آدھی موت کا جشن افسانہ

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

وفا محل، ایک ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔انھیں ہیڈ ماسٹر بنے بارہ سال ہوگئے تھے ۔علم ریاضی میں ایم ایس سی تھے ۔انھیں اپنے سبجیکٹ پر خاصا عبور حاصل تھا ۔اُن کا یہ کہنا تھا کہ علم ریاضی ایک مشکل ترین سبجیکٹ ہے جو ہرکسی نہیں آتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس سبجیکٹ کے جراثیم ہر کسی کو عطا نہیں کرتا۔وفا محل ایک قابل استاد تو تھے ہی ایک اصول پرست اور خوش اخلاق انسان بھی تھے ۔بہت سے طلبہ وطالبات اُن کے گھر پر ٹیویشن پڑھنے آتے تھے ۔وہ صبح دس بجے سے پہلے اور شام کو چار بجے کے بعد ٹیویشن پڑھاتے تھے ۔اُن کے پڑھائے ہوئے کئی طلبہ وطالبات کوئی ڈاکٹر ،کوئی انجینئر اور کوئی ایڈ منسٹریٹیو آفیسر کی پوسٹ پہ تعینات تھا۔علم ریاضی کے علاوہ اُنھیں ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا ۔وہ انگریزی ،ہندی اور اردو کے بلند پایہ شاعروں اور ادیبوں کے ادبی کارناموں سے بخوبی واقف تھے ۔اپنی تقریروں اور تحریروں میں وہ اکثر موقع ومحل کے اعتبار سے بڑے عمدہ اشعار سے اپنی بات کو بہت موثر بناتے تھے ۔وہ درس وتدریس کو عبادت سے کم نہیں سمجھتے تھے ۔ وہ صفائی ،سچائی ،لکھائی ،پڑھائی اور اچھائی پر جان چھڑکتے تھے ۔غرضیکہ ایک بہترین مدّرس کے تمام اوصاف اُن میں موجود تھے ۔وہ اپنے علاقے میں ایک مشہور اور قابل ترین مدّرس تسلیم کئے جاتے تھے۔پندرہ اگست اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر جب وہ اسکول میں نظامت کے فرائض انجام دیتے تو طلبہ وطالبات اورعوام اُن سے بہت متاثر ہوتے۔وفا محل ایک پُر وقار مدّرس کی حیثیت سے طلبہ اور لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے تھے ،لیکن ہائے!وقت کے دریا میں بہتے بہتے اب وہ حُسن وجوانی کھو چکے تھے۔اپنی سروس میں اب تک وہ اٹھارہ اسکولوں میں تعلیمی خدمات انجام دے چکے تھے ۔اُن کی جس بھی اسکول سے ٹرانسفر ہوجاتی تووہاں کے طلبہ وطالبات رونے لگتے ۔اُن کے جانے سے ایک سوگوار ساماحول پیدا ہوجاتا ۔وہ اکثر طلبہ کو یہ بات سمجھاتے کہ تبدیلی قدرت کے قانون میں شامل ہے ۔ہم ملازم حکمناموں کا احترام کرتے کرتے بالآخر سبکدوش ہوجاتے ہیں ۔اسکول میں جب کبھی دو مُدّرسوں کے درمیان کسی بات پرنوک جھونک ہوجاتی اور وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے بجائے اپنے دلوں میں رنجش پالنے لگتے تو ماسٹر وفا محل اُن دونوں میں صلح کرواتے اور آپس میں گلے ملواتے۔تب اُنھیں بہت مسرت ہوتی ۔وہ یوں محسوس کرتے کہ جیسے وہ کسی بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئے ہوں ۔ہیڈ ماسٹر بننے کے بعد بھی اُن کے مزاج میں کوئی بھی اکّٹر پھوں داخل نہیں ہوئی تھی ۔وہ تُم ،تیرااور تُوایسے الفاظ استعمال کرنا بہت معیوب سمجھتے تھے ۔بس ہر کسی کو آپ اور جی کہہ کر پُکارتے تھے ۔یہاں تک کہ وہ اپنے اسکول کے صفائی کرمچاری دھولُورام کو بھی تُو کہہ کر پُکارنا معیوب سمجھتے تھے ۔

