آگ کا مارا کہانی

سہیل سالمؔ

شام کے آنچل میں لپٹی ہوئی میری نئی ادھوری کہانی نے میرے کمرے میں پھر سے تنہائی کو جنم دیا۔اب اس تنہائی سے لڑنے کے لئے کمرے میںبکھری پڑی بے شمار نیم زخمی کہانیوں کو مرحم لگانے کی کوشش کرتا رہا اور مرحم لگانے کے دوران کسی حد تک ان نیم زخمی کہانیوں کی کراہت نے کمرے میں پھیلی ہوئی تنہائی کو نگل لیا۔باہر سے کوئی دروازے پر دستک دے رہا تھا۔میں کمرے سے باہر آگیا اور میں نے دروازہ کھولا۔سامنے ایک بارہ سال کا بچہ پرانے کپڑے پہن کر نمودار ہوا۔چہرے پر اداسی،آنکھوں میں کرب ،ہونٹوں پر تھر تھراہٹ مگر معصوم اور پیار کا بھوکا۔
’’بیٹا کیا بات ہے میں نے پوچھا؟‘‘
’’صاحب میری مدد کیجئے ۔۔۔مجھے کام چاہیے ‘‘
’’آئے اندر آئے! میں نے اُسے اپنے کمرے میں بیٹھایا۔۔۔‘‘
’’کیا نام ہے آپ کا ؟بیٹا۔۔۔‘‘
’’صاحب میرا نام ضمیر ہے‘‘
’’اچھا بتائو ضمیر۔۔۔ کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’صاحب میری مدد کیجئے ۔۔۔ مجھے کام چاہیے‘‘
’’میرے ابا نہیں ہیں صاحب ‘‘
’’کیوں؟ ۔۔آپ کے بابا کہاں ہیں میں نے پوچھا؟‘‘
صاحب امی کہتی ہے جب میں سات سال کا تھا تو اچانک ہمارے علاقے میں آگ کے پرندوں نے کچے مکانوں کے چھتوں پر گھونسلے بنائے جس کے سبب پورے علاقے میں آگ پھیل گئی۔ایک رات آگ کے پرندوں نے ہمارے گھر کی چھت پر بھی گھونسلا بنانا چاہا لیکن میرے ابا نے انھیں روکنے کی زبردست کوشش کی مگر ان کی کوشش بے رنگ ثابت ہوئی اور آگ کے پرندوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے میرے ابا کے چہرے سے آنکھیں نوچ لیں اور ان کے پورے بدن میں آگ لگادی ۔امی اس آگ کوبجھانے کے لئے ہر ایک سے پانی کی بھیک مانگتی رہی تھی لیکن آس پاس کے لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی ان کے سہاگ کوبچانے کی کوشش نہیں کی اور اس طرح ہمارے ابا ہم سے بچھڑ گئے۔
آہ ! ضمیر کی پاک زبان سے آگ کی کہانی سن کر میرے وجود کے دریا میں ہل چل سے مچ گئی ۔میں سوچنے لگا ۔’’کون ہیں ،یہ لوگ؟ جنہوں نے آگ کے بت تراشے پھر ان کی پرستش کی ۔کون ہیں؟ یہ لوگ جنہوں نے آگ کے پرندوں کو اڑان بھرنے میں ان کے پروں کو توانائی عطا کی ۔کون ہیں؟ یہ لوگ جنہوں نے آگ کی صلیب پر خوابوں کو لٹکا کے رکھا ہے۔کون ہیں؟ یہ لوگ جنہوں نے ستی سر کی کوکھ میں آگ بھر دی‘‘۔یہ کس قسم کی آگ ہوسکتی ہے۔شاید نفرت ،سیاست،دہشت ،طاقت،بربریت اورذلت کی آگ ہو سکتی ہے ۔’’میں بھی تو نہیں اس آگ کا کھلاڑی ہوں ۔نہیں ۔۔نہیں۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ہے‘‘
’’صاحب نہیں کریں گے مدد ۔۔‘‘
