بستی اُجڑگئی۔۔۔نشان باقی رہ گئے افسانہ

ریحانہ شجر

پَری کا شوہر پیشے سے سنگتراش تھا، وہ حسب معمول گھر سے کام کےلئے نکل گیا پر واپس نہیں لوٹا۔ دوسرے روز اس کی دکان پر لال رنگ کی لمبی پگڑی پہنے ہوئے ایک شخص چائے پینے کے لئے آیا، بستی کا داروغہ سمجھ کر پَری نے لال پگڑی والے کو اپنے شوہر کے لاپتہ ہونے کی خبر دے دی۔ لال پگڑی والے نے سنگتراش کی ایک تصویر طلب کی۔پری نے تصویر پیش کی اور ضد کر کے پگڑی والے شخص کے ہمراہ شوہر کو ڈھونڈنے نکل گئی۔
دیر تک تلاش کرتے ہوئے وہ دونوں ایک لمبی سڑک پر پہنچ گئے اور اس سڑک کے ایک طرف صدیوں پرانے آدھے ادھورے جلے ہوئے تباہ شدہ رہائشی مکان تھے جن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ کبھی یہ بستی بہت خوش حال رہی ہوگی ۔ سڑک کے بائیں کنارے کچھ گز کی دور ی پر ایک بڑی حویلی تھی جسکی چاروں اور گھنی جھاڑیوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ حویلی کے سامنے انوکھے پتھر دیکھ کر وہ دونوں حویلی کے اندر جانے لگے تو وہاں ویران کھنڈر بن چکا بہت بڑا کارخانہ دیکھا،جس میں سینکڑوں دلکش مجسمے بنے ہوئے تھے۔ غور طلب بات تھی کہ سارے مجسمے عورتوں کے تھے۔ کئی مجسمے اونچے تھے اور کئی چھوٹے تھے۔ ہر مجسمہ منفرد انداز میں نسب تھا۔یہ سنگتراش کی کاریگری کا کمال تھا یا کچھ اور کہ مجسموں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا یہ ابھی بول پڑیں گے ، ان کی آنکھوں سے حیاء کی بوندیں ٹپکتی تھیں اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارے مجسمے اپنی نسوانیت چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ۔آس پاس نہ کوئی آدم دکھائی دیتا تھا اور نہ آدم ذاد۔
اتنی دیر میں ایک بزرگ عورت پانی کا ایک مٹکا لے کے آگئی۔
مجسمے دیکھ کر پگڑی والے شخص کولگا کہ سنگتراش یہی کہیں ہوگا، اسلئے اس نے بزرگ عورت کو سلام کر کے پوچھا کہ سنگتراش کہاں ہے؟
بزرگ عورت حیران ہو کر کہنے لگی کون سنگتراش ؟
لال پگڑی والے نے بزرگ عورت کو سنگتراش کی تصویر دکھائی اور پری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس عورت کا شوہر کل سے گھر نہیں لوٹا۔ بزرگ عورت نے تصویر کی اور ایک نظر ڈالی تو اس کے ہونٹوں پر ایک ڈراونی ہنسی پھیل گئی۔ اس نے پانی کا مٹکا نیچے رکھا اور فرش پر بیٹھ کر کہنے لگی ، یہ آدمی تیس سال پہلے مر چکا ہے۔اس کا نام فضلو تھا۔ سنگتراشی اس کا خاندانی پیشہ تھا۔
بزرگ عورت نے مزید کہا کہ فضلو ایک مقامی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا، مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ جس لڑکی سے سنگتراش کا عشق تھا اُس کی شکل و صورت بالکل اِس لڑکی سے ملتی ہے بزرگ عورت نے پری کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