گورنمنٹ ہائی اسکول محراب گڑھ میں وفا محل کو بحیثیت ہیڈ ماسٹر کام کرتے پانچ سال ہوگئے تھے ۔اس اسکول میں چارسو سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم تھے ۔اٹھائیس اساتذہ کے علاوہ تین کلرک ،دو لیبارٹری اسسٹنٹ اورتین چپراسی بھی تھے۔مارننگ اسمبلی میںجب وفا محل ہیڈ ماسٹر طلبہ کو اخلاق وکردار پر لیکچر دینے لگتے تو تمام اساتذہ اور طلبہ وطالبات ہمہ تن گوش اُن کو سُنتے ۔وہ انھیں حیات وکائنات کے کئی اسرار ورموذ سمجھانے لگتے ۔ہفتے میں ایک بار اسکول میں دیسی گھی کا حلوہ اور نمکین چائے پلانے کی روایت اُنھوں نے ہی قائم کی تھی ۔طلبہ کی لکھائی ،پڑھائی ،صفائی ستھرائی ،کھیل کود اور نظم وضبط پر وہ خاص دھیان دیتے تھے۔لیکن اب اُن کی رٹائر منٹ کو ایک سال رہ گیا تھا ۔وہ جب اپنی گذشتہ بتیس سالہ سروس پر دھیان دیتے تو اُنھیں یوں لگتا کہ جیسے وہ کل ہی گورنمنٹ سروس میں آئے ہوں ۔تب انھیں وقت کے گزران کا احساس اندر ہی اندر نوچنے لگتا ۔اُن کے پورے وجود میں یہ احساس ایک درد وکرب بن کر سرایت کرجاتا کہ دن ،مہینے سال گزر تے جائیں گے اور میرا وجود ایک ناکارہ وجود کی صورت اختیار کرلے گا ! اور پھر ایک وقت آئے گا کہ بے بسی وبے سروسامانی کا عالم مجھے گھیر لے گا!وفامحل جہاں اپنی سروس کے بتیس سال پورے کرچکے تھے وہاں بقیہ ایک سال بھی گردش روزوشب میں گزررہا تھا۔ایک روز وہ اپنے آفس میں بیٹھے کسی حد تک مغموم حالت میں تھے ۔اُن کی رٹائر منٹ کو اب کُل دومہینے باقی رہ گئے تھے ۔انھوں نے اپنی ٹیبل کی ڈرال سے آرڈر بُک نکالی ۔اُس میں دن کے دو بجے کے بعد تمام اسٹاف کے ساتھ میٹنگ کا آرڈر لکھا اور ٹیبل بیل بجائی ۔چونی لعل چپراسی اُن کی خدمت میں حاضر ہوا ۔اُنھوں نے اُسے آرڈر بُک پکڑاتے ہوئے کہا

’’یہ لیجیے اس پر سب کے دستخط کروایئے اور کہہ دیجیے کہ آج دو بجے کے بعد آفس میں میٹنگ ہے ‘‘

دو بجے کے بعد تمام اسٹاف ممبران باری باری وفا محل ہیڈ ماسٹر کے سامنے کرسیوں پر بیٹھنا شروع ہوئے ۔جب سب آفس میں آگئے تو وفا محل نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

’’دوستو! اور ساتھیو!آج کی میٹنگ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ میں آپ کو یہ احساس دلانالازمی سمجھتا ہوں کہ ہم سب وقت کے دریا میں بہہ رہے ہیں !میری رٹائر منٹ کو دو مہینے رہ گئے ہیں ۔لہٰذا آپ مجھ سے جو بھی اپنا دفتری اور کاغذی مسٔلہ حل کروانا چاہتے ہیں ۔وہ میرے سامنے لے آیئے تاکہ میرے جانے کے بعد آپ کو کسی بھی طرح کی مایوسی وپریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘

وفا محل یہ کہنے کے بعد لمحہ بھر کے لئے خاموش رہے تو سوشل سائنس کے ٹیچر بھگوان داس کسی حد تک مسکراتے ہوئے کہنے لگے

’’سر! مجھے آپ کو دیکھ کے لگتا ہی نہیں ہے کہ آپ رٹائر ہورہے ہیں یا رٹائر ہوں گے ۔چلیے اگر یہی مان لیں کہ آپ دو مہینے کے بعد رٹائر ہورہے ہیں تو سر آپ اُن خوش نصیب آفیسروں میں ایک ہیں جو باعزت طریقے سے رٹائر ہورہے ہیں ۔ورنہ بہت سے لوگوں کو رٹائر منٹ سے پہلے ہی رٹائر کیا جاتا ہے ۔اس لئے خوش رہیے‘‘

