برکت ۔ معیار یا مقدار فکر و فہم

سیدہ عطیہ تبسم
آج کے انسان کے پاس مال کی بھرمار ہے۔ جہاں نظر جاتی ہے، وہاں مال کے ڈھیر لگے ہیں۔ مال کو اس نیت سے جمع کیا جاتا ہے کہ یہ ابدی سکون کا باعث ہوگا۔ مگر انسان یہ بات بھول گیا کہ یہ فطرت کے قوانین کے خلاف ہے، اس کا نتیجہ سکون کے فقدان کی شکل میں نکلا ہے۔ انسان کائنات کو تو زیر کر گیا مگر اپنے اندر کے خلا کو پُر نہ کر سکا،ہر کوئی شکوہ کرتا ہوا پھر رہا ہے۔ دور حاضر میں اس طرح کے جملوں کی بھرمار ہے،شکر تو جیسے دم توڑ چکا ہے،رہنے کو عالیشان مکان ہے، کھانے کے لئے لذیذ کھانے میسر ہیں، پہننے کے لئے الماریاں کپڑوں سے بھری پڑی ہیں، وغیرہ ۔ وہ سب کچھ میسر ہے جس کا تصور بھی ایک صدی پہلے کرنا محال تھا۔ پھر بھی ایک دل دہلا دینے والا خلا موجود ہے ۔ یہ خلا اور کچھ missing ہونا در اصل ’’بے برکتی ‘‘ہے۔آج کے انسان کو دنیا جہاں کی نعمتیں تو میسر ہیں مگر برکت نہیں ہے۔ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ کھانے سے برکت اُٹھ چکی ہے۔ کاروبار میں بے برکتی آ گئی ہے۔ نسل نو کو یہ تصورات یا تو بے بنیاد لگتے ہیں یا پھر دقیانوسی۔ مگر سچ تو یہی ہے کہ برکت واقعی ہماری زندگیوں سے نایاب ہے۔ مادہ پرستی کی دوڑ میں ہم ہزاروں میل کا فاصلہ تو طے کر گئے مگر برکت کی نعمت سے کوسوں میل دور ہوگئے ہیں۔

ہمیں بھی شاید یہ تمام تصورات بیک وارڈ (backward)لگتے ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں یا جنہیں ہم سمجھنا اہم نہیں سمجھتے۔ اگر اس لفظ “برکت” کا تعاقب کریں تو دو مزید الفاظ زیر بحث آتے ہیں: ’’معیار‘‘ اور ’’مقدار‘‘ جنہیں ہم انگریزی میں quality اور quantity کہتے ہیں۔آج ہماری زندگی میں مقدار بڑھتی چلی جارہی ہے۔ چاہے وہ اشیاء کی ہو یا اشخاص کی ۔ ہماری الماریوں میں ہر روز ایک نئے قسم کا جوڑا موجود ہوتا ہے۔ ہمارے کچن میں ہر روز نئے قسم کے برتنوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ رشتوں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اتنے پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ ہر کسی کا جواب بھی دینا مشکل ہو جاتا ہے، یہی تو ہے مقدار کا بڑھ جانا ۔

اتنے دوست و احباب ہونے کے باوجود کیوں آج کا انسان ذہنی تناؤ کا شکار ہے! خودکشی کرنا تو عام سی بات ہوگئی ہے۔ اس کی اصل وجہ غربت اور نہ ہی چیزوں کی کمی ہے ۔ اس کی وجہ تو معیار کی کمی ہے۔ ہماری زندگی میں کوالٹی دن بدن گرتی چلی جارہی ہے۔ جب انسان کو زندگی تلخ لگنے لگتی ہے، جب اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ کھل کر روئے تو اس کو ایک مخلص شخص نہیں مل پاتا ہے ،جسے وہ معیاری دوست یا رشتہ دار کہہ سکے ۔ کیا فائدہ ایسے بے شمار دوستوں کا جن میں کبھی کوئی ایسا کاندھا میسر نہ ہو، جس پر سر رکھ کر ہم آنسو بہا سکیں۔ ہم اپنا وقت اور توانائی اس ہجوم کے پیچھے خرچ کرتے ہیں ،جس میں کوئی ایک معیاری شخص موجود نہیں ہوتا ہے۔ ایک معیاری شخص کاندھا دینے کے بعد اپنے محبوب کے آنسوؤں کی تشہیر نہیں کرتا پھرتا ہے۔ وہ تو ان آنسوؤں کو اس طرح اپنے اندر چھپا لیتا ہے جیسے سیپ ایک بوند کو چھپا لیتا ہے۔ وہ سمندر کی لہروں سے اور گھنے اندھیرے سے بچا کر صدیوں تک اسے اپنے اندر پناہ دیتا ہے۔ اسے گہر بنا کر دنیا کو دکھاتا ہے ۔ یہ سیپ بننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی ایک ہی ہوسکتا ہے سب سے انوکھا، سب سے الگ اور سب سے معیاری۔ ہم مقدار کی بھیڑ میں معیار کو اکثر کھو دیتے ہیں یا یوں کہیے کہ مقدار کو بڑھاتے بڑھاتے ہم معیار کو ہی قربان کر دیتے ہیں ۔

ہم اکثر کثرت ڈھونڈتے ہیں۔ ہم ہجوم کے شیدائی ہیں ۔ہمیں چیزوں کی مقدار میں اضافہ چاہیے، پھر بھلے ہی ان کا معیار نہ ہونے کے برابر کیوں نہ ہو، اور یہی چاہ ہماری زندگیوں میں بے برکتی لے کر آتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کثرت کی وجہ سے برکت نہیں ہوتی بلکہ برکت کی وجہ سے کثرت ہوتی ہے۔ برکت دراصل کسی شٔے یا شخص کے ہاتھ میں نہیں ہوتی ہے ۔ یہ تو آسمان سے اترتی ہے اور ان خوش قسمت اشخاص پر برستی ہے جو اپنے خالق کو ’’تبارک‘‘ تسلیم کر لیتے ہیں۔ جو تھوڑی سی مقدار پر قناعت کر لیتے ہیں. ۔جن کے اندر صبر و شکر کا مادہ ہوتا ہے۔ جب برکتوں کا نزول ہوتا ہے تو ایک ہی شخص کافی ہوجاتا ہے، اس کی محبت پوری کائنات لگنے لگتی ہے۔ برکت تو بقا کا نام ہے ایسی بقاء جو زندگی کو بھر دے اور ہر خلا کو مٹا دے۔ برکت تو وہ ہے جو تھوڑی سی نعمتوں کو ہمارے لئے اتنا کثیر کر دے کہ ہم راضی ہو جائیں ۔ برکت تو بس ایک جادو ہے، جو اگر زندگی کا حصہ بن جائے تو ہر پل جادوئی لگنے لگتا ہے۔ مگر اس کے حصول کے لیے اسے سمجھنا ضروری ہے۔
[email protected]