اَذیتوں کا سفر

اُس کی حیثیت گھر میں رکھے ہوئے جاڑو کی مانند ہوگئی تھی،جس کی ضرورت تو سب کو پڑتی ہے مگر کام نکلتے ہی گھر کے کونوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے محسوس کررہی تھی کہ اس کا وجود اب سسرالیوں کے لئے بوجھ جیسا ہو۔ وہ ان کے بیٹے کی بیوی نہ ہوکے گھر میں رکھا ہوا کوئی اضافی سامان ہو ۔ دو وقت کی روٹی کے لئے دن بھر نوکروں کی طرح کام کرتی اور بدلے میں اُسے کیا ملتا ،کڑے تیوروں کی تپش ،کڑوے بول اور ناقابلِ سماعت القاب ۔آخر کیا قصور تھا اُس کا ،؟کیا غلطی کی تھی کہ جو اذیتوں کا سفر طویل تر ہوتا جارہا تھا؟ ۔ 
’’یہ آپ کیا بھابی کو ہمیشہ کوستی رہتی ہیں امی‘‘؟۔رانیہ دُکھی لہجے میں ماں سے بولی
’’کوسوں نہ تو کیا کروں،اری میرا کلیجہ جلتا ہے ،منحوس کہیں کی،میرے لختِ جگر کو کھاگئی ،، ماں غصے سے بولی
’’ماں موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں  ہے ،اِس میں بھابی بیچاری کا کیا قصور ؟تمہارا اگر بیٹا مرا ہے تو وہ بدنصیب بھی تو جوانی میں بیوہ ہوئی ہے ۔اپنے یتیم بچے کو دیکھ دیکھ کر وہ دن میں ہزار بار مرتی ہے اور دوسری طرف آپ کی باتوں نے بھابی کا کلیجہ چھلنی کردیا ہے ۔پلیز ماں بھابی کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا کرو۔اگر بھابی کی جگہ میں ہوتی پھر ؟‘‘
بس بس رہنے دے اپنا  لیکچر ،تُو تو اسی کی سکھی ہے ۔وہ بیزاری سے بولی۔
رانیہ ماں کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی مگر ماں کی زبان نہ باز آنی تھی نہ آئی، بیٹے کی موت کا الزام بہو کو دیتی، روز لفظوں کے تیر چلاکر بیچاری حمیدہ کا دل چھلنی کردیتی ۔حمیدہ اپنے بچے کی خاطر سب کچھ جھیل رہی تھی ۔اسکے والدین نے اسے کہا بھی کہ بچے کو ان کے حوالے کرو اور یہاں آجاؤ ،تمہارے سامنے پہاڑ جیسی زندگی پڑی ہے ،شادی کرلو،مگر اس نے نہ مانی ۔اُسے اپنے مرحوم شوہر سے بےپناہ محبت تھی ،موت نے جدا تو کردیا تھا مگر پیار تو کبھی جدا نہیں ہوتا دل سے ۔اس نے اپنے یتیم بچے کو سینے سے لگالیا ،ساس کی کڑوی باتیں سنتی رہتی مگر سسرال کا در نہ چھوڑا ۔ساس نے اسے جی بھر کے کوسا ،وہ اپنے جواں سال بیٹے کی موت کا زمہ دار اسے ہی ٹھہراتی تھی ۔شادی کو تین ہی سال ہوئے تھے کہ وہ موت کے منہ میں چلا گیا ۔صبح سویرے گھر سے بیوی اور بچے کے لئے کچھ ضروری سامان لینے کے لئے بازار گیا تھا کہ  ایک تیز رفتار گاڑی نے اس کی سانسیں چھین لی۔لاش جب گھر پہنچ تو اک قیامت برپا ہوگئی ۔حمیدہ کو کوئی ہوش نہ رہا ۔سوچنے ،سمجھنے اور سننے کی صلاحیت مفلوج ہوکر رہ گئی ،خود کو اور اپنے شیرخوار بچے کو فراموش کر بیٹھی مگر کب تک وہ اس طرح پڑی رہتی۔