بھروسہ افسانچہ

رئیس احمد کمار

ہم اسے اپنی بیٹی جان کر گھر لائیں گے ۔ ہماری اپنی بھی بیٹیاں ہیں ۔ ہمارے گھر میں اسے برابر اپنے ماں باپ کا جیسا پیار ملے گا ۔ کسی قسم کی تنگی یا سختی محسوس نہیں ہونے دیں گے ہم اسے ۔ ہمارے گھر کا ماحول بھی ایسا خوشگوار ہے کہ وہ اپنے ماں باپ اور میکے کو ایک دم بھول جائے گی ۔ جو کوئی بھی ہمارے گھر آتا ہے اس کا جی نہیں کرتا ہے پھر واپس جائے ۔ اب یہ گھر بھی ہمارا اپنا ہی گھر بن گیا ہے ۔ خیر و شر میں ایک دوسرے کو کام آنا اب ہمارے لیے فرض بن گیا ہے ۔ خوشی اور غم میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینا اب ضروری بن گیا ہے ۔ تب ہی یہ رشتہ قایم و دائم رہ سکتا ہے ۔ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا ، مشکل اوقات میں مدد کرنا اس رشتے کی بنیاد بن گئی ہے۔
رحمان خان اپنے بیٹے کا رشتہ طے کرتے ہوئے لڑکی کے گھروالوں کو دلاسہ دیتے ہوئے اس کے گھر میں بول رہا ہے ۔
کچھ مہینے بعد ہی شادی ہوئی ۔ رحمان خان نے بہو بھی گھر لائی ۔ بہو کے اوصاف اور چال وچلن سے رحمان خان اور اس کا بیٹا بہت خوش تھا ۔ دونوں اس شادی سے بالکل مطمئن تھے اور خوش بھی کیونکہ نئی نویلی بہو نے گھر کے ماحول کو اور چار چاند لگا دیئے ۔ تمام ہمسائے اور رشتہ دار بھی بہو کی تعریفیں کرنے لگے ۔ گھر کا سارا کام بخوبی نبھانے کے ساتھ ساتھ وہ سبھی کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آتی تھی۔ پانچ وقت نماز ادا کرنا ، صبح سویرے قران شریف کی تلاوت کرنا اس کا معمول تھا ۔
بہو نماز عشاء ادا کررہی تھی ۔ جوں ہی اس نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیر لی تو اچانک اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج گئی ۔۔۔۔ ہلو پاپا کیا ہوا ۔ ممی ٹھیک تو ہے نا ۔ کیوں اتنا پریشان لگ رہے ہو ۔ مجھے سچ تو بتاو ۔
پاپا ۔۔۔ ہاں سب کچھ ٹھیک ہے ۔ ممی سیڑھیوں پہ چڑھتے ہوئے اچانک نیچے گر گئی ۔ ہم نے اسے ہسپتال پہنچایا ہے ۔ ڈاکٹروں نے اسکا ایمرجنسی آپریشن کروانے کے لیے کہا ۔ اب ہمیں پیسوں کی بہت ضرورت ہے ۔ اباجان (رحمان خان) کو بتاو کہ وہ میرے اکاونٹ میں پچاس ہزار روپے جلد ٹرانسفر کریں تاکہ تیری ماں کا آپریشن جلد ممکن ہوسکے اور اس کی جان بچائی جاسکے ۔ اگلے ہفتے ہی میں اسے یہ رقم واپس کروں گا ۔
وہ دوڑتے ہوئے باورچی خانے میں چلی گئی جہاں رحمان خان اور باقی تمام افراد خانہ ٹیلیویژن دیکھ رہے تھے ۔ اس نے دونوں باپ بیٹے کو پچاس ہزار روپے اپنے باپ کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کرانے کے لئے بڑی عاجزی کے ساتھ کہا ۔ دونوں باپ بیٹے دوسرے کمرے میں چلے گئے ۔
رحمان خان اپنے بیٹے سے ۔۔۔ کیا پتہ بعد میں یہ پیسہ ہمیں مل بھی جائے گا یا نہیں ۔ ابھی شادی کو تین ہی مہینے ہوگئے ۔ کیا بھروسہ ہے پچاس ہزار روپے ٹرانسفر کرنے کے بعد اس کا باپ واپس دے گا بھی یا نہیں ۔

���
قاضی گنڈ کشمیر