انسان ،شرفِ انسانیت سے دُور کیوں ہورہا ہے؟ محنت ،صبر اور استقلال سے ہی انسانیت کی تکمیل ہوتی ہے

سید سرفراز احمد

اللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ایک کے بعد دیگر انبیاء کا نزول فرمایا تاکہ وہ دنیا میں اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلائیں،نیکیوں کا راستہ دکھائیں اور گناہوں سے روکیں۔یہی تسلسل نبی آخر الزماںؐ تک پہنچا اور آپؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق اہل ِمکہ کو نیکی کی طرف بلایا ،بُرائیوں سے روکا، ایک انتہائی پراگندہ ماحول کو آپؐ نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنی سیرت اورحُسن ِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکیزہ بنایا۔ جس مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو دنیا میں بھیجا تھا، اسکا سلسلہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیاءکی بعثت کے سلسلہ پر روک لگاکر وہ مشن ،جو انبیاء کاتھا ، اُمت مسلمہ کو سونپ دیا۔ اُمتِ مسلمہ کی بعثت کا مقصد بھی قرآن کے حوالے سےیہی ہے کہ وہ دُنیا میں بھلائی کو فروغ دیں، برائی کا خاتمہ کریں اور لوگوں کی اصلاح کریں۔ کیونکہ اسی اُمت کو قرآن نے خیرِ اُمّت کہہ کرپکارا ہے ۔اس لئےاس کام کی انجام دہی امّت مسلمہ کے لئے لازم و ملزوم ہے، چاہے انفرادی زندگی میں ہو یا اجتماعی زندگی میں ۔اگر یہ کام بھی امت مسلمہ نہیں کرتی تو روز محشر میں اللہ کے حضور پیش ہوکر اس کا حساب دیناہو گا، جسکی مثال قرآن نے دی ہےکہ اہل ِ کتاب یعنی یہودی و نصاریٰ قوم کو اس لئےاُٹھالیا گیا ، کہ وہ ایکدوسرے کو بُرائی سے نہیں روکتے تھے۔ آج اُمّت ِ مسلمہ کو اپنا جائزہ لینا و احتساب کرنا ہوگا کہ جس کام کیلئے مجھے بھیجا گیا تھا، کیا میں اُس کام کو ادا کررہا ہوںیا جس بُرائی سے معاشرے کو بچانا تھا، کیا میں اُسے بچا رہا ہوں یا کہیں میں خود اُس بُرائی میں ملوث تو نہیں،جو معاشرے کے لئے خرابی ثابت ہوگی؟ موجودہ مسلم معاشرے میں ایسے کئی سوالات کے جوابات کوڈھونڈنےکی کوشش کریںتو بخوبی اندازہ ہوگا کہ اس وقت اُمّت ِ مسلمہ کا وجود کس موڑ پر ہے۔ ـ
بلا شُبہ جس مسلمان کو اپنی ابدی زندگی کی فکر لاحق نہ ہو، وہ مادہ پرست اور دنیا پرست بن جاتا ہے۔ وہ دولت و شہرت کو ہی فوقیت دیتا ہےاور اُسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے، اس کیلئے وہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے دو ڈھائی سالہ دور میں دنیا نے ایک ایسا منفرد خوفناک وقت بھی دیکھا، جس میں تقریباًہر کسی کی زندگی میں پہلی بارموقع موقعہ آیا ہوگا کہ وہ کورونا جیسی وبائی قہر کی مہاماری سے متا ثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ دنیا بھر میں بغیر رنگ و نسل ،ذات پات اور دین و مذہب بے شمار خاندانوں نے اپنے رشتہ دار اوراحبا ب و اقرباء کھودیئے۔ کسی کی بیوی کسی کا باپ،کسی کی بیٹی کسی کا بیٹا، کسی کی بہن کسی کا بھائی ،کسی کا ہمسایہ ،کسی کا مالک کسی کا نوکرپلک جھپکتے ہمیشہ کے لئےایک دوسرے سے جدا ہوگئے،بلکہ بعض خاندانوں کے تین تین چار چار افراد مختصر اوقات میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ یقیناً یہ ایک انتہائی درد ناک وعبرت ناک صورت ِ حالت تھی۔