جامع مسجد دہلی کا تواریخی پسِ منظر اور طرزِ تعمیر معلومات

سبزار احمد بٹ
ہندوستان اور اس سے باہر مغلوں کی تعمیرات دیکھ کر کوئی بھی شخص مغلوں کے ذوقِ جمال کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔مغلوں کی فنِ تعمیر کے نمونے ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ طرزِ تعمیر نہ صرف اسلامی فنِ تعمیر بلکہ ہندوستانی، ترکی، ایرانی فنِ تعمیر کا امتزاج ہے۔ مغلوں کی یہ تعمیرات نہ صرف مذہی اور تواریخی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان تعمیرات کی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے۔ جہاں تک جامع مسجد دہلی کا تعلق ہے ،یہ مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجدوں کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مسجدیں اُمّتِ مسلمہ کے روحانی سکون اور فکری رہنمائی کے مراکز ہیں۔مسجدوں میں مسلمان پانچ وقت کی فرض نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔اسلام میں مسجد کی تعمیر کرنے والوں کو بہترین قرار دیا گیا ہے ۔مغلوں نے اپنے دورِ حکومت میں بہت ساری مسجدیں تعمیر کیں ۔جامع مسجد دہلی نہ صرف ہندوستان میں مشہور مسجد ہے بلکہ منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے اس مسجد کا شمار بین الاقوامی شہرت یافتہ مساجد میں کیا جاتا ہے۔جامع مسجد دہلی کو مسجد ِ جہاں نما کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔جہاں نما کا مطلب وہ جگہ ہے جہاں سے پورے جہاں کا نظارہ کیا جا سکے ۔مسجد کا مینار اتنا اونچا ہے کہ جہاں سے پوری دلی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مسجد جہاں نما نام دینے کی یہ بھی ایک وجہ ہو۔ یہ مسجد ملک کی دارلحکومت دہلی کے شاہ جہاں آباد ( موجودہ چاندنی چوک نئی دہلی) میں واقع ہے۔اس مسجد کی تعمیر مغلوں کے پانچویں بادشاہ شاہِ جہاں نے 1650میں شروع کروائی ۔مسجد کی تعمیر میں پورے پانچ سال کا عرصہ لگا اور مسجد 1656 میں مکمل ہوئی ۔مسجد کی تعمیر کے لیے دنیا بھر سے بہترین کاری گروں، خطاطوں، سنگ تراشوں اور اعلی ترین ماہرین ِ تعمیرات کو طلب کیا گیا اور ان کی خدمات سے استفاده کیا گیا۔مسجد کی تعمیر میں دنیا بھر کے ان اعلیٰ ترین کاری گروں کے علاوہ ہندوستان کے 6 ہزار مزدور 6 سالوں تک مُسلسل کام کرتے رہے۔ مسجد کی تعمیر کا سارا کام شاہِ جہاں کے ایک وزیر سعیداللہ خان کی نگرانی میں ہوا۔کہا جاتا ہے کہ ایک دن بادشاہ تک یہ شکایت پہنچائی گئی کہ مسجد کی تعمیر میں سست رفتاری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ بادشاہ شاہِ جہاں نے جب اپنے وزیر سعیداللہ خان کو اس سلسلے میں طلب کیا تو سعید اللہ نے جواباً عرض کیا کہ مسجد کے اندرونی حصے کے فرش کے ہر پتھر پر قرآنی آیت پڑھ کر دم کیا جاتا ہے، اسی لیے وقت لگ رہا ہے بادشاہ کو یہ سن کر کافی خوشی ہوئی اور کام اسی طرح سے جاری رکھنے کا حکم دیا۔یاد رہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں 10 لاکھ کا خرچہ آیا ہے، یہ اس زمانے کی بات ہے جب مستری کی یومیہ مزدوری 2 پیسہ تھی اور ایک مزدور کی یومیہ مزدوری 1 پیسہ تھی ۔اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مسجد شریف کی تعمیر میں آج کے مطابق کتنا پیسہ لگا ہوگا۔ جامع مسجد دہلی کو برطانوی دورِ حکومت میں بھی اسلامی طاقت کی علامت مانا جاتا تھا۔مسجد کے تعمیر کی خاص بات یہ ہے کہ اس تعمیر میں سادگی کو ملحوظِ نظر رکھا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ مسجد کا محراب لال قلعہ میں موجود تختِ شاہی ( جس جگہ پر بادشاہ بیٹھتا تھا) سے اونچا رہے۔ یاد رہے کہ لال قلعہ جامع مسجد سے فقط 500 میٹر کی دوری پر واقع ہے ،پوری مسجد لال پتھر اور سنگِ مر مر سے بنی ہوئی ہے ۔مسجد کی لمبائی 40 میٹر ہے جبکہ چوڑائی 27 میٹر ہے مسجد کا صحن دلفریب اور جاذب نظر ہے ،مسجد کے صحن میں ایک چھوٹا سا عوض ہے جہاں پر نمازی وضوء بناتے ہیں ۔مسجد میں بیک وقت 25000 لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے کُل 11 محراب ہیں، درمیانی محراب سب سے اونچی اور بڑی ہے۔