تغافل چھوڑو! بچوں کومنشیات سے بچائو!! لمحۂ فکریہ

سائرہ الفت
اللہ تبارک و تعالی کا جتنا ہم شکر ادا کرے، وہ کم ہے، اُن کی دی ہوئی کن کن نعمتوں کو ہم جھٹلائیں گے۔ ہم چاہے اس بات کی تکذیب کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت ہم پر عیاں ہے کہ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت ہمارے پاس ہے۔ان نعمتوں میں ایک نعمت ماں باپ کے لیے اولاد بھی ہے۔اللہ تعالی نے ماں باپ کو اتنی استطاعت دی ہے کہ وہ اپنے بچے کو چاہے تو اپنی تربیت سے ایک نیک با شعور انسان بنا سکتا ہے اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے حیوان سے بھی بدتر بنا سکتا ہے۔
آج کل کے دور میں ماں باپ اپنی مصروفیات کی وجہ سے اپنی اولاد کو حیوانوں سے بدتر زندگی جینا فراہم کرتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے اس بات کا بھرم رکھتی ہو ں کہ اب جب اولاد جوان ہوگیا ،تو ہر جگہ ماں باپ اس کے ساتھ تو نہیں رہ سکتے۔لیکن ایک ماں باپ کو یہ بھی تسلیم کرنا ہی ہو گا کہ اس کو اپنے بچوں پر پوری طرح نظر رکھنی ہوگی ،آج کل جوان لڑکوں کو چرس ،شراب اور ڈرگس وغیرہ کی لت لگ چکی ہے ،اورمنشیات کے استعمال سے نوجوان جب تک اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہوتا ہے، تب تک ماں باپ کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی ، جس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ نہ تو والدین اور نہ ہی خاندان کے بزرگوں نےاپنا وہ اہم کردار اداکیا ہوتا ہے جوکہ اُن پر لازم تھا۔جس سے بچے اُن کے معاشرتی ،سماجی معاشی مسائل اور رسم و رواج کے حساب سے زندگی کے تمام رموز کو سمجھتے ،پرکھتے اور چلنے کی کوشش کرتے ۔موجودہ دور میںنئی نسل کو تجربات اور مشاہدات کی آگہی نہیں ہےاور نہ ہی والدین اُنہیں اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں دین و دنیا اور ماضی اور مستقبل سے روشناس کرنے کی زحمت اٹھاتے ہیں۔اس جدید دور میں زیادہ تر والدین اپنی حالِ مستی یا مالِ مستی کے عالم میںگم ہیں،اُنہیں اپنے بچوں کےحال واحوال کو سمجھنے یا اُن پر نظر رکھنے کی فرصت ہی نہیںجبکہ گھر کے بزرگوں  تک کےلئے بس ہیلو، ہائے، اور ہائے بائے تک کا رشتہ رکھا ہے۔ظاہر ہے کہ جب وہ خود اپنے بچوں کو لاپروا چھوڑ دیتے ہیں ،تو بچے اپنی عمر سے بڑے عمر کے لوگوں کے ساتھ دوستی کرلیتے ہیں کہ وہ کس کردار کے ہیں اور اُن کیا مصروفیات ہیں۔ایسا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ،ایسے بچوں کو اچھی صحبت مل جائے،عموماً معاملہ اُلٹ ہوتا ہے۔اُن کے ایسے لڑکوں کی صحبت مل جاتی ہے جو پہلے ہی بگڑے ہوئے ہوتے ہیںاور جو غلط اور مضر عادتوں میں مبتلا ہوتے ہیں،پھر وہ ساری عادتیں ان بچوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہیں۔سب سے پہلے اُن کو اچھےبُرے میں تمیز کرنے کی سمجھ کھو جاتی ہے اورپھررفتہ رفتہ وہ ساری خرابی اور بُرائی پنپ جاتی ہے جوکہ منشیات کا استعمال کرنے والے لڑکوں میں ہوتی ہیں۔ابتدا میں سگریٹ ،پھر چرس اور پھر ڈرگس کے استعمال کے عادی بن جاتےہیں۔