یہ دنیا والے اپنوں کی موت پر رونے بھی تو نہیں دیتے ،طعنوں سے جینا حرام کردیتے ہیں ۔ساس اور ساس کی بہنیں نہ جانےکیا کیا کہہ رہیں تھیں ۔وہ دُکھ سے نڈھال ساری باتیں سہتی رہی ،اسے اپنے بچے کا خیال آیا تو کچھ ہوش آیا ۔اس کی زندگی بہت تلخ ہوگئی تھی ،اک طرف طعنے ،اک طرف شوہر کی موت کا غم اک طرف اپنے یتیم بچے کو دیکھ کر اُس کے دل میں ہول اٹھتے ۔یہ دنیا کیا سے کیا نہیں سِکھا دیتی ۔اس نے اپنے اندر کی اُجڑی ہوئی دُنیا کو وہی چھوڑا اور اپنے کرچی کرچی  وجود کو سنبھالا اور بچے کی طرف دھیان دینے لگی ۔دن بھر  نوکروں کی طرح کام کرتی مگر بدلے میں وہی دل جلانے والے جملے۔ دن بھر گھر کا سارا کام کرتی اور رات تنہائی میں خوب اپنی بدقسمتی پر روتی ۔اس کی نند رانیہ ہی اس کی ہمدرد تھی ،باقی سب تو جیسے اسکی ساس کی زبان بولتے تھے اوراسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔رانیہ اور چھوٹے دیور ارسلان کی شادی ایک ہی دن ہوئی۔ رانیہ گئی تو اس کی دیورانی شبنم گھر آگئی۔ اس نے سوچا وہ اچھی ہوگی مگر وہ تو اس کی ساس کی بھانجی تھی ۔اس نے جب دیکھا خالہ یہ سب کرتی ہے اس نے بھی اسے دُکھ دینے میں کوئی کثر نہ چھوڑی ۔وہ سب کُچھ برداشت کرتی رہی اپنے بچے کی خاطر ۔وہ سوچتی تھی کہ لاکھ ظلم سہی مگر سر پر چھت تو ہے اور اس کا بیٹا اپنوں کے ساتھ تو ہے ۔اس کے ساتھ لاکھ برا سلوک مگر اس کا بیٹا تو انکے بیٹا کا خون ہے، اس لئے وہ اسے عزیز رکھتے تھے ۔وہ یہی دیکھ کر خوش تھی کہ چلو اس کے بیٹے کو پیار بھی مل رہا ہے اور دادا زمہ داری بھی نبھا رہا ہے ۔
رانیہ جب میکے آئی تو بھابھی کو اور بھی بری حالت میں دیکھا ،اسے سمجھ آگیا کہ چھوٹی بھابھی اور ماں مل کر اب ظلم کرتے ہیں ۔
’’بھابی آپ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ ،وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہو بولی۔
’’ہاں رانی ٹھیک تو ہوں‘‘۔وہ اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو میلے آنچل سے پوچھتے ہوئے بولی-
رانیہ کا دل کٹ کر رہ گیا تھا بھابی کی یہ حالت دیکھ کر۔
’’کاش کہ آج بھیا زندہ ہوتے تو بھابی کی یہ حالت نہ ہوتی “وہ دُکھی دل سے سوچ رہی تھی۔‘‘
اُس نے پھر ماں کو سمجھایا 
’’ماں یہ کیا حالت کر رکھی ہے بھابی کی کہ آپ لوگوں نے؟ ،نوکرانی سےبھی  بدتر حالت ہے اس کی ۔چھوٹی بھابھی کو بھی کام دیا کرو ،آخر بھابھی کب تک سب کچھ سنبھالتی رہے گی ،وہ بھی تو انساں ہے آخر ،اسے بھی تو آرام کی ضرورت ہے ،، 
اس کی ساری باتیں چھوٹی بھابھی نے سن لی اور غصے سے بولی’’دیکھ رانیہ یہاں آتی ہے تو سو بار آو مگر ہمارے گھر کے معاملات  میں دخل اندازی نہ کرو ۔، وہ بھابی کی باتیں سن کر دُکھی سی ہوگئی ،اس کی ساس کو بھی اس کا یہ انداز اچھا نہ لگا ۔