اس مسجد کے دو بڑے مینار ہیں اور تین خوبصورت گمبند بھی ہیں ۔ سب سے اونچے مینار کی لمبائی 41 میٹر ہےاور یہ سارے مینار لال پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔مسجد کے اندورنی حصے اور میناروں پر فارسی عبارت کنندہ کی گئی ہے ۔اس مسجد کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بھی مغل بادشاہ کی تاجپوشی وقت کے شاہی امام کے ہاتھوں انجام دی جاتی تھی ۔پہلے شاہی امام نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کی تاجپوشی کی اور یہ سلسلہ مغلوں کے آخری بادشاہ تک جاری رہا ۔مسجد کے آٹھویںشاہی امام حضرت سید احمد علی شاہ بخاری نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی تاجپوشی اپنے ہاتھوں سے کی۔دیکھا جائے تو جامع مسجد اور اس کے اماموں کی تاریخ ایک دوسرے سے مربوط ہے ۔جہاں شاہی امام بادشاہوں کی تاجپوشی کرتے آئے ہیں وہاں شاہی امام کے انتخاب میں حکومت کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ جیسے شاہِ جہاں نے اپنے دور میں اس مسجد کے لیے بے مثال شاہی امام کو ڈھونڈنا چاہا۔اور بالآخر بخارا (ازبکستان) کے بادشاہ سے رابطہ کیا ۔کیونکہ ان دنوں بخارا علم و فضل کا مرکز مانا جاتا تھا۔بخارا کے اس وقت کے بادشاہ نے اپنے داماد حضرت عبدالغفور شاہ بخاری کا انتخاب کیا اور اسے ہندوستان بھیج دیا۔اس کے بعد جامع مسجد کی امامت اسی خاندان سے نسل در نسل چلی آرہی ہے۔بادشاہ کی منشاہ کے مطابق ہر امام کا بیٹا اس کا جانشین قرار پاتا۔سبھی مقتدر شاہی اماموں کے نام مسجد میں موجود ایک عبارت پر درج ہیں ۔اپنی منفرد فن تعمیر کی وجہ سے پوری دنیا کے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں اور یہ مسجد سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔مسجد میں پہنچ کر انسان ایک عجیب سی مسرت اور اطمنان محسوس کرتا ہے۔مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ زینہ رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوبی دروازے پر 33 اور مشرقی دروازے میں 35 سیڑھیاں ہیں۔ مشرقی دروازہ شاہی گزر گاہ تھی، جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔یہ سارے پائدان سنگ مر مر سے بنائے گئے ہیں ۔پہلے پائدان کی لمبائی تقریباً سو فٹ ہے جوں جوں پائدان چڑھتے جاتے ہیں ان کی لمبائی کم ہوتی جارہی ہے اس طرح سے یہ سیڑھیاں تکونی شکل اختیار کرتی ہیں،اور بہت خوبصورت نظر آتی ہیں ،ان ہی چڑھتے ہوئے پائدانوں کی بدولت یہ مسجد شہر کی سب سے اونچائی پر ہے ۔ شام کے وقت مسجد کا نظارہ بے حد دلکش اور دلفریب ہوتا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کچھ لوگ مسجد کے صحن میں جوتے لے کر داخل ہوتے ہیں۔ جوتے اگر چہ ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں تاہم اس سے مسجد کا تقدس اثرانداز ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد کی صاف صفائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسجد کی سیڑھیوں سے پہلے ہی جوتے وغیرہ رکھنے کا انتظام کیا جائے تاکہ مسجد کے سیڑھیاں بھی صاف ستھری رہیں۔ مسجد کے دائیں طرف بنائی گئی سیڑھی کے کچھ پائدان ٹوٹے ہوئے ہیں ۔جنہیں ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مغلوں کی یہ نشانی ہمارے پاس موجود رہے اور اس مسجد کی شانِ رفتہ بنی رہے۔ مسجد کے لیے تعمیر کئے گئے بیت الخلا بھی بہتر حالت میں نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں صاف صفائی کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہے ۔مسجد میں جانے والے لوگوں کو بھی چاہئے کہ مسجد کے تقدس کے ساتھ ساتھ مسجد کی صاف صفائی کا بھی خیال رکھیں۔جامع مسجد دہلی کی اوقاف کمیٹی سے بھی مودبانہ التماس ہے کہ کہ مسجد شریف کی شانِ رفتہ بحال کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں جائیں۔ میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ میری یہ فریاد نقار خانے میں طوطی کی آواز کے سوا کچھ اور نہیں۔ لیکن نہ جانے یہ گزارشات کرتے ہوں میرے دل کو ایک سکون سا کیوں ملتا ہے جیسے میں نے اپنے حصے کی حق ادائی کی ہو۔
[email protected]