ایران کے داخلی حالات اور احتجاجات کا سلسلہ! پسِ منظر

عادل فراز

گذشتہ ہفتہ سے ایران کے داخلی حالات کشمکش کا شکار ہیں ۔ایران کے مختلف حصوں میں حجاب کے خلاف احتجاج ہورہاہے ۔ احتجاجی ریلیوں میں انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہورہا ہے۔جبکہ خواتین اپنے بال کاٹ کر حجاب اور موجودہ نظام سے آزادی کا مطالبہ کررہی ہیں ۔دوسری طرف حجاب کی حمایت میں بڑی ریلیاں نکالی جارہی ہیں ۔باحجاب خواتین بے حجابی کے خلاف میدان عمل میں ہیں ۔ایرانی حکام اور میڈیا کا کہناہےکہ انقلاب دشمن عناصر احتجاجات کی رہنمائی کررہے ہیں ۔اس میں کرد عسکریت پسند گروپ بھی شامل ہیں اور ایران میں موجود ہ نظام مخالف بھی ۔گذشتہ کچھ سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں معمولی سے معمولی بات پر بھی لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔کبھی مہنگائی کے خلاف ہنگامہ آرائی ہوتی ہے تو کبھی موجودہ نظام کےخلاف نعرہ بازی شروع ہوجاتی ہے ۔ہر ہنگامے اور احتجاج کے پیچھے انقلاب مخالف اور امریکی نواز افراد کا ہاتھ ہوتاہے ،جیساکہ ایرانی میڈیا کے ذریعہ خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ۔پہلا سوال تویہ ہے کہ آخر ایران میں خارجی طاقتوں کے نمائندے اس قدر توانا کیوں ہیں ؟کیا ایران کی خفیہ ایجنسیاں ایسےافراد پر لگام کسنے میں ناکام ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایران کے موجودہ نظام سے لوگوں کو کیا خدشات لاحق ہیں ؟جس بنیاد پر اس نظام کی شدومد کے ساتھ مخالفت کی جاتی ہے ۔
پہلے سوال کا جواب اس طرح دیاجاسکتاہے کہ ہر ملک میں خارجی طاقتوں کےایجنٹ اور نمائندے موجود ہوتے ہیں ۔ایران چونکہ استعمار ی قوتوں کا مخالف ہے، اس لئے اس پر یلغار ہے ۔ایک طرف امریکہ اور اسرائیل جیسی طاقتیں اپنے حلیف ممالک کے ذریعہ اس کے داخلی مسائل کو ابھارنےکا کام کرتی ہیں ۔دوسری طرف وہ مسلمان ممالک جو ایران کے فکری اور علاقائی دشمن ہیں ،ایران کی کمزوریوں کی تاک میں رہتے ہیں ۔موجودہ احتجاجی ریلیوں کو بھی ان کی پوری حمایت حاصل ہے ۔جن پر قابو حاصل کرنا ایران کے لئے بڑا مسئلہ ہے ۔وقتاً فوقتاً ایرانی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ خارجی طاقتوں کے نمائندوں کی گرفتاری کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ۔بعض کو ملک سے خیانت کے جرم میں سنگین سزائیں دی جاتی ہیں ۔ان سزائوں کے خلاف بھی عالمی طاقتیں اور مغربی میڈیا واویلا کرتا رہتاہے کیونکہ اس طرح اس کے نیٹ ورک کی کمر ٹوٹ رہی ہوتی ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب قدرے تفصیل طلب ہے مگر اجمالی پیرائے میں یوں کہاجاسکتاہے کہ ایران کا موجودہ نظام کسی دوسرے طاقت ور ملک کی برتری تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ایران کا کہناہے کہ ہم کسی طاقت کے ماتحت نہیں رہ سکتے ۔ہم فقط اور فقط ایک طاقت کو تسلیم کرتےہیں اور وہ ہے اللہ کی طاقت۔ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایران نے مختلف محاذوں پر دشمن طاقتوں کو شکست دی ہے ۔شام ،عراق،فلسطین اور یمن اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔دوسری طرف ایران کا جوہری منصوبہ استعماری قوتوں کے لئے انتہائی خطرناک عمل ہے ۔مگر ان طاقتوں کے حلیف ممالک ایران کےساتھ جوہری معاہدہ کے خواہش مند ہیں ۔کیونکہ چین اور روس جیسی طاقتیں ایران کے ساتھ متحد ہوچکی ہیں ۔نیا عالمی نظام ایران ،روسی اور چین کے ماتحت اپنے پائوں پسار رہاہے ۔اس لئے دنیا کی بڑی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کو بحال کردیاجائے ۔ایران بھی جوہری معاہدہ میں واپسی کا خواہش مند ہے مگر وہ اپنی شرطوں کے ساتھ اس معاہدہ کی بحالی چاہتاہے ۔ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات ایران مخالف عناصر کے لئے خوش آیند نہیں ہیں ،اس لئے ایران کو چوطرفہ گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
