے سارے رنگ تو پیسوں سے خریدے جاسکتے ہیں۔ اس کے اَبا ایک سفید پوش انسان تھے۔ وہ اس کے شوق کیسے پورے کرسکتا تھا۔ اس لیے رضیہ نے اپنے بچپن کی تمنا کو دل ہی دل میں دفن کردیا۔ اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوے اس نے سوچا کہ شادی پر نہ سہی شادی کے بعد اپنا ارمان ضرور پورا کروں گی۔ لیکن وہ اس حقیقت سے بالکل ناواقف تھی کہ اکثر رشتے اپنی برابر والوں میں طے کئے جاتے ہیں۔ لیکن رضیہ کی خوش نصیبی یہ تھی کہ اسے ایک نیک، صالح اور پیار کرنے والا ہمسفر ملا۔ سسرال پہنچ کر رضیہ کا زندگی سے پوری طرح تعارف ہوا، کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ زندگی آسانیوں کا نام نہیں۔ زندگی ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم سوچتے ہیں اور وہ کچھ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں۔ اس کے سسرال میں بھی حالات ویسے ہی تھے جیسے اس کے میکے میں تھے۔ اس کا شوہر زید ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر تھا۔ صبح شام بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا لیکن زمہ داریوں کا بوجھ کچھ زیادہ ہی بھاری تھا۔
گھر میں بزرگ والدین کے علاؤہ دو چھوٹی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا، جو ابھی زیر تعلیم ہی تھے۔ سب کا بوجھ زید کے کندھوں پہ تھا۔ زید دل کا شہزادہ تھا مگر تنگدستی اسکا مقدر تھی۔ رضیہ اب اس گھر کا حصہ بن گئی اور اس نے بھی اپنے حصے کی زمہ داریاں سنبھال لیں۔ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ وہ ٹیوشن میں بھی زید کا ہاتھ بٹانے لگی۔ بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ زندگی بہت بدل گئی۔
کل کی لاابالی لڑکی آج ایک زمہ دار عورت بن گئ۔ اسے یہ بات سمجھ آئی کہ قناعت کرنے سے زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہ قناعت پسند بن گئ۔ رضیہ اور زید نے بہادری سے مشکلوں کا سامنا کیا۔ وہ زندگی کے گرد باد میں پھنس گئے۔ وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔
زید کے بہن بھائی اپنے آپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے۔ زید اور رضیہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا رہے تھے، جس کی وجہ سے ابھی ان کے حالات بدلنے کی کوئی توقع نہیں تھی۔
ایک روز رضیہ اور زید بازار سے گزر رہے تھے تو اچانک رضیہ کی نظر فٹ پاتھ پر سجی مصنوعی زیورات کی ایک ریڑھی پہ پڑی۔ اس نے ریڑھی پر ہو بہو ویسا ہی جھمکہ دیکھا جسے پہننا کبھی اس کا خواب ہوا کرتا تھا۔ اس کے قدم خودبخود تک گئے۔ اس نے جھمکے کو ہاتھ میں اٹھایا، جو بالکل سونے کے جھمکے کی طرح چمک رہا تھا۔ رضیہ نے چھابڑی والے سے جھمکے کی قیمت پو چھی۔ چھابڑی والے نے اس کی قیمت سو روپے بتائی۔ رضیہ نے اپنے پرس سے سو روپیہ نکالا اور جھمکے خرید لیے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔
گھر پہنچ کر رضیہ نے وہ جھمکے اپنے کانوں میں لگائے اور آیئنے کے سامنے کھڑی ہوگئی تو اس کی نظر اپنے سفید بالوں پر پڑی۔ آج اسے یہ بات سمجھ آئی کہ ہم اپنے آپ کو بھول کر دوسروں کے لئے جیتے ہیں اور اپنی خواہشوں کو مارتے ہیں۔ وہ دوسرے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہوتے ہیں۔ جن کے ہونے سے ہمارا اپنا ایک وجود ہوتا ہے۔

���
پہلگام، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419038028