بہروپیئے افسانہ

ریحانہ شجرؔ

ڈاکٹر لُبنا ان دنوں انٹرنشپ کر رہی تھی تھی جب شہر کے ایک امیر گھرانے سے اس کے لیے رشتہ آیا۔
لبنا کے بھائی نے بہت خوش ہوکر ماں سے کہا کہ لبنا نصیبوں والی ہے جو اتنے شاندار گھر سے رشتہ آیا تھا۔
ماں نے بیٹے سے کہا، تمہارا خوش ہونا واجب ہے۔
پر یہ ضرور دریافت کرنا ہے کہ یہ لوگ کونسا کاروبار کرتے ہیں ۔
مادہ پرستی کے اس دور میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنا مشکل ہے۔ جلد بازی مت کرنا، ہماری لبنا کسی سے کم نہیں ہے۔
بیٹے نے کہا، لبنا کے نصیب اچھے ہیں جو اس کے لئے اتنا اچھا رشتہ آیا ہے،اب ہمیں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ماں تم سوچ بھی نہیں سکتی ان کے پاس کتنی دولت ہے۔ لبنا راج کرے گی، راج۔ میں نے رشتے کے لئے ہاں کردی ہے۔ آپ مت گھبرائے ۔
ہاوس جاب کے دوران لبنا کی شادی کر دی گئی۔
سسرال والوں کا رہن سہن نہایت اعلی دیکھ کر لبنا متاثر ہو گئی ان کا رہائشی مکان بڑے سے رقبہ اراضی پر پھیلا ہوا اور صحن میں الگ الگ ماڈل کی گاڑی گھر کے ہر فرد کےلئے مخصوص تھی۔
ایک روز شوہر ارباز لبنا کو اپنی شاندار حویلی نما مکان دکھا رہا تھا۔ اس نے اپنی قمیض کا کالر اوپر کھینچ کر ، ذرا اتراتے ہوئے کہا ، تم جانتی ہو لبنا اس قصبے میں کسی کے پاس اتنا بڑا گھر نہیں ہے۔
لبنا بھی حیران ہو کر بولی، واقعی، بہت عالیشان مکان ہے ۔ پھر عمارت کا اندرونی حصہ دیکھنے لگے۔ گروانڈ فلور میں کاریڈور ور کے بائیں بازو ایک خوبصورت دروازہ تھا۔ لبنا نے دروازہ کھولنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
ارباز کو جھٹکا سا لگا اور ایک دم سے روک کر کہا چھوڑو چھوڑو یہ دروازہ بند ہی رہتا ہے یہ بیسمینٹ کی طرف جاتا ہے اور وہاں مرمت کا کام چل رہا ہے۔

 

 

لبنا کو ارباز کے چونک جانے پر حیرت تو ہوگئی چونکہ نئی نویلی دولہن تھی ، خاموش رہی۔
چند دنوں میں لبنا نے محسوس کیا کہ سارے لوگ ایک ہی وقت پر گھر سے کام پر نکل جاتے تھے، اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں تھی لیکن ان کے نکلنے کے وقت گھر میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوتا، جیسے سب یکے بعد دیگرے بیسمینٹ کی اور جانا اور پھر وہیں سے غائب ہونا وغیرہ ۔
چونکہ لبنا کی ڈیوٹی کا کوئی مقررہ وقت نہیں تھا ، کبھی نائٹ تو کبھی مارننگ ڈیوٹی ہوتی اور ہفتے میں کبھی بھی آف ہوتا تھا۔
اس نے کچھ عجیب و غریب باتیں نوٹس کیں۔
اس گھر کے لوگ ایک ساتھ گھر سے نکلتے تو تھے لیکن کوئی ایک ہی گھنٹے میں ہی واپس آتا تھا تو کوئی دو گھنٹے بعد۔ دوپہر کے بعد پھر سے سارے افراد خانہ ویسے ہی ایک ساتھ نکلتے تھے۔
لبنا نے ارباز سے پوچھا یہ لوگ کیسے بزنس چھوڑ کر اتنی جلدی واپس آجاتے ہیں اور پھر دوپہر کے بعد بیک وقت چلے جاتے ہیں۔
اس سے ارباز نے کہا تم نہیں سمجھ سکتی ۔ پیک(peak hours )اورس میں کام زیادہ ہوتا ہے اسلئے اس وقت خود دیکھنا پڑتا ہے۔ دن کے باقی وقت میں یہ کام ملازم دیکھتے ہیں ۔
او آیی سی۔ لبنا نے جواب دیا۔

 

 

لبنا چونکہ حساس تھی اس کے ذہن میں کئی سوال ابھرے لیکن پوچھنا مناسب نہیں سمجھا،
کچھ عرصہ بعد سویرے سارے لوگ گھر سے کام کےلئے نکل گئے ۔
لبنا کا اس دن آف تھا وہ ہاتھ میں چائے کا کپ لے کے بیسمینٹ کی جانب بڑھنے لگی۔ دروازہ نیم وا دیکھ کر وہ آہستہ سے اند چلی گئی۔
وہاں پہنچ کر وہ حیران ہو گئی جب اس نے پھٹے پرانے کپڑے، گھسے پٹے جوتے اور چپلیں، لمبی اور گندی مصنوعی داڑھیاں ، چھڑیاں، کالی مٹی کا ڈھیر قرینے سے رکھے ہوئے تھے ۔ ایسے منحوس ماحول کو دیکھ کر اس کو گن آنے لگی اور وہ کچھ گہری سوچ میں پڑ گئی۔ آس پاس نظر ڈال کر اس وقت چونک گئی جب اس نے ایک آدمی کو دیکھا، ڈر کے مارے اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ گر گیا۔
ہکلاتے ہوئے لبنا نے پوچھا ، ت۔۔۔۔ ت۔۔۔۔ تم کون ہو ؟ یہاں کیا کر رہے ہو ؟ اس آدمی نے کہا میں میک اپ آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہوں۔
میک اپ آرٹسٹ ! لبنا شش و پنج میں مبتلا ہوگئی اور حیران ہو کر دوبارہ پوچھا۔
ہاں ، اس اجنبی نے کہا !
مزید کہنے لگا مختلف جگہوں پر بھیک مانگنے سے پہلے میں اس گھر کے لوگوں کا میک اپ کیا کرتا ہوں۔
���
وزیر باغ سرینگر،[email protected]