تکّبُر۔مکروہ و فریب کا جال ہے | مُتکّبر، ہر حال میں ذِلت اُٹھاتا ہے غور وفکر

سہیل بشیر کار،بارہمولہ
تکبر کے بارے میں ہم حساس نہیں ہے حالانکہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا۔‘‘ (صحیح مسلم) بندے کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ غرور و گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا ہے، اس لیے ہمیں جاننا چاہیے کہ تکبر کیا ہے۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تکبر حق کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘(صحیح مسلم) نامور قلم کار احمد جاوید تکبر کے بارے میں لکھتے ہیں:’’دوسروں کی تحقیر کرتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا سجھنا تکبر ہے۔ کسی واقعی خوبی اور فضیلت کی بنیاد پر اپنے کو بعض ایسے لوگوں سے بہتر سمجھنا جو وہی خوبی یا فضیلت یا تو سرے سے نہیں رکھتے یا مقابلتًا کم رکھتے ہیں ممکن ہے کہ نامناسب تو ہو مگر تکبر نہیں ہے۔ تکبر کا ایک لازمی جزو دوسروں کو حقارت سے دیکھنا ہے، جیسا کہ نبی کریم میں اللہ نے فرمایا ہے: ’’الكبر بطر الحق وغمط الناس‘ ‘(۱) یعنی تکبر یہ ہے کہ آدمی جانتے بوجھتے حق بات کو رد کرے اور لوگوں کی تحقیر کرے۔ تکبر کی دو قسمیں ہیں: ایک مطلق اور دوسرے جزوی مطلق ۔تکبر یہ ہے کہ آدمی اپنی واقعی یا فرضی خوبی کی نسبت اللہ کی طرف کیے بغیر دوسروں کو تحقیر کی نظر سے دیکھے۔ یہ تکبر شرک اور کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ جزوی تکبر میں آدمی اس خوبی کو اللہ کی دَین سمجھتا ہے مگر اس کی روح سے بیگانہ ہو کر اسے دوسروں کی توہین و تحقیر کا ذریعہ بنالیتا ہے۔ گویا تکبر کی ہر قسم میں دو چیزیں مشترک ہیں: ’خود کو بڑا جاننا اور دوسروں کی تحقیر، خواہ احساس میں ہو یا عمل میں‘۔(ترک رذائل صفحہ)
تکبر اپنی طاقت، دولت، صلاحیت، نسبت اور عہدے، کی وجہ سے خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنا اور دوسرے لوگوں کو خود سے کم تر اور حقیر سمجھنا یا خود کو خدا سمجھنا کہ وہ اپنی طاقت اور دولت سے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تکبر کہلاتا ہے یا آپ اس بات کو اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ تکبر ایک ایسی انسانی حالت کا نام ہے جس میں انسان خود کو دوسروں سے فوقیت اور فضیلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ گھمنڈ، غرور اور تکبر کو ناپسند فرماتا ہے۔ غرور اور تکبر کا گناہ سب سے پہلے شیطان نے کیا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے تمام فرشتوں اور ابلیس کو اللہ تعالیٰ نے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو شیطان نے یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس تکبر یا غرور کو سخت ناپسند فرمایا اور شیطان کو قیامت تک مہلت دے کر اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔اسلام ہمیں صراط مستقیم پر چلتے ہوئے عاجزی، انکساری اختیار کرنے کا درس دیتا ہے، جبکہ غرور و تکبر سے بچنے کا حکم دیا گیا، تاکہ انسان اپنی اصل کو فراموش نہ کرے کیونکہ غرور اللہ پاک کو پسند نہیں۔اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جانتا ہے اور وہ تکبر کرنے والوں کو قطعاً پسند نہیں کرتا ہے۔(النحل:32) سیدنا لقمان ؑ کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحت کے حوالے سے مذکور ہے کہ بے شک اللہ کسی تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔(القمان:81)احادیث میں تکبر کی سخت ممانعت آئی ہے۔سیدنا ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی انہیں پاک و صاف کریں گے۔ابو معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور مفلس تکبر کرنے والا۔ (مسلم)ایک اور حدیث سیدنا ابو ہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ تکبر میری چادر ہے، عظمت میرا ازار ہے، پس جو کوئی مجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے گا، میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔ ‘‘(سنن ابو دادو )اتنی بڑی وعید کے باوجود انسان اگر تکبر میں مبتلا ہو جائے تو یہ اس کی بدبختی اور بدنصیبی ہے۔جس انسان کو اللہ نے ایک حقیر قطرہ سے پیدا کیا، پھر اسے طرح طرح کی نعمتیں عطا کی، اس کو چاہیے کہ وہ شکر کرے نہ کہ تکبر۔تکبر میں مبتلا شخص اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت و انعام کو اپنا ذاتی کمال و وصف (خوبی) سمجھنے لگتا ہے۔قرآن کریم میں ابلیس کا قصہ بار بار ذکر ہوا ہے۔اسے اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا۔ظاہر ہے اس میں اس کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا ،لیکن اس نے اسی کو وجہ افتخار (گھمنڈ) بنا لیا جس سے مغلوب ہو کر اللہ کے حکم سے سرتابی (سرکشی ،نا فرمانی) کر بیٹھا اور بندگی کے حق کو ادا نہ کر سکا۔ابلیس نے آگ سے پیدا ہونا اپنی صفت سمجھا اور وہ گمراہ ہوگیا اسی طرح جب بندہ اپنی کسی صلاحیت پر اترے تو وہ تکبر کا شکار ہوگا۔
تکبر کے اسباب :۔علماء اور مفسرین فرماتے ہیں تکبر کے بہت اسباب ہیں جیسے:
(1) تکبر کا پہلا سبب علم ہے :۔ علم بندے میں حلم لاتا ہے، علم انسان کو سکھاتا ہے کہ دنیا میں اس کا صحیح مقام کیا ہے مگر کچھ لوگوں کو جب علم کا کچھ حصہ ملتا ہے تو وہ اس پر گھمنڈ کرتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں صرف وہی جاننے والے ہیں، صرف وہی ہے جن کو صلاحیتیں ہے باقی سب کم درجے کے ہیں۔اس طرح ان کے اندر تکبر پیدا ہوتا ہے۔
(2)تکبر کا دوسرا سبب زہد و تقویٰ، عبادت و پرہیزگاری میں پایا جاتا ہے۔قرآن بیان کرتا ہے :ترجمہ:’’جو لوگ میری عبادت پر تکبر کرتے ہیں وہ بہت ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ (سورہ مومن،40:آیت29)
(3) تکبر کا تیسرا سبب خاندان و نسب پر فخر کرنا ہے. تکبر کی یہ بیماری بہت عام ہے۔
(4) تکبر کا چوتھا سبب ہے خوبصورتی اور حسن و جمال ہے۔ حسن و جمال سے غرور گھمنڈ پیدا ہوتا ہے۔اس مرض میں خوبصورت مرد بھی گرفتار رہتے ہیں ،مگر عورتیں سب سے زیادہ اس مرض میں گرفتار رہتی ہیں ،کم صورتی پر طنز کرنا اور جسم کی نا ہمواری پر مذاق اڑانا عام بات ہے ۔
(5) تکبر کا پانچواں سبب مال و زر ہے. دولتمند لوگ غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اپنی بڑائی اور گھمنڈ میں مست رہتے ہیں۔
(6)تکبر کا چھٹا سبب طاقت و اقتدار ہے۔کچھ لوگوں کو جب حکومت ملتی ہے یا بڑے عہدے ملتے ہیں تو وہ اپنے ماتحتوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔اس طرح ان کے اندر تکبر پیدا ہوجاتا ہے۔
تکبر کا تعلق چونکہ دل سے ہے اگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے اندر تکبر ہے یا نہیں اس کو چاہیے تنہائی میں بیٹھ کر دیکھیں کہ آج جن جن لوگوں سے ملاقات کی خاص کر کمزور طبقات سے اس وقت مخاطب کے بارے میں میرے دل کی کیا کیفیت تھی ۔بندہ کو بار بار ایسا کرنا ہوگا کیونکہ متکبر کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
تکبر کا علاج یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہے، اللہ کی ان آیات کا جن میں رب العزت کی کبریائی بیان ہوئی ہے، کا بار بار مطالعہ کریں۔ساتھ ہی ان لوگوں سے بار بار ملے جن کے اندر ان سے زیادہ صلاحیتیں ہیں۔جب وہ اپنے سے زیادہ علم والے، حسن والے، جاننے والے اور مال و زر والوں سے ملیں گے تو ان کے اندر سے تکبر آہستہ آہستہ ختم ہوگا۔ساتھ ہی اللہ سے تکبر سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اندر عاجزی و انکساری پیدا کرنے کی توفیق عطا کرے۔
رابطہ 9906653927