’’جی ! جی بیٹا ۔۔دیکھو ہمارے یہاں آپ کے لائق کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں گھرکے سبھی کام مُنی کرتی ہے۔ اب آپ کو کام مل سکتا ہے مگر اس کے لئے کل صبح آپ کو میرے ساتھ فیکٹری میں آنا ہوگا ۔ میری خود کی ایک چھوٹی فیکٹری ہے جہاں ہم تانبے کی تار یں بناتے ہیں۔میں وہاں منیجر سے بات کر کے آپ کو ایک چھوٹے موٹے کام میں مشغول رکھ سکتا ہوں ۔اس کے لئے آج کی رات تمہیں یہیں قیام کوکرناہوگا۔ میں نے کہا ۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے صاحب ۔‘‘ رات اُتر آئی تھی میں نے مُنی کو آواز لگائی کہ کھانا کمرے میں لے آئو۔ہم دونوں نے کھانا کھایا اور اس کے بعد میں نے ضمیر کو وہ کمرا دکھایا جہاں وہ آج کی رات آرام کرنے گا۔تھوڑی دیرتک فیکٹری کا حساب کتاب دیکھنے کے بعد میں بھی اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔جوہی میں نے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی میری آنکھوں کے سامنے با ر بار ضمیر کا بھولا بھالا سا چہرے سامنے تا آرہا ہے، جسے آگ کی چنگاریوں نے گھیر کر رکھا تھا۔اس کی آنکھوں میں جیسے سارے جہاں کی آگ پنپ رہی تھی ۔اس آگ نے مجھے بے چینی کے آگ میں دھکیل دیا اوریہ رات میری لئے اذیت ناک رات بن گئی کیونکہ میں نے کھلی آنکھوں سے اس رات کا سفر کیا۔
چڑیوں کی چہچہاہٹ اور نسم صبح نے سورج کا بڑی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا۔کچھ دیر بعد ضمیر بھی نیند سے جاگ گیا اور غسل حانہ سے ہاتھ منہ دھو کر کمرے میں چائے پینے آگیا ۔میں بھی وہیں اخبار بینی میں مصروف تھا۔اس کے بعد ہم دونوں نے اکھٹے چائے نوش کی۔صبح کے نو بج گئے تھے اور میں نے ضمیر سے کہا چل اب ہم کام پر جاتے ہیں۔جہاں تمہیں کو بھی کام کرنے کا موقع ملے گا۔
’’بہت بہت شکریہ صاحب ! ۔اس نے کہا۔اب میںنے گاڑی نکال کر فیکٹری کی اور رخ کیا۔فیکٹری پہنچ کر میں نے منیجر صاحب سے ضمیر کو متعارف کروایا۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر! آج سے ہی ضمیر کام پرلگ جائے گا۔تمہیں فی الحال تین ہزارروپے تنخواہ ملے گی ۔اس کے بعد آپ کا کام دیکھ کر آپ کی تنخواہ بڑھ سکتی ہے۔‘‘
ضمیر کا گلابی چہرہ کھل اٹھا اور اس نے حامی بھر دی۔ کام شروع ہوگیا ۔ضمیر کو تا ر کے ڈبوں پر لبیل چسپاں کر نے کا کام مل گیا۔دیکھتے دیکھتے چھ ماہ گزر گئے،اس کے کام سے فیکٹری کے سارے کام کرنے والے خوش تھے۔ایک دن میںنے ضمیر کو اپنے کمرے میں بلایا ۔
’’ارے ضمیر !تم نے یہ لیبل چسپاں کرنے کا کام کہاں سے سیکھا۔تمہارا کام دیکھ کر لگا رہا ہے کہ مشین سے ڈبوں پر کام کر وایا گیا ہے۔تمہارے کام نے ہمارے تار کے ڈبوں کی زینت بڑھا دی ہے۔پھر میں نے محبت بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا ۔میرا یہ شفقت آمیز رویہ دیکھ کر اسے محسوس ہوا کہ شہر میں ہر کوئی شخض نمرود کی طرح آگ میں ڈالنے والا نہیں ہے،یہاں آگ بجھانے والے بھی موجود ہیں اور آگ کے دریا سے دور رکھنے والے صاحب بھی ۔آج سوموار کا دن تھا فیکٹری کے سارے کام کرنے والے اپنے اپنے کاموں میں مشعول تھے کہ اچانک فیکٹری کی تیسری منزل سے چیخنے کی آوازیں آئی ۔’’ میں نے اور فیکٹری کے سارے لوگوں نے دوڑ لگائی اور تیری منزل پر پہنچ گئے۔وہاں پہنچ کر دیکھ کو ضمیر کے ہاتھوں پر تیزآب کی بوتل گر گئی ہے اور اس کے ہاتھ جل کر سفید ہوگئے ہیں۔اپنے نفس کی آگ کو بجھانے کے لئے وہ بھی آگ کا مارا بن گیا۔‘‘
���
رعناواری سرینگر
موبائل نمبر؛9103654553