جب اس کو ان چیزوں کی لت لگ جاتی ہے تو اس کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گذرتے ہیں، بعض اوقات پیسے نہ ہونے کی صورت میں چوری سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔چنانچہ منشیات کا استعمال اُنہیں جسمانی طور پر معذور اورذہنی طور پر مفلوج کرکے رکھ چھوڑتا ہے،نتیجتاً   وہ اندر ہی اندر ختم ہوجاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب تک وہ آخری حد پار کرتا ہے ،اس کے گھر والے کہاں ہوتے ہیں ؟جبکہ ان کے چلنے پھرنے کے طریقے ،بات چیت کرنے کے عادات ،بدلتے نقوش  دیکھنے کا انداز اور چہرے کی رنگت سے ایک باہوش انسان ،خصوصاً والدین کو صورت حال کا پتہ چلتا ہے،پھر بھی وہ اُن کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ایسے اکثر جوان جسمانی طور پر اس قدر کمزور ہو جاتے ہیں کہ بیس سالکی عمر میں ہی چالیس سال کے نظر آتے ہیں۔ان سے بات کریں تو ان کا ذہن حاضر ہی نہیں ہوتا ،وہ تو اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوتا ہے۔حالانکہ گھر میں اپنے والدین یا اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ناشتہ کرتا ہوگا یا کھانا کھاتا ہوگا ،کیا تب بھی والدین یا بہن بھائی اُن کی صورت حال اور اُن کے اطورا ر دیکھ  اس کی اصل صورت حال سے باخبر نہیں ہوتے؟ایک طائرانہ نظر ڈالیں توآج کل کے نوجوانوں میں خودسری ،ضد، اَناپسندی، طنزیہ گفتگو، اور تلخ لہجہ جیسے رویے بخوبی نظر آتے ہیں،زیادہ تر لڑکوں نے اپنی ذات پر ایسا خول چڑھایا ہوا ہوتا ہے کہ صرف ’’میں‘‘ کی گرد ہی اُن کی شخصیت گرد گھومتی ہے۔ دوسرے کیا کہتے ہیں، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ، چھوٹے تو چھوٹے بڑوں کو بھی کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ان کا انداز تکلم بہت زیادہ پست ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُلجھنا بگڑنا اور لڑنا شروع کر دیتے ہیں، گھر سے باہر ان کا جو انداز گفتگو ہوتا ہے، وہ کسی لحاظ سے مہذب نہیں ہوتا۔اسی طرح سوشل میڈیا اُن کے لئے ایسا نشہ بن چکا ہے، جس کے نہ ملنے پر وہ ڈپریشن اور پریشانی کا شکار ہو کر اپنی صحت تعلیم اپنے فرائض اور یہاں تک کہ اپنوں سے کٹ کر زندگی گذار رہا ہے۔ اس نشے نے تو اسے تنہائی کا عادی بنادیا ہے،جبکہ تنہائی اسے مختلف برائیوں کی طرف راغب کر تی ہے۔والدین کو ان سب باتوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چا ہئے۔اُن کی لاپرواہی سے بچوں کی زندگی تباہ ہورہی ہے۔میری ہر ایک ماں باپ سے یہی التجا ہے کہ ہوش سے کام لیں،سب سے پہلے تو خاندانی ماحول میں تبدیلی لائیں، اگر والدین بچوںسے غفلت برتیں یا حد سے زیادہ محبت کریں تو اس سے بھی بچّے کو ہٹ دھرم اور ضدّی ہوجاتے ہیں، وہ رفتہ رفتہ ماحول سے بے زار اور باغی ہونے لگتے ہیں۔یاد رکھئے کہ اپنے بچوں کا ذہن جانچے بغیر کسی بھی معاملے میں اُن پر اتنا دبائو نہ ڈالیں کہ وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔ البتہ اپنے بچوں کو آزاد نہ چھوڑیں، ان پر نظر رکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں ،کس کے ساتھ چلتے ہیں، کس صحبت میں بیٹھے ہیں،پیسے کہاں خرچ کرتے ہیں کیونکہ منشیات کا دور دورہ ہے۔زیادہ تر بچے اس کی طرف راغب ہورہے ہیں ،اس لئے لازمی ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی نظر سے دور نہ ہونے دیں تاکہ کل آپ کو پچھتانا نہ پڑے۔