ایک بھول ایسی بھی! افسانچہ

فاضل شفیع فاضل

بیڈ روم سے رونے کی آواز آتی ہے۔ پانچ سالہ ریحان شاید نیند سے جاگ چکا تھا ۔ اس کی ماں فرحین دوڑ کے بیڑ روم میں چلی جاتی ہے اور ریحان کو گود میں لے کر کھیلنا شروع کرتی ہے۔ باپ کے لاڈ پیار کی وجہ سے ریحان کو موبائل فون چلانے کی ایک لت سی لگ چکی تھی اور ریحان اپنی ماں سے موبائل فون کیلئے بڑی ضد کر رہا تھا۔ فرحین پہلے تو منع کر دیتی ہے لیکن بعد میں مجبور ہو کر ریحان کے ہاتھ میں اپنا موبائل فون تھما دیتی ہے۔ گرمیوں کا موسم تھا، فرحین کو اپنے کپڑے بدلنے کا خیال آ جاتا ہے۔ چونکہ ریحان کھیل رہا تھا اور یہ بہت صحیح موقع تھا اپنے کپڑے بدلنے کا۔

 

ریحان موبائل فون کے ساتھ کیا کر رہا ہے، اس بات سے فرحین بالکل بے خبر تھی۔ وہ الماری میں سے نئے کپڑے نکالتی ہے اور کپڑے بدلنے کا عمل شروع کرتی ہے۔ ریحان اپنی ماں کی فیس بک آئی ڈی دیکھ رہا تھا اور غلطی سے Facebook Live Option پر ننھے ریحان کی انگلی چلی گئی۔ کمرے کا سماں کیمرے میں قید ہو کر فرحین کی فیس بک آئی ڈی سے Live جاری تھا۔ فرحین اپنے کپڑے بدل رہی تھی اور یہ سماں سارا جہاں اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور کچھ ہی منٹوں میں یہ ویڈیو Viral ہوئی۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ فرحین کا یہ ویڈیو دیکھ چکے تھے اور فرحین اس بات سے بالکل بے خبر تھی۔ فرحین کا فون بجتا ہے، فون ہاتھ میں لیتے ہی دوسری جانب سے آواز آتی ۔۔ فرحین یہ کیا کیا تم نے؟ تم اس قدر گر سکتی ہو، میں نے کبھی سوچا نہ تھا! میں کسی کے سامنے اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہا! اسی وقت میرے گھر سے دفع ہو جاؤ۔ ہمارا رشتہ اب ختم ہو چکا ہے اور میں تمہیں طلاق دے رہا ہوں۔۔۔ فرحین کے بولنے سے پہلے ہی اس کا شوہر فون کاٹ دیتا ہے۔
فرحین سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر ہوا کیا ہے؟ یہ کس بات کی سزا مل رہی تھی اس کو؟ اسی بیچ اس کے بھائی کا فون آتا ہے۔۔ فرحین یہ تم نے کیا کر دیا؟ کس چیز نے تمہیں یہ سب کرنے پر مجبور کیا؟ کیا تمہیں اپنے ماں باپ کی عزت کی کوئی فکر نہ تھی؟ تم نے آج ہماری عزت کو سرِبازار نیلام کر دیا! تمہیں اپنی بہن کہتے مجھے شرم آ رہی ہے۔۔ اب جو بھی ہوا، یہ بات یاد رکھنا کہ آج کے بعد ہمارے ساتھ تمہارا کوئی رشتہ نہیں رہا اور نہ ہی کبھی ہمارے گھر میں آنے کی جرأت کرنا۔ اسی کے ساتھ فرحین کا بھائی اپنا فون رکھ دیتا ہے۔

 

فرحین اپنی سہیلی عارفہ کو فون لگاتی ہے اور عارفہ سارا ماجرہ فرحین کو سناتی ہے کہ کس طرح اس کے کپڑے بدلنے کا سماں اس کی فیس بک آئی ڈی سے لائیو چل رہا تھا۔ فرحین کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی گویا اس پر ایک طرح کی قیامت ٹوٹ پڑی۔ فرحین نے اپنی فیس بک آئی ڈی سے وہ ویڈیو ڈیلیٹ تو کردی لیکن اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس ویڈیو کی بدولت بہت سارے خودساختہ صحافیوں کا جنم ہوا تھا جنہوں نے اپنی اپنی چینلوں کو فروغ دینے کے لیے فرحین کا یہ ویڈیو اپلوڈ کیا تھا۔ سماج کے واعظ بھی اپنا فتویٰ جاری کر چکے تھے اور فیس بک مولوی بھی زور زور سے چیخ رہے تھے اور عام لوگوں نے اس ویڈیو کو آگ کی طرح پھیلانے میں اپنا کردار خوب اچھی طرح نبھایا تھا۔ کسی نے فرحین سے یہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ آخر ہوا کیا تھا؟ سب لوگ فرحین کو قصور وار ٹھہرا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر فرحین کے علاوہ کوئی خبر نہ تھی۔ اپنے ذاتی مفاد کے لئے فرحین کے رنج و الم کا تماشہ بنا دیا گیا۔ فرحین کی عزت کو نیلام کر دیا گیا اور اس سماج نے آخر اپنا رنگ دکھا ہی دیا تھا۔
فرحین کو گھر سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنے سماج میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی اور نہ ہی کوئی آ کر اس نازک موڑ پر فرحین کا ساتھ دینے کے لئے تیار تھا۔ فرحین کے لئے سب راستے بند ہو چکے تھے اور اسے جینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ فرحین اپنی آنکھوں میں آنسو لئے ریلوے ٹریک پر لیٹ جاتی ہے اور یہ سوچتی ہے کہ آخر غلطی کس کی تھی۔۔۔۔

 

ریحان کی، جس کی ننھی سی انگلی غلطی کر بیٹھی یا اس کے باپ کی جس نے ریحان کو موبائل فون کا عادی بنا دیا تھا۔
یا اس سماج کے لوگوں کی، جنہوں نے محض اپنے مفاد کے لیے میری ویڈیو کا غلط استعمال کیا۔
آخر کیوں، سب نے میری بات سننے سے انکار کیا؟
میں تو اپنی نظر میں بے قصور ہوں!
ریحان کی یاد تو ہمیشہ آئے گی اور میں ریحان کے ساتھ جینا چاہتی تھی!
کس طرح سماج نے مجھے ذلیل کیا، اس بات کا جواب اللہ کے سامنے قیامت کے روز ضرور لوں گی۔
اور اسی بیچ تیز رفتار ٹرین فرحین کے اوپر سے چلی جاتی ہے۔

���
اکنگام انت ناگ،[email protected]