پری کو لگا یہ بزرگ عورت یا تو پاگل ہے یا کسی مغالطے میں ہے۔
پھر بھی یوں ہی پوچھا وہ مر کیسے گیا؟
بزرگ عورت نے روتے ہوئے کہا ۔ جس جگہ پر آپ لوگ کھڑے ہیں یہ وہی مقام ہے، جہاں سے تیس برس قبل ایک بے ضمیر قافلے نے تلاشی لینے کے بہانے سارے مَردوں کو بستی سے دور بھیج دیا ۔بزرگ لوگوں اور سات سے لے کر ساٹھ سال کی عمر والی خواتین کو پہلے اکٹھا کر کے اسی حویلی کے صحن میں بند کر لیا گیا اور اس کے بعد ان بزرگوں کے سامنے عورتوں اور بچیوں کی سروں کی چادریں چھین کر انہیں نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا ۔ فضلو کی محبوبہ بھی ان عورتوں میں ایک تھی۔ فضلو سب کی نظروں سے بچ کر اس شاندار حویلی کے اوپر والی منزل میں چھپ گیا تھا ۔ اس دن کے بعد فضلو کو کسی نے نہیں دیکھا۔ بعد میں پتہ چلا وہ دریا میں ڈوب کے مرگیا تھالیکن کسی نے اس کی لاش نہیں دیکھی تھی۔
یہاں اس کارخانے میں ایک آدھ مجسمے تھے لیکن بستی کے لُٹنے کے بعد ہررات کو ئی مسلسل آکر ان عورتوں کے مجسمے تیار کر لیا کر تا ہے جو اُن لٹیروں کی زیادتی کا شکار ہو گیں تھیں۔ تاکہ دنیا یہ نہ بولے جب یہ وادی لٹ گئی تھی تو اس بستی کے مکینوں نے بھی کئی صورتوں میں بیش قیمتی نذرانے پیش کئے تھے۔ بزرگ عورت نے مزید کہا کہ میرا یقین ہے فضلو ہی آکر مجسمے بناتا ہے۔
اس سے پہلے پری پوچھتی وہ کون لوگ تھے جنہوں نے بستی کی یہ حالت کردی، بزرگ عورت نے گرجدار آواز میں کہا اے لڑکی ! یہ نہیں پوچھنا ، وہ کون تھے۔ …. ! پری نے پھر بھی پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ مرد حضرات کہاں گئے اور ان کے ساتھ کیا ہوا؟
بزرگ خاتون نے کہا، مردوں کو اذیت دینے کی کیا ضرورت تھی ، جب وہ نامراد اپنی بستی کی طرف لوٹے تو دیکھا گھروں کو آگ لگادی گئی تھی اور عورتوں کی بری حالت دیکھ کر انہوں نے سر پر کفن باندھ لیا۔ بستی کے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ لٹیرے دریا کے اس پار چلے گئے۔ لہٰذا ان کا خاتمہ کرنے نکلے بستی کے مرد حضرات نے بھی دریا کے راستہ اختیار کیا۔کشتی کا ملاح تو بستی کا مکین تھا لیکن لٹیروں کے ساتھ اس کی سانٹھ گانٹھ تھی۔ اس نے پہلے ہی کشتی میں چھید کرکے رکھا تھا۔ کشتی میں سوار بستی کے لوگ بیچ مجدار میں ایک ایک کرکے ڈوب کر جان بحق ہوگئے تب سے ان کی روحیں اسی دریا سے ہر شام کے بعد آکر رات بھر اپنی لُٹی ہوئی بستی میں ماتم کرتی ہیں اور صبح فجر کی نماز سے پہلے واپس چلی جاتی ہیں۔ بزرگ عورت نے کہا لٹیروں نے یہاں کے مکینوں کو مار کے یہاں اپنے لوگوں کو آباد کرنا چاہا تھالیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آگیا کیونکہ جب بھی وہ، زمین کے اس حصے پر قبضہ جمانے آتے ہیں اسی وقت موسم اسقدر شدید صورت اختیار کر لیتا ہے کہ بیسیوں لٹیرے مارے جاتے ہیں اور جو کچھ بھی لٹیرے تعمیر کرتے ہیں وہ بھی تہس نہس ہو جاتا ہے۔بزرگ عورت رو رو کے مزید کہنے لگی، کاش اس حویلی کی زبان ہوتی تو اس کے بام و در اپنے لٹنے کی داستان حرف بہ حرف اپنی زبانی بیان کرتے۔
