ہم اپنا شکستہ اندازِ فکر کب بدلیں گے؟

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نسل انسانی میں جتنی بھی جدت اور انقلاب آئے ہیں،اُن کے پیچھے ہر طبقہ کے افراد کی فکر کار فرما رہی ہے ،جبکہ ہر مہذب اقوام کی نسلِ نو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے روشن مستقبل کا انتخاب خود کرتی آئی ہےاوروہ کم عمری میں ہی اپنی علمی قابلیت ،صلاحیت اور فن و ہُنرکو بڑھاکر اُس کے مطلوبہ معیارات سے روشناس ہونے کے لئےکامیابی کے اصولوں سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ وہ نہ توبے مقصد آرزوئوںکے سحر میں مبتلا رہتی ہے اور نہ ہی اُنہیں اپنا ذہنی رویہ اور نقطۂ نظر بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے،جس کے نتیجے میں وہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں انسان کوپنپنے کے لئے اپنےاپنے انداز رہے ہیںاور زمانے کے تقاضے کے مطابق آگے بڑھنے کی راستے بھی کھوج لئےجاتے ہیں اور یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا ۔چنانچہ موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کےانقلاب کا ہے، آئے روز کائنات کے چھپے راز منکشف ہو رہے ہیں اور اظہارِ دنیا کے تناظر بدل رہے ہیں۔ اس علمی انقلاب میں ہمارے کشمیری معاشرے کی نسلِ نو کا کیا کردار ہے؟یہ ایک غور وفکروالی بات ہے۔کیونکہ ہر معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے کے لئے ہماری نوجوان نسل رگِ جان کی حیثیت رکھتی ہے۔اُن کی ہمت اور محنت میں جہاں ہماری ترقی اور کامیابی مضمر ہے وہیں اُن کی کوتاہی اور غلط روی ہماری عزت ووقار کے لئے پستی کی علامت ہے۔کیونکہ ہماری آج کی نوجوان نسل ہی ہمارے کل کی تاریخ مرتب کرنے والے ہیں اور انہیں کے فکرو عمل سے ہمارے معاشرے کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔اس لئے جس قدر ہماری نوجوان نسل کی اہمیت اور ذمہ داریاں ہیں،اُسی قدر اُن کے مسائل بھی ہیں،جن پر سنجیدگی کے ساتھ غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوان نسل کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے نہ صرف نوجوان اور معاشرے کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازمی ہےبلکہ اُن کے لئے حالات و واقعات کے تقاضوں کو سمجھنا اور ہر پہلو پر نظر رکھنا بھی ضروری ہوتاہے۔ان دونوں صورتوں پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو افسوس اور تشویش کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔نہ ہماری نوجوان نسل وقت کی اہمیت ،حالات کی نزاکت اور مستقبل کے تقاضوں کو جاننے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی معاشرے کونوجوان نسل کے لئے کسی فعال یا مثبت مستقبل کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی کوئی فکر لاحق ہے،گویا پوارا معاشرہ بکھرا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل انجانے اور فریبی راستوں پر بھٹک رہی ہے۔آج جب وادیٔ کشمیر کے مسلم معاشرے کی نوجوان نسل کی حد درجہ بگڑی ہوئی صورت حال پر نظر ڈالی جاتی ہے تو انتہائی دُکھ اور تشویش ہورہا ہے کہ ہمارا مستقبل کس طرح کی بُرائیوں اور خرابیوں کی نذر ہوتا چلا جارہا ہے۔جہاں وہ پُر تعیش طرزِ زندگی کے سحر میں مبتلا ہے،وہاں وہ ماڈرن ازم کے نام پر اپنی اقدار کی دھجیاں اُڑا رہا ہے،جبکہ علم، فن، ہنر، ایجاد، ریسرچ، ٹیکنالوجی اور ترقی کے آداب و اطوار سے بھی کوسوں دور ہے۔وہ تو بَس آوارگی ،بے راہ روی میں مبتلا ہوچکا ہےاور جرائم کی طرف راغب ہورہا ہے۔ہمارے نوجوان نسل کی ایک کثیر تعداد مختلف نشیلی ادویات اور دوسرے منشیات کے استعمال کی عادی ہوکر ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہورہی ہے اورہمارے نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعدا د اور بھی کئی خرابیوں کی شکار ہوچکی ہے جو نہ صرف ہماری تہذیب و اخلاقی اقدار کے خلاف ہیں بلکہ دینی اصولوں کے بھی بالکل منافی ہیں۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بعض بے غیرت اور ضمیر فروش ناجائز کاروباری اداروں نے معاشرے کی نوجوان نسل کو بگاڑنے اور اُسے ہر طرح سے آلودہ کرنے کے لئے مختلف غیر قانونی دھندوں میں دھکیل دیا ہے۔جس کے نتیجے میں تمام تر غلیظ ،ناپاک اور انسان دشمن غیر قانونی دھندے وادی کے اطراف و اکناف کے ہر گلی اور کوچے تک پہنچ گئے ہیں،جس سے کم عمر نسل کا بگڑنے کا عمل بھی تیز ہونے لگا ہے۔تعجب ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی معاشرے کی فکروسوچ بدستور مُردہ اور مفلس ہے۔معاشرہ بکھر رہا ہے ،معاشرے کی نوجوان نسل تباہ و برباد ہورہی ہے اور معاشرے کی کمسِن و نوعمر نسل کو بگاڑنے کے تمام تر سامان ہر ایک کی دہلیزپر میسرہیں،اس کے بعد بھی ہم نہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی ہمت جٹا رہے ہیں اور نہ اس صورت حال کے اسباب و علل کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ کب ہم اپنی اس شکستہ ذہنی حالت میں رہنے کی بجائے، حالات کےتقاضوں پیش نظر اپنی سوچ اور اندازِفکر بدلنے کے لئے تیار ہوجائیں،خدا ہی بہتر جانتا ہے۔