لیکن اس کے باوجودیہ امرافسوس ناک ہے کہ آج بھی جب ہم مسلم معاشرے پر نظر ڈالتے ہیںتو اس میں ظلم و جبر و غارت گیری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، شوہر بیوی کو بچوں سمیت مارکر خود خودکشی کرلیتا ہے، خاندانی دشمنی کو سرِ عام لاکر قیمتی جانوں کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ کہیں معمولی باتوں پر جھگڑے کی ابتدا ہوجاتی ہے اور اختتام قتل گری تک جا پہنچتا ہے، کہیںکسی معمولی رقم پر انسانی جان تلف ہوجاتی ہے۔ آئے دن ہمارے ملک ہندوستان میں بالخصوص اُمّت ِمسلمہ کے اندر جو لادینیت دیکھنے کو مل رہی ہے، اس سے آنکھیں شرمسار ہوجاتی ہیں ۔ مومنین کیلئے قرآن نے جن صفات کا تذکرہ کیا ہے، اِس دور کے مسلمان ان صفات سے بالکل عاری ہوچکے ہیں ۔ جو مسلم معاشرے کبھی جرائم سے صاف و پاک تھے ،آج بُرائیوں اور خرابیوں کے دلدل بنے ہوئے ہیں،جس اُمت ِ مسلمہ کی دنیا بھر میں ایک منفرد شناخت تھی اور جس ملت دنیا بھر میں پسند کیا جاتا تھا،آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔جہاں کہیں بھی اُمت مسلمہ پر نظر ڈالی جائےتووہاںکوئی دن ایسا نہیں گذر رتا، جس دن جرائم کی وارداتیں نہیں ہوتیںاور قتل جیسے واقعات رونما نہیں ہوتے۔ تعجب ہے کہ اُمت ِ مسلمہ اتنی بے حس کیوں ہوچکی ہے؟ انسانیت کو سیدھی راہ دکھانے والی اُمّت، بھٹکتی راہ کا مسافر کیوں بن گئی ہے؟طلاق میں اضافے،سوشیل میڈیا پر فحش کلامیاں، جائداد و املاک کے معاملات پر ایک دوسرے کے خلاف پولیس اسٹیشنوں میں ایف آئی آر درج کرنے کابڑھتا سلسلہ دن بہ دن آگے بڑھ رہا ہے۔سوشیل میڈیا کو کونسلنگ سنٹر کااڈہ بنالیا گیا ہے، اپنی زندگی کے نجی معاملات اور پوشیدہ رازوں کو کھلے عام فاش کیا جارہا ہے۔سمجھ میں نہیں آتاکہ اس طرح کے طرزِ عمل سےہم دنیا کوکیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ ہم دین ِ اسلام کی کس طرح کی تصویر لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں کہ لوگ دیکھیں کہ اسلام کیا ہے اور اُمت ِ مسلمہ کی حیثیت کیا ہے؟ یقیناً دنیا کے سارے انسان اسلامی کتابوں کا مطالعہ ہرگز نہیں کرتے، زیادہ ترغیر مسلم اسلامی تعلیم نہیں پڑھتے۔وہ اگر پڑھتے ہیںتو مسلمان کو ہی پڑھتے ہیں ۔مسلمان کے کردار کو پڑھتے ہیں، مسلمان کےاطوار کو دیکھتے ہیں، اسکے اخلاق کو دیکھ کر اسلام کو سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں لیکن اُمّتِ مسلمہ کی موجودہ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اسکی زندگی دین کے بڑے مقاصد کے حصول سے تو کوسوں دور ہے ہی ، اس کی زندگی میں بھی دین کی بنیادیں کھوکھلی نظر آرہی ہیں۔ جس قوم کو دنیا کا امام بننا تھا، وہ بڑے بڑے جرائم اورمسائل میں گرفتار ہے، جسے وہ نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اللہ کے غضب کا نشانہ بن بن رہا ہے، پھر بھی اُمتِ مسلمہ بُرائیوں اور گناہوں میں حد سے تجاوز کررہی ہے۔ جس امّت کے نبی کریمؐ کو مشرکین مکہ بھی امین اور