اب اگر مہسا امینی کی موت کا جائزہ لیاجائے تواس سلسلے سے جتنی خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ موصول ہورہی ہیں ،ان کا تعلق مغربی میڈیا سے ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہم مغربی میڈیا کے ذریعہ موصول خبروں کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ’ آمنّا و صدقنا‘کی نظیر بن جاتے ہیں ۔ایرانی میڈیا کی خبروں کو خاطر میں نہیں لاتے ۔نظریاتی اختلاف الگ بات ہے لیکن حقائق کی تہوں تک پہونچ کر قارئین تک واقعہ کی اصلیت کو پہونچانا صحافتی ذمہ داری ہے ۔خبروں کے مطابق کچھ دنوں پہلے مہسا امینی کو پولیس نے بے حجابی کے جرم میں گرفتار کیا تھا ۔بے حجابی شخص کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سماج کا مسئلہ ہے ۔جب تک بے حجابی یا کوئی بھی آئین مخالف عمل گھر کے اندر انجام دیاجائے اس پر حکومت کو کاروائی کا حق حاصل نہیں ہوتا ۔لیکن جیسے ہی آئین کی مخالفت عمومیت اختیار کرنے لگے اور وہ سماجی تخریب کا مسئلہ قرار پائے ،حکومت کو اس پر آئین کے مطابق کاروائی کرنے کامکمل اختیار حاصل ہوتا ہے ۔ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق مہسا امینی علیٰ الاعلان بے حجابی کی نظیر بنتی جارہی تھی، لہٰذا پولیس نے اسے گرفتارکرلیا ۔حراست کے دوران اچانک اس کی موت واقع ہوگئی۔ایرانی حکام اور میڈیا کی رپورٹس کے مطابق مہسا امینی کی موت کسی تشدد کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔جس ویڈیو فوٹیج کو مہساامینی کی موت کے حوالے سے پیش کیا جارہاہے اس میں وہ صحت مند نظر آرہی ہے ۔خواتین پولیس اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے اچانک وہ زمین پر گرپڑتی ہے اور اس کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔پوسٹ مارٹم رپوٹ کے مطابق اس کے ساتھ کوئی جسمانی تشدد کا واقعہ سرزد نہیں ہوا اور نہ اس کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان موجود تھا ۔اس کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ اس کے ساتھ پولیس نے متشدد رویہ اختیارکیا،ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے ۔
حجاب سے متعلق ہر ملک کا اپنا قانون ہے ۔جمہوری نظام میں بھی ہر کسی کو اپنی خواہشات کے مطابق عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔اکثر جمہوری ملکوں میں حجاب پر پابندی عائد ہے جبکہ یہ عوام کا اختیاری مسئلہ ہے ۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں بھی حجاب کا معاملہ اُچھالا جارہا ہے ۔اسی طرح برطانیہ ،امریکہ اور فرانس جیسے ممالک میں بھی جمہوری قدریں بحال نہیں ہیں ۔ یعنی ہر جمہوری ملک میں کسی نا کسی حد تک شخصی آزادی متاثر ہوتی رہتی ہے ۔ اگرایران کے جمہوری نظام میں حجاب پہننا آئینی حیثیت رکھتاہے تو گویا اس کی مخالفت آئین کی مخالفت سمجھی جائے گی ۔جس طرح ہر جمہوری ملک اپنے آئین کے تئیں وفاداری اور سنجیدگی کا مطالبہ کرتاہے، ایرانی نظام بھی اس کا متقاضی ہے ۔ جس طرح ہر ملک میں لوگ آئین پسند اور آئین مخالف ہوتے ہیں ،اسی طرح ایران میں بھی ہیں ۔خواتین مکمل حجاب کی پابند بھی ہیں اور برائے نام حجاب پہننے والی خواتین بھی ہیں ۔لیکن کبھی یہ نہیں دیکھا گیاکہ کم پردے والی خواتین کو پولیس سڑکوں پر تنگ کررہی ہو۔شخص کی آزادی کے لئے ہر ملک کے الگ الگ قوانین ہیں۔جمہوری ممالک میں شخص کو جتنی آزادی حاصل ہے ،ایران میں بھی اس قدر آزادی حاصل ہے۔دنیاکے اکثر ممالک میں شراب خوری کو قانونی اجازت حاصل ہے مگر ایران میں شراب پر پابندی عائد ہے ۔اسی طرح قمار بازی اور دیگر سماجی برائیوں پر سختی کےساتھ کاروائی کی جاتی ہے ۔جس طرح شراب خوری دوسرے ملکوں میں جائز ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ،اسی طرح ایران میں شراب کی ممنوعیت پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتاہے ۔ایران میں جونظام رائج ہے تو اس کے قوانین بھی اُسی نظام کے عین مطابق ہوں گے ۔بے حجابی اور شراب خوری غیر اسلامی عمل ہے جس کی ایران میں اجازت حاصل نہیں ہے ۔اگر مغربی میڈیا اور اس کے دزدیدہ افراد یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ایران میں بے حجابی اور شراب خوری کی اجازت دی جائے تو یہ غیر منصفانہ عمل ہے ۔کیونکہ اگر کل ایران یا کسی دوسرے ملک سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ مغرب شراب اور بے حجابی پر پابندی عائد کرے تو کیا مغربی ممالک اس مطالبے کو تسلیم کریں گے؟ لہٰذا کسی دوسرے ملک کے قوانین کے بارے میںبے جا تبصرہ اور ہنگامہ آرائی کرنے کا ہمیں کیا حق حاصل ہے ۔ہر ملک میں ہزاروں ایسے قانون موجود ہیں جنہیں عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی ۔حتیٰ کہ اس ملک کے باشندے بھی اپنے ملک کے قوانین کے خلاف سراپا احتجاج رہتے ہیں ۔احتجاج کرنا ہر ملک کےشہری کا آئینی حق ہے ۔لیکن اس احتجاج میںخارجی طاقتوں کی مداخلت غیر اخلاقی عمل تصور کیا جاتاہے ۔لہٰذا مخالفت سے پہلے مہسا امینی کی موت کے حقائق کا مطالعہ کیاجائے تاکہ صحیح نتیجہ تک رسائی ممکن ہوسکے۔
)رابطہ۔7355488037)
[email protected]