جُوس فیکٹری ،دوآبگاہ کشمیر! قفس میں ہے میری جان کس لئے ؟

رشید پروین ؔ سوپور

سوپور ایک تاریخی قصبہ ہے۔ کیونکہ اس کا نام بھی ایک تاریخی کردار سے ہی منسوب ہے جو اپنی ذہانت اور صلا حیتوں سے اونتی ورمن کا وزیر رہا ہے (۸۵۰۔۸۸۳ء)تاریخی لحاظ سے اور بھی سوپور کے ساتھ بہت سارے ایسے واقعات ہیں جو اس سے تاریخی بناتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ قصبہ جو کبھی ہیڈ کوارٹر بھی رہا ہے۔ ایشیاء کی سب سے بڑی اور میٹھے پانی کے جھیل سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے اور اس جھیل کی جتنی بھی آبی اور قدرتی پیداوار ہے، وہ سوپور کی مارکیٹ میں ہی کھپ جاتی ہیں ، اور سوپور ہی آج تک اس پیداوار کاسب سے بڑا قدر داں ہے۔ دوسری بڑی اور سب سے بڑی جو اہمیت سوپور کی ہے کہ یہ ایپل ٹاون کہلاتا ہے اور بجا طور پر اس کی مناسبت ایپل سے اس لئے ہے کہ اس کے آس پاس دوسرے ضلعوں کی سر حدوں تک سوپور کے شاندار اور جاندار باغات حد نگاہ تک نظر آتے ہیں ، جن کی بہتر آمدنی سے نہ صرف یہ ضلعے بلکہ سارا کشمیر استفادہ کرتا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اقتصادی طور پر یہ آمدنی ہمارے اقتصادی ڈھانچے کے لئے ریڑھ کی ہے۔ چونکہ سیب کی گریڈنگ کے بعد جو میوہ جات کی فصل بچتی تھی اور جو باہر نہیں بھیجی جاسکتی تھی اور ہزاروں ٹن سیب جو خود بخود درختوں سے گرتے تھے ، مکمل ضائع ہوجاتے تھے ، جس کے استعمال کا ہم میں شعور ہی نہیں تھا ۔ لیکن حیرت انگیز اور متحیر کن بات یہ ہے کہ سوپور کے بادشاہ کہلانے والے خواجہ صمد پنڈت کی نظر کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ جہاں انہوں نے اس زمانے میں سینما کی سوچی ،وہاں انہوں نے بہت بڑے پیمانے پر جوس فیکٹری بھی لگوائی تھی اور اب ہمیں اس فیکٹری کی افادیت کا شعور پیدا ہوا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی اس فصل کے لئے وہ مشنریاںلگائی جا چکی ہیں جس سے اس فصل کا جوس نکال کر اس سے کنسن ٹریٹ کیا جاتا رہا ہے۔ ۸۰ ۱۹ میں فروٹ گرورس کی انتھک محنتوں اور ارباب اقتدار کی شعوری بیداری نے دو آبگاہ سوپور میں ایک بہت ہی بڑی جوس فیکٹری ایسٹیبلش کرنے کا عزم ظاہر کیا اور ۱۹۸۵ میں ایپل ٹاون کے مکینوں کو اس خواب کی تعبیر نظر آئی ۔یقینی طور پر اس فیکٹری نے آمدنی کے نئے وسائل کے ساتھ ہی فورتھ گریڈ (چھانٹ ) کے بہتر استعمال کو ممکن بنادیا۔ جب ا س فیکٹری نے تیار ہوکر اپنا کام شروع کیا ،تو کشمیر کی فروٹ انڈسٹری میں نئے باب کا اضافہ ہوا اور اس پلانٹ کی معیاری مشنری کی دھوم باہر تک سنائی دینے لگی، جس نے بڑی جلدی ہر سو آوٹ لیٹس قائم کرنے میں مدد کی۔ میں آپ کو یہ انفارمیشن بھی دوں کہ سوپور فروٹ منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی منڈی تصور کیا جاتا ہے اور بالکل اس کی شان کے مطابق ہی یہ جوس فیکٹری بھی ،جیسا کہ یہاں ماہرین کا خیال ہے کہ جرمن کے بغیر اس طرح کی مشنری اور فیکٹری یہاںاور سارے ملک میں کہیں نظر نہیں آتی۔ ہمیں ان اشخاص ، ان ارباب اقتدار کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے ضرورت اور عوام کی انتہائی جائز مانگ کو پورا کرنے میںکسی قسم کی سیاست کا کھیل نہیں کھیلا ۔ اس فیکٹری سے بیروز گاروں کے لئے روز گار جنریٹ ہوگیا ،اس فیکٹری کے چالو ہونے سے وہ فصل جو باغات کے ارد گرد سڑتی نظر آیا کرتی تھی ، فیکٹری میں پہنچائی جانے لگی۔ فورتھ گریڈمیوہ (چھانٹ ) کو جمع کرنے والوںکا ایک منظم گروہ وجود میں آیا ، جنہیں اس طرح سے روز گار ملنے لگا اور باغات کے مالک بھی اس درجے کے میوہ جات کو بیچ کر کمائی کرنے لگے۔ ٹرانسپورٹ کے لئے بھی ایک اور ذریع آمدنی بڑھنے لگا ، روزانہ بنیادوں پر بھی روز گار کے مواقع میسر ہونے لگے۔ یہ فیکٹری اپنی ابتدا میں ۶۰۰ میٹرک ٹن تک کنسن ٹریڈڈ جوس پیداکرنے لگی اور اس فیکٹری میں اتنا مال آس پاس سے آنے لگا کہ ۲۴ گھنٹے بھی یہ فیکٹری سیزن میں چالو رہا کرتی تھی ، جس سے اس فیکٹری نے نہ صرف معقول منافع کمانا شروع کیا بلکہ ابتدا سے ہی کروڑوں روپیہ کی آمدنی ہوتی رہی۔۸۵ ۱۹ تک آتے آتے اس فیکٹری کی مجموعی پیداوار ۱۰۰۰۰ میٹرک ٹن جوس نکانے کی صلاحیت ہوچکی تھی ، جو اُسوقت مارکیٹ کے حساب سے ۴۰ کروڈ مالیت سے بھی زیادہ کی پیداوار بنتی ہے۔ ابتدا سے ہی ہمارے اس جوس کی ایکسپورٹ بڑھیا رہی، کیونکہ جس طرح کشمیری ایپل کی باقی ممالک کے ایپل کے مقابلے میں اپنی منفر د اہمیت اور مقام ہے بالکل اسی طر ح اس کنسنٹریٹڈجوس نے ساری دنیا میں دھوم مچائی اور ڈے بائی ڈے اس کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی ۔سوپور کے علاوہ کشمیر کے لگ بھگ سبھی قصبہ جات اور سرینگر شہر میں ہماری پروڈکٹ کے آوٹ لیٹ قائم ہوچکے تھے اور فی بوتل ۲۰۰ روپیہ کے حساب سے بکتی تھی ،جس میں ۰۳،۱ لٹر جوس ہوا کرتی تھی۔ آپ کو شاید یاد نہ ہوکہ یہ پلانٹ ابتدا میں ’’کیڈ بری کمپنی ‘‘کے تحت کام کرتا رہا ، اور اچھے اور منظم طور پر آگے بڑھ رہا تھا ، ٹھیک ٹھاک پرافٹ پہ جا رہا تھا ، ہمارے بہت سارے نوجوان اس میں با ضابطہ ملازم بھی تھے اور پھر سیزنل ملازمتیںبھی میسر ہوجاتیں تھیں ۔ لیکن اچانک پلانٹ کو جموں و کشمیر ہارٹی کلچر پرو ڈیوس مارکیٹنگ اینڈ پرسسنگ ( j k h p mc)کو سونپ دیا گیا اور پتہ نہیں کیوں ،جب ہمارے ہاتھ کسی بھی چیز کو لگ جاتے ہیں ،اس کی ہئیت ، شکل اور شباہت ہی بدل جاتی ہے۔ اچھے اچھے بڑے کارخانے ، ٹرانسپورٹ ، انڈسٹری جب سرکاری ہوجاتی ہیں تو منافع بخش اور ترقی کی تمام سیڑھیاں تنزل کی طرف گامزن ہوکر آخر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہیں ۔بالکل یہی حال اس پلانٹ کابھی ہوا ۔ کیا کشمیر کا کوئی ذی حس یہ معمہ حل کر سکتا ہے کہ ایک ایسی فیکٹری جو ہر سال اپنی نئی منزل مقرر کرتی ہے ، جو ہر سال آگے اپنے اہداف سے بھی بڑھ جاتی ہے ، جو ہر سال بیروز گاری کے بجائے روز گار فراہم کرتی ہے ، جو کسانوں اور فروٹ گرورس کے ان کی آمدنیوں میں اضافے کا باعث ہے اور ساری دنیا کو بہتر کوالٹی کا ایپل جوس فراہم کرتی ہے، کیوں ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ کو سونپ دی گئی جو اس فیکٹری کو صحت مند بنیادوں پر چلانے سے قاصر ،ناکارہ یانا اہل تھا ، اس فیکٹری کو ہی آخر بند کردیا ، کیوں ؟ کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ پلانٹ نقصان نہیں اٹھا رہا تھا ، اس کا پروڈکٹ فلاپ نہیں تھا بلکہ ہاتھوں ہاتھ بک رہا تھا ، جو فیکٹری خاصے منا فع اور مالی طور مستحکم بنیادوں کی حامل تھی ، کیوں اچانک ۲۰۱۳ میں بند کی گئی ؟ یہ ایک بڑا اور سب سے اہم سوال ہے۔ جس کا جواب فرووٹ انڈسٹری اور ایپل ٹاون کو مانگنا چاہئے۔ لیکن ان کے پاس زندہ باد مردہ باد کرنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ۔ وہ جانتے ہیں ، ہمارا ایمان ہے کہ ایپل ٹاون کے وہ سارے لوگ جو ایپل ٹریڈ سے منسوب ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ فیکٹری کیوں اور کس کے لئے بند کر دی گئی اور کیوں سینکڑوں لوگ بیروز گار بھی کر دئے گئے اور تب سے اب تک مالکاں باغات اپنا یہ تھرڈ گریڈ میوہ پھر پرانے زمانوں کی طرح باغات کے آس پاس سڑنے کے لئے چھوڑنے پر مجبور ہیں۔۱۹۱۳ میں چیف منسٹر عمر عبداللہ تھے ۔ ان کے ریکارڈ میں نیلوفر آسیہ عصمت دری اور قتل کیس ، ان کے دور میں رگڑو کی تحریک ہے ،ان کے دور میں سیلاب کی تباہ کاریاںہیں اور انہوں نے اپنے اعمالنامے میں یہ باب بھی درج کیا ہے کہ ایک اچھے خاصے پرفٹیبل ، چاک و چوبند اور ورلڈ کلاس مشینری کو زنگ آلود اور بے کاربنانے کا کارنامہ انجام دیا ، اُن کے بعد کسی نے بھی اس فیکٹری کو از سر نو چالو کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہر حال ہم عوام سے اور خصو صاً فروٹ گرورس سے استدعا کرتے ہیں کہ سیاست اپنی جگہ ۔لیکن جو سہولیت یہاں ایپل ٹاون کو حاصل تھی ، جو آمدنی اور روز گار یہاں عوام کو میسر تھا اور جو فیکٹری ہماری اقتصادیات میں اہم رول ادا کر سکتی تھی، اس کو محض کسی خاندان یا گھرانے کی خاطر اگر بند کیا گیا ہے تو بڑا جرم سر زد ہوا ہے ۔ آپ کو اس مسلے کو آگے شدت اور حدت کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا ،نہیں تو آپ بھی اپنے اعمال نامے میں اس سیاہی کے حصے دار ہوں گے۔ یہاں آج بھی اس مشنری کی دیکھ ریکھ کے لئے ایک اطلاع کے مطابق ۱۸ ؍ملازمین ہیں اور ابھی تک تکنیکی ماہرین کے مطابق یہ پلانٹ دنیا کے بہتر پلانٹوں میں سے ایک ہے ۔ ابھی اس میں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی بلکہ پلانٹ پوری طرح سے فنشکنیبل ہے بلکہ بیچ میں کبھی کسی شاید ضرورت کے تحت ہی پلانٹ کو دو مہینوں تک چالو بھی کیا گیا اور ۷۰ میٹرک ٹن جوس حاصل کی گئی، لیکن فوراً کسی دیو استبداد نے فیکٹری میں تالے لگوادئے اور ان تالوں کی چابیاں کوہ قاف کے جِن نے اپنے پاس محفوظ کر رکھی ہے۔مزید کچھ برس کے بعد اس کی بہترین اور معیاری مشنری کباڈی بھی خریدنے سے معذرت چاہیں گے اور اس طرح قوم کا اربوں روپیہ محض ذاتی مفادات اور اغراض و مقاصد کی خاطر وقت کی دھول میں کھو جائے گا۔ یہ ہماری کم ظرفی ، غفلت شعاری اور جوابدہی سے ماورا ہونے کی بد ترین مثال ہوگی۔ اس ڈی فنکٹ، بیکار اور بند پڑی ہوئی فیکٹری کے ایم ڈی سیکریٹریٹ کی میٹنگوں میں زبردست فنکشنل ہیں ۔
[email protected]>