’’کیوں نہ کروں دخل اندازی ،میرا مائیکہ ہے اور تم کون ہوتی ہو یہ سب کہنے والی ۔ویسے بھی میں اپنی ماں سے بات کررہی تھی تمہارے منہ نہیں لگی کہ تم بدتمیزی کرو،، رانیہ کے یہ کہتے ہی چھوٹی بھابھی کے تن بدن میں آگ لگ گئی ،بس پھر کیا تھا جو بھی منہ میں آیا سو بکتی چلی گئی ۔۔اب ساس صاحبہ کو سمجھ آئی کہ یہ جو ظاہراً اتنی میٹھی بنی پھرتی ہے اندر سےکس قدر زہر بھرا ہے ۔ اس  واقعہ کے بعد ساس کا رویہ بڑی بہو کے ساتھ تھوڑا ٹھیک ہوگیا ۔ چھوٹی بہو، جو ہر کام سے بھاگتی تھی، کو اب تھوڑا سا کام کیا کرنا پڑا ساس کو اپنے رنگ دِکھانے لگی ،بس پھر کیا تھا ،ایک دفعہ ایسا جگھڑا کیا کہ دوسرے دن مائیکے والوں کو بلا کر الگ بیٹھ گئی۔ ساس کو دن بہ دن احساس ہورہا تھا کہ اس نے بڑی بہو کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔جب بیٹا زندہ تھا تب بھی اس نے کبھی اُف تک نہ کی اور بیٹے کے جانے کے بعد بھی اس نے ساس سسر کا خیال رکھا ۔ یہ باتیں اب ساس اور سسر اب سمجھ گئے تھے -وہ اس کے یتیم بیٹے کو سینے سے لگائے رکھتے ۔وقت گزرتا گیا ،وہ صبر کی سوئی سے اپنی زندگی  کی پھٹی چادر کو حوصلہ سے پیوند لگاتی رہی ۔اس کا بیٹا اب سکول سے کالج پہنچ چکا تھا ۔وہ بیٹے کو دیکھ کر خوش ہوتی، پچھلی زندگی کو جو کبھی مڑ کر دیکھتی تو کتنے زخموں کے ٹانکے کُھل جاتے تھے ۔اذیتوں کا سفر طے کرتے کرتے صرف اس کے پاؤں میں ہی چھالے نہیں پڑے تھے بلکہ اس کی تو روح کے بھی آبلے ہمیشہ پھٹنے کو تیار  تھے ،دل تھا کہ چھلنی چھلنی ۔مگر وہ اس خیال سے پھر اَدھ کُھلے زخموں کو سِینے لگ جاتی کہ اب بیٹا جوان ہوگیا ہے ،میرا سہارا ہے مجھے بھلا کیا ٹینشن ۔
بیٹے نے پڑھائی مکمّل کی تو اپنی قابلیت سے اک اچھی جگہ نوکری بھی مل گئی۔جس دن بیٹے کو نوکری ملی تو وہ بے انتہا خوش ہوئی مگر اکثر خوشی کے آتے ہی پرانے سارے غم یاد آنے لگتے ہیں اور زخموں کے مصنوعی کھرنڈ بھی اُٹھ جاتے ہیں اور کمبخت چند زخموں کے مُنہ بھی کُھل جاتے ہیں۔
کاش اس کے پاپا زندہ ہوتے ،،وہ آنسوؤں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے سوچنے لگی۔اپنے من کے اندر جھانکا تو پچیس سال پہلے من کی اُجڑی ہوئی دنیا ویسے ہی بِکھری پڑی تھی ۔دل کا ہر کونا زخمی تھا ، زخم رس رہے تھے ،خوابوں کی کرچیاں ہر جا پڑی ہوئیں تھیں ۔کس قدر اذیتوں کا سفر طے کیا تھا اُس نے ۔اب تو اس کے پاؤں بھی تھک چکے تھے اور وہ کرب کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے وقت سے پہلے ہی بوڑھی اور نڈھال ہوچکی تھی –
