بہتر تعلیم و تربیت کیسے ہوگی ؟ غور طلب

ہلال بخاری
ہمارے نونہالوں کی بہتری اس میں ہے کہ ہم ان کو نفرت ،پریشانی اور تناؤ سے دور رکھ کر محبت ،شفقت اور ہمدردی کے بنیادی علم اور تربیت سے آگاہ کریں۔ ہمارے گھر ہوں یا اسکول، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ننھے ذہنوں کو ہر طرح کی اُلجھن اوربُرے خیالات سے پاک و صاف رکھنے کے لئے مسلسل جدو جہد کرتے رہیں۔

کیونکہ ہمارے بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں، ان کی بہتر تعلیم اور تربیت ہمارا سب سے اہم فرض ہے۔بچپن زندگی کا سب سے انمول اور سب سے پُر لطف دور ہوتا ہے۔بچپن کی آزادی کی تمنا ہر ایک دل کو ہوتی ہے۔ ایک نو نہال کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ اسکی صحیح تربیت ہو ،وہیں اسکی آزادی کی بھی ایک بڑی قیمت ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو نفرت ،حسد اور تناؤ کے جذبات سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارا ناروا برتاؤ دیکھ کر ہمارے بچوں پر بھی اس کا غلط تاثر پڑتا ہے۔ دنیا میں کوئی ظالم انسان ہی ایسا ہوگا جو اپنے ہاتھوں سے اپنی نسل کو زہر کھلانے کا خوفناک عمل انجام دے، مگر جو لوگ اپنے بچوں کو دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی بھی طرح کی نفرت سکھاتے ہیں، وہ بھی ایک طرح کا مجرمانہ کام کرتے سرا انجام دیتے ہیں۔ ہمارے بچوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ وہ ہم سے نفرت کے بجائے محبت سیکھیں۔ لہٰذ یہ ہماری اہم ذمہ داری ہےکہ ہم اپنے بچوں کو نفرت اور تناؤ کے ماحول سے دور رکھیں۔ہمارے لئے لازم ہے کہ نہ صرف گھروں بلکہ اسکولوں میں بھی ایسے نظام تشکیل دینےمیں پیش پیش رہیں، جن کی بدولت ہمارے نو نہالوں کو الفت ومحبت ،یکسانیت ،حقانیت اور یکجہتی کی آشنائی ہوسکے۔ ہمارا مستقبل اس امر کے ساتھ بھی وابستہ ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ اس کائنات میں موجود مختلف رنگ ،نسل ،مذہب اور قومیں اس دنیا کی خامی کی نہیں بلکہ اس کی خوبصورتی کی دلیل ہے۔

ہمارے بچوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ اُنہیںانسانیت ، ہمدردی اور خلوص کا علم اپنے والدین ،اپنے گھر اوراپنی ذات سے ہی مل سکے۔ عصر حاضر میںشاید ہمارے بچوں کو یہ اعلیٰ اقدار سمجھانے میں ہم اس لئے کامیاب نہیں ہو پاتے کیونکہ وہ ان اعلیٰ اقدار کے بارے میں صرف ہم سے سنتے رہتے ہیں مگر عملی طور پر دیکھ نہیں رہے ہیں۔ ظاہر ہےان اقدار کا حقیقی علم تب ہی حاصل ہوتا، جب وہ ان اقدار کا چلن اور طرزِ عمل اپنے گھر اور اپنی ذات میں دیکھ لیتے۔ ہمارے نئی نسل کی مثالی تربیت وہی ہوگی، جب وہ ہماری ذات سے متاثر ہوں گے،اس لئے اس معاملے ہمیں خود خود پہل کرنا ہوگی ۔

اگر ہم آج بھی اپنے بچوں کے سامنے کسی کی ذات ،مسلک ،مذہب یا رنگ و نسل کو لیکر طعنے کستے رہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم اپنے ہی بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ انسانیت اور ہمدردی کے وسیع علم سے آگاہ ہوں نہ کہ وہ ہم سے کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ سکھیں۔

ہمیں اپنے بچوں کو انسان بنانے کی ہر تدبیر کے لئے پہلے خود پر ہی غور کرنا ہوگا کہ ہم کس حد تک اس پر عمل کرتے ہیں۔ اگر علم کے حصول کے لئے اور امتحانات میں کامیاب ہونے کے لئےاپنے بچوںکی تناؤ میں اضافہ کرتے ہیں تو گویا انہیں انسانیت کی بنیادی اصولوں کے علم سے محروم کرتے ہیں جو بہت بڑی زیادتی ہے۔اگر ہم اپنے بچوں پر کسی علم کوسیکھنے کے لئے ذہنی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو ہم اُن پر رحم کے بجائے ظلم کرتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی تشدد کی وجہ سے ان کی شخصیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں،جس سےسماج اور قوم بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اس لئے ہمارا یہ اولین فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو شفقت سے سکھایں تاکہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم سے محبت کا بھی درس لیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے گھروں اور اسکولوں میں ہماری قوم اور ہمارے ملک کا مستقبل پلتا اور سنورتا ہے، ہمیں انکی فکر اس طرح سے کرنی چاہیے کہ آنے والے زمانہ ہمیں عزت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھے۔
[email protected]