اولاد پر والدین کی اطاعت لازم فہم وفراست

عذراء زمرود
والدین کے ساتھ حسن سلوک کے احکام قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ ’’اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنا(پیداکیا) اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا30 مہینہ میں۔‘‘(الاحقاف15)
اولاد کے لیے اگرچہ والد اور والدہ دونوں قابل احترام ہیں اور دونوں ہی ان کے حسن سلوک کے مستحق ہیں لیکن بچے کی پیدائش اور پرورش میں ماں کی مشقت اور ذمہ داری چونکہ زیادہ ہے، اس لیے اولاد کی طرف سے خدمت اور حسن سلوک کے حوالے سے اس کا حق بھی فائق ہے۔ چناچہ سورة لقمان میں ماں کے خصوصی حق کا ذکر یوں فرمایا گیا : (ترجمہ)’’ اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کے بارے میں ‘ اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں کمزوری پر کمزوری جھیل کر ‘ پھر اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں۔‘‘
والدہ کے خصوصی حق کی وضاحت ایک حدیث میں بھی ملتی ہے۔ ایک صحابی ؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا : یا رسول اللہؐ ! میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر مستحق کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  ’’تمہاری والدہ‘‘۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  ’’ تمہاری والدہ‘‘۔ یہ سوال انہوں نے چار مرتبہ دہرایا۔ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا : ’’تمہاری والدہ‘‘ جبکہ چوتھی مرتبہ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ پھر تمہارا والد‘‘ ۔
’’ اس کی ماں نے اسے اٹھائے رکھا پیٹ میں تکلیف جھیل کر اور اسے جنا تکلیف کے ساتھ‘‘۔ ’’ اور اس کا یہ حمل اور دودھ چھڑانا ہے لگ بھگ تیس مہینے میں‘‘۔
 ان دو جملوں میں ان تمام اضافی تکالیف اور مشقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جو والد کے مقابلے میں صرف والدہ کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ بچے کی پیدائش اور پرورش میں والد بالواسطہ طور پر حصہ لیتا ہے جبکہ والدہ اس پورے عمل میں براہ راست کردار ادا کرتی ہے۔ دورانِ حمل کی گونا گوں پریشانیوں ‘ وضع حمل کی جان لیوا تکلیفوں اور رضاعت و پرورش کی صبر آزما مشقتوں کو وہ تن تنہا جھیلتی ہے۔اسی بنا پر ماں گھر کی سجاوٹ کا ایک اہم اور بنیادی ڈھانچہ ہے۔ماں اس کائنات کے سب سے اچھے، سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو سب سے خوبصورت تخلیق کی، وہ ماں باپ ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا،بالخصوص ماں جیسی ہستی کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔’’ماں‘‘ ایک ایسا لفظ، جو ناقابل تسخیر محبت و الفت کا حسین شاہکار ہے۔ غرض ہمدردی وشفقت کا روشن مینار ہے ، ایثار وقربانی کا انمول احساس اور دل چسپی و دل بستگی کا ہر سامان پوری فراوانی کے ساتھ اس طرح جلوہ گر ہے کہ دنیا کی ہر طاقت و قوت، ہر چاہت و الفت اس کے آگے کھلم کھلا ہے۔ ماں گھر کی سلطنت کا اہم ستون ہے۔ماں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک عظیم تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔اسلام میں اولاد کو پوری زندگی، ماں کے تقدس، اس کی عظمت کے اظہار اور خدمت واطاعت کے لئے وقف کرنے کی تاکید کی ہے۔ لہٰذا اگر دیکھا جائے گا،انسانیت کے لئے اس زمین پر سب سے خوبصورت رشتہ ماں کا ہے، وہ ماں جو انسان کی تخلیق کا سبب ہے۔ انسان کے لئے اس زمین پر سب سے خوبصورت، حسین اور عظیم رشتہ ماں کا ہے، وہ ماں جو نو ماہ تک بچے کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے۔ بچے نے اس دنیا کو نہیں دیکھا ہوتا، لیکن ماں کی محبت کے معصوم احساس کی وجہ سے بچہ دنیا سے اپنا ایک لاشعوری تعلق پیدا کر لیتا ہے، ماں نو ماہ تک بچے کے بارے میں سوچتی رہتی ہے کہ وہ کیسا ہوگا، وہ کس قدر حسین اور دلکش ہوگا، وہ کتنا معصوم ہوگا، وہ کھلتےجیسا ہوگا، ماں اس گلاب کی خوشبو سے معطر رہتی ہے۔ اسی دوران وہ گھر کے کام بھی کرتی رہتی ہے، وہ دنیاوی ہر مشکلات بھی برداشت کرتی ہے، وہ اپنا بھی صرف اس لئے خیال رکھتی ہے کہ کہیں اس کے بچے کو تکلیف نہ ہو، وہ حمل کے دوران موٹی اور بھدی ہوجاتی ہے، مگر اسے اس بات کی بھی فکر نہیں ہوتی، اس کی سوچ کا محور وہ حسین پھول ہوتا ہے جو ابھی اس کے پیٹ میں ہے اور تخلیق کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ جب بچہ ماں کی کوکھ میں ہے، اس مرحلے کے دوران وہ شوہر کے حقوق کا خیال بھی رکھ رہی ہوتی ہے، چاہے شوہر کو اس کی تکلیف کا اندازہ ہو یا نہ ہو، وہ درد سہتی ہے، یہ درد اسے حسین تحفے جیسا محسوس ہوتا ہے، ان نو ماہ کے دوران اس میں بہت ساری جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں، بچے کی پیدائش کے آخری دنوں میں اس میں چڑچڑا پن آجاتا ہے، اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتی ہے کہ کہیں اس کے اس رویے اور پریشانی سے بچہ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، ان تمام تکالیف کے بعد وہ اس حسین زمین پر ایک نئے اور دلفریب پھول کو جنم دیتی ہے۔ یہ لمحہ ماں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے، لیکن یہی وہ لمحہ ہے جب بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنا سارا درد اور تکلیف بھول جاتی ہے، بچے کی پیدائش کے بعد جب وہ پہلی نظر اس پر ڈالتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا انسان کے بچے کو دیکھ کر خوش ہورہا ہو، بچہ بھی ماں کی پہلی نظر کا منتظر ہوتا ہے، ماں کو دیکھتے ہی وہ دنیا کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ بکھیرتا ہے اور ساری کائنات کھکھلا اٹھتی ہے۔اب دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے وہ یہ کہ ماں بچے کی پیدائش کے بعد جو احساس محسوس کرتی ہے، وہ احساس اس دنیا کی زندگی ہے، بچے کے ساتھ ماں کی شرارتیں، اس کا مسکرانا اور ماں کا کھلکھلانا، اس کا رونا اور ماں کا اسے فوری دودھ سے نوازنا، معصوم سے بچے کی آنکھوں، کانوں، ٹانگوں اور ہونٹوں کو جب ماں چومتی ہے، تو پہلی دفعہ وہ عورت ہونے پر فخر کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے دیکھو اللہ تعالیٰ نے مجھ میں کیسی زندگی تخلیق کی ہے، اس کی یہ ادا دنیا کے لئے یہ پیغام ہوتا ہے کہ وہ ایک حقیقی تخلیق کا ذریعہ ہے۔ ماں اپنی تخلیق سے دنیا کو جنت بنا دیتی ہے، اس لئے تو کہتے ہیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ بچے اور ماں کا رشتہ اس کائنات کا حقیقی حسن ہے۔بہرحال یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں حاملہ خواتین کے لئے خصوصی انتظامات کیے جائیں تاکہ وہ کم سے کم تکلیف کا شکار ہوں۔ ڈاکٹروں کو اپنا رویہ حاملہ خواتین سے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، ڈاکٹروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ بھی کسی نہ کسی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ماں جنت کو جاننے، ماننے اور حاصل کرنے کا ایک حقیقی اور سچا راستہ ہے۔ ماں، جس کا احساس انسان کی آخری سانس تک چلتا رہتا ہے۔ ماں، ایک ایسا پھول ہے جس کی مہک کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ماں، ایک سمندر ہے جس کا پانی اپنی سطح سے بڑھ تو ہو سکتا ہے ۔مگر کبھی کم نہیں ہو سکتا۔ ماںایک ایسی دولت ہے جس کو پانے کے بعد انسان مشکور ہو جاتا ہے۔ ماںایک ایسی دوست جو کبھی بیوفائی نہیں کرتی۔ ماں ایک ایسا وعدہ جو کبھی ٹوٹتا نہیں۔ ماں ایک ایسا خواب جو ایک تعبیر بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ ماں ایک ایسی محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ وقت وقت کے ساتھ ساتھ یہ اور بڑھتی رہتی ہے۔ ماں ایک ایسی پرچھائیں جو ہر مصیبت سے ہمیں بچانے کے لیے ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ ماں ایک ایسی پرچھائی جو ہمارے ساتھ بمشکل دعا رہتی ہے۔ ماں ایک دُعا جو ہر کسی کی لب پر ہر وقت رہتی ہے۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ سورہ اسراء میں یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’اور جھکائے رکھو ان کے سامنے اپنے بازو عاجزی اور نیاز مندی سے اور دعا کرتے رہو : اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا‘‘۔
جب بھی اپنے والدین کے سامنے آؤ تو تمہاری چال ڈھال اور گفتگو کے انداز سے عاجزی و انکساری اور ادب و احترام کا اظہار ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور ہر وقت ان کے لیے دعا گو رہنا چاہیے کہ اے اللہ جب میں ضعیف کمزور اور محتاج تھا تو انہوں نے میری غذا میرے آرام اور میری دوسری ضروریات کا انتظام کیا۔ میری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا اور میرے لیے اپنے آرام و آرائش کو قربان کیا۔ اب میں تو ان کے ان احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اس لیے میں تجھی سے درخواست کرتا ہوں کہ تو ان پر رحم فرما اور اپنی خصوصی شفقت اور مہربانی سے ان کی خطاؤں کو معاف فرما دے ۔آمین