تھوڑی دیر سنبھلنے کے بعد بزرگ عورت نے تعجب میں مبتلا ہو کر پری سے پوچھا آپ کون ہوْ اور آپ فضلو سے کہاں ملی ؟
پری نے بزرگ عورت کو بتایا میرا نام جَل پری ہے۔ سنگتراش دریا میں ڈوب کے پاتال نگر میرے پاس پہنچ گیا تھا، تب سے ہم دونوں ایک ساتھ ہیں ۔ اس کو یہاں کوئی اہم کام کرنا تھا اسلئے ہم زمین پر آگئے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم واپس پا تال نگر جائیں گے۔ اس کے کہنے پر میں نے آگے دریا کے کنارے چائے کی دکان لگادی۔
بز رگ عورت نے جب پری کا سراپا جائزہ لیا تو اس کو لگا یہ کہ واقعی پانی کی مخلوق ہے۔کیونکہ پری کے جسم کا آدھا حصہ عورت کا تھا اور آدھا مچھلی کا۔حیران ہوکر بزرگ عورت نے کر پوچھا اس ویرانے میں تو کوئی بستی ہی نہیں ہے۔ پھر تمہارے پاس چائے پینے کون آتا ہے؟
پری نے کہا دن میں بھلے ہی کوئی نہیں آتا ہو، لیکن شام ہوتے ہی روز کشتیوں میں سوار یک رنگی لباس میں ملبوس لوگوں کا ہجوم آتا ہے وہ سارے چائے ناشتہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا گزارا اچھے سے چلتا ہے۔
سنگتراش بھی اپنے کام سے روز جایا کرتا تھا لیکن کل سے غائب ہے۔
بزرگ عورت نے ہنستے ہوئے لمبے دو دانت باہر نکالتے ہوئے کہا ….اَ ….چھا! تو ماتم کرنے سے پہلے وہ لوگ تمہارے پاس چائے ناشتہ کرتے ہیں۔
پھر اچانک بزرگ عورت نے زور دار اور بھیانک قہقہہ لگا کر کہا فضلو نے تم سے شادی بھی کرلی۔
پری کانپ اٹھی اور لال پگڑی والے شخص سے پوچھنے کےلئے مڑی کہ یہ بزرگ عورت کیسی باتیں کر رہی ہے۔
چاروں اور دیکھا ویران جگہ پر پگڑی والاشخص غائب تھا ۔ وہ خود سے بڑبڑانے لگی اب یہ بندہ کہاں گیا ؟ وہ آس پاس ایک اور بار دیکھنے لگی کوئی نظر نہیں آیا۔
سرمئی بالوں کو بکھیر کر بزرگ عورت اپنی لال آنکھوں کو اُلٹ کر بولی یہ لال پگڑی والا بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک تھا جو اس حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔ دوسری نظر پانی کے مٹکے پر ڈال کر کہا یہ دیکھو تمہارا سنگتراش پا تال نگر واپس پہنچ گیا ہے۔
پری کے روم روم میں ڈر کی بجلی کوند گئی اس کے منہ سے آواز نکلنا بند ہوگئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ وہ مڑ کر اچھلتی کودتی آندھی کی رفتار سے حویلی سے واپس نکل کر دریا کی جانب بھڑنے لگی۔ اس نے آگے چل کر پیچھے مڑ کےدیکھا تو بزرگ عورت بھی وہاں نہیں تھی۔

���
وزیر باغ، سرینگر
[email protected]