وفا محل نے کہا

’’بھگوان داس جی !آپ صحیح کہہ رہے ہیں لیکن میں آپ سب کو یہ بتادینا چاہتاہوں کہ ہر ملازم کی رٹائر منٹ اُس کے لئے آدھی موت ہوتی ہے!‘‘وہ ابھی اتنی ہی بات کہہ پائے تھے کہ انگریزی پڑھانے والی اُستانی ششی کلا بیچ میں بول اُٹھی

’’سر! آپ نے رٹائر منٹ کو اپنے اوپر بہت سیریس لیا ہے۔ہرچیز وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے‘‘

وفا محل نے اُستانی ششی کلا کی بات سُنی اورپھر رٹائر منٹ کا معنی ومفہوم سمجھاتے ہوئے کہنے لگے

’’دراصل رٹائر منٹ کا مطلب یہ ہے کہ ہماری وجودی حیثیت اور فطری صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہیں ۔اس لئے ہم سے تمام سرکاری اختیارات واپس لئے جاتے ہیں ۔رٹائر منٹ کے بعد ہمارا وجود ہمارے لئے ہرطرح سے بوجھ بن جاتا ہے ۔آپ ہی بتایئے کس چیز میں کمی نہیں آتی؟‘‘

تمام اسٹاف ممبران وفا محل کی باتیں غور سے سنتے رہے ۔کچھ اثبات میں سر ہلاتے رہے ۔کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک اور بھی مسائل پر باتیں ہوتی رہیں ۔آخر پر سب نے چائے پی اور آج کی یہ میٹنگ برخاست ہوگئی۔

اسکول سے چھٹی ہونے کے بعد وفامحل اپنے گھر میں آئے تو اُن کی بیوی اور بچّوں نے رات کا کھانا کھانے کے بعد وفا محل کی رٹائر منٹ کی بات چھیڑی۔ اُن کی بیوی آسیہ نے اُن سے پوچھا