بیٹے کو نوکری کرتے ہوئے چند مہینے گزرے تو اُس نے بیٹے سے کہا کہ اب شادی کرلے ۔ اب اِن بوڑھے ہاتھوں میں اتنی سکت نہیں رہی کہ گھر سنبھالے ۔
’’بیٹا اب تم شادی کرلو ۔میں بھی جیتے جی تیری خوشی دیکھ لوں ،اک ہی تو بیٹا ہے میرا ،،
’’ماں ،اس بارے میں مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹا بول نا کیا ضروری بات ؟‘‘
’’وہ ۔۔۔۔میرے ساتھ ہی ایک لڑکی کام کرتی ہے ،بہت اچھی ہے ،ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کے گھر رشتہ لےکر جائیں۔‘‘
وہ سر جھکاتے ہوئے بولا ۔
چند دنوں کے بعد وہ بیٹے کی فرمائش پر رشتہ لےکر گئی اور رشتہ طے کر آئی ۔ دونوں ماں بیٹا بہت خوش تھے ۔  
"بیٹا ساری تیاریاں مکمّل ہوگئیں نا؟ وہ بار بار اک ہی سوال بیٹے سے پوچھتی
،ہاں ماں سب تیاریاں مکمّل ہوگئیں ہیں ،آپ اتنا فکر کیوں کرتی ہیں ؟ 
بیٹے کی شادی پر وہ بہت خوش تھی ۔وہ خود  کو ایک کامیاب عورت سمجھ رہی تھی کہ اس نے ماں اور باپ دونوں بن کر بیٹے کو پالا پوسا، پیار دیا ،اسے پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکا ۔ اس کی ساری زندگی کانٹوں پر گزری تھی ۔تنہائیوں اور اذیتوں کا سفر کرتے کرتے وہ نڈھال ہوکر رہ گئی تھی ۔بیٹے کی شادی کے بعد اس نے سوچا کہ بس اب تکلیفیں ختم ہوجائیں گی ،اب سُکھ ہی سکھ ہوں گے مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ وہ دن بہ دن محسوس کررہی تھی کہ بوڑھی ساس کا وجود اس کی بہو کو زہر لگتا ہے ۔ اس نے جب سے بہو کو فون پر اپنی ماں سے یہ کہتے ہوئے سنا تھا تو اسے بہت دُکھ ہوا تھا ۔
بہو فون پر ماں سے کہہ رہی تھی 
”ہاں ماں سب ٹھیک ہے ۔بس اس  بڑھیا نے جینا حرام کر رکھاہے ،آئے دن بیمار رہتی ہے ،اب کون اس کی خدمتیں کرے ۔دعا کرو کہ جلد ہی مٹی کی چادر اوڑھ لے “ 
بہو کی باتیں سُن کر وہ حیران رہ گئی ،خدمت تو وہ بیچاری بہو کی کررہی تھی ۔ فجر سے لے کر رات گیارہ بجے تک بوڑھا وجود مشین کی طرح کام کرتا رہتا ۔بیٹا ماں کی یہ حالت دیکھ کر بھی بُت بنا بیٹھا رہتا ،جیسے ماں سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ  اور بہو ناک بھویں چڑھا کر بیٹھی رہتی ۔
ایک شام جب بہو اور بیٹا آفس سے واپس آئے تو اس کی طبیعت بہت خراب تھی مگر بہو اور بیٹے نے کوئی توجہ نہ دی ۔رات کو  وہ بھوکی ہی سو گئی مگر ان دونوں میاں بیوی نے پوچھنا بھی گوارا نہ کیا ،کہ آخر ماں نے کھانا کیوں نہیں کھایا ؟ کیا اس کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟صبح جب بیٹا اُسے جگانے گیا تو وہ آنکھیں بند کرکے گہری نیند سو چکی  تھی اور اذیتوں کا طویل سفر آنکھیں بند ہوتے ہی ہمیشہ کے  لئے ختم ہوگیا  تھا ۔
���
چک سید پورہ شوپیان، کشمیر