’’آپ کی ریٹائر منٹ کو کتنے مہینے رہ گئے؟‘‘

وفا محل نے جواب دیا

’’دو مہینے رہ گئے۔اکتوبر میں میری رٹائر منٹ ہے ‘‘
آسیہ نے کہا

’’ہاں تو میری بہنیں اور بھائی پوچھ رہے تھے کہ جیجا جی کی رٹائر منٹ کب ہے ؟وہ آپ کی رٹائر منٹ پارٹی کے لئے نئے سُوٹ بُوٹ خریدنا چاہتے ہیں‘‘
وفا محل کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔بیٹا، بیٹیوں سے بڑا تھا ۔وہ گریجویشن کرچکا تھا۔دو بیٹیاں گریجویشن کررہی تھیں اور ایک بارہویں میں زیر تعلیم تھی۔بیٹے نے وفا محل کو سجھاؤ دیا کہنے لگا
’’پاپا! دلشاد پیلس پہلے ہی بُک کرانا پڑے گا ۔اس کے علاوہ رٹائر منٹ کا کارڈ بھی چھپوانا پڑے گا‘‘
بیٹیوں نے بھی خوشی کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی اپنی پسند کی شاپنگ کا اظہار کیا لیکن وفا محل اپنی بیوی اور بچّوں کی باتیں سُنتے ہوئے خاموش سب کے چہروں کی طرف بڑی بے بسی سے دیکھ رہے تھے ۔اُن کے بیٹے ابرار نے کہا
’’پاپا! آپ نے کیوں چُپ سادھ لی ؟کچھ ہاں ناں کہیے نا‘‘
وفا محل نے کہا
’’کیسی بے وقوفانہ باتیں ہیں تمہاری۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ میں رٹائر ہورہا ہوں اور آپ سب اپنے ،پرائے میری رٹائر منٹ کا جشن منانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ایک لاکھ بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتا ہوں ۔رٹائر منٹ کے بعد بمشکل ساٹھ ہزار روپے لوں گا ۔میرے تمام سرکاری اختیارات مجھ سے چھن جائیں گے ۔اس سب کے باوجود آپ مجھ سے رٹائر منٹ پارٹی چاہتے ہیں۔سماج میں ایسی بھونڈی رسم کا خاتمہ ہونا چایئے‘‘
وفا محل کی باتیں سُن کر اُن کی بیوی اور بچّے اُن سے خفا ہوئے ۔بیوی نے کہا
’’آپ نے روز روز رٹائر تھوڑی ہونا ہے ۔یہ بھی ایک موقع ہے اپنوں اور پرایوں کے ساتھ ملاقات کا‘‘
بیٹے نے کہا
’’پاپا ہر چیز کو نفع ونقصان کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔یہ نہیں سوچتے بغیر رٹائر منٹ پارٹی کے لوگ کیا کیا طعنے دیں گے ۔کیا کیا باتیں کریں گے‘‘
وفا محل کے بہت کچھ سمجھانے کے باوجود اُن کی بیوی اور بچّے اس بات پر اڑے رہے کہ اُن کی رٹائر منٹ پارٹی ہوکے رہے گی ۔وفا محل نے بادل ناخواستہ دلشاد پیلس بُک کرایا ۔پیشگی کے طور پر دلشاد پیلس کے مالک کو پچاس ہزار روپے دیئے ۔اپنی رٹائر منٹ کا کارڈ چھپوانے کے لئے بھیج دیا ۔تقریباً دوسو آدمیوں کو دعوت نامہ بھیجنا طے پایا۔
تیس اکتوبر کو گورنمنٹ ہائی اسکول محراب گڑھ کے اسٹاف ممبران نے وفا محل کو ایک شاندار پارٹی دی ۔تقریباً ہر اسٹاف ممبر نے اُن کے اوصاف بیان کیے ۔ اکتیس اکتوبر کادن وفا محل کے لئے ایک یاد گاری دن تھا ۔اسکول میں تمام بچّے اپنے اپنے ہاتھوں میں پھول لئے ترتیب وار باہر کھڑے اُن کے آفس سے نکلنے کا انتظار کررہے تھے ۔وہ ہر ایک مرد اسٹاف ممبر سے گلے مل رہے تھے ۔سب سے معافی چاہتے تھے۔اُن کے گلے میں روپے اور پھولوں کے ہار پڑے ہوئے تھے لیکن اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی تھیں ۔وہ بڑی حسرت سے اپنے اسکول کے آفس کو دیکھتے ہوئے جونہی باہر نکلے تو بچّوں نے اُن پر پھول برسانے شروع کیے ۔اُن کی ویڈیو بنائی جارہی تھی ۔آٹھویں ،ساتویں اور دسویں جماعت کے طلبہ وطالبات باری باری اُن کے گلے لگ کے رورہے تھے۔اُنھوں نے سب بچّوں کی طرف اپنا الوداعی ہاتھ لہرایا اور گاڑی میں سوار ہوکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیدھے دلشاد پیلس پہنچ گئے ۔دلشاد پیلس وفا محل کی رٹائر منٹ پارٹی کے لئے خاصا دلکش بنایا گیا
تھا۔اُن کو ہر شخص مبار ک باد دے رہا تھا ۔کھانے پینے کے اسٹال ترتیب وار لگے ہوئے تھے ۔اُن کی اہلیہ ،اُن کے بچّے اور اُن کے خاندان والے اور بہت سارے لوگ وہاں موجود تھے ۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وفا محل کو ایک بار پھر دُلہا بننے کا موقع ملا ہو۔کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد وفا محل کے چند دوستوں اور اُن کے بچّوں
نے انھیں ہنستا مسکراتا دیکھنے کے لئے ڈیک پر آنند بخشی کا لکھا فلم ’’جینے کی راہ ‘‘کا یہ گیت لگایا
آنے سے اُس کے آئے بہار
جانے سے اُس کے جائے بہار
بڑی مستانی ہے میری محبوبہ
میری زندگانی ہے میری محبوبہ
اس گیت کی دُھن پر وفا محل کے کچھ ساتھیوں نے انھیں اپنے ساتھ ناچنے پر مجبور کیا ۔دیکھتے دیکھتے وفا محل کی بیوی آسیہ کو بھی کچھ عورتوں نے اُن کے ساتھ ناچنے پر تیار کیا ۔کچھ ہی وقت کے بعد وفا محل کی رٹائر منٹ پارٹی اختتام کو پہنچی ۔ہر چیر سمیٹ دی گئی ۔اپنے اور پرائے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔آخر پر جب دلشاد پیلس کے مالک نے وفا محل کے سامنے ایک لاکھ تیس ہزار روپے کی ادائیگی کے لئے بل رکھا تو وفا محل نے اپنے موبائل فون سے بل چکا دیا ۔لیکن اُنھیں بل چکاتے ہوئے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے انھیں اپنے اور پرایوں نے تابوت میں رکھ دیا ہو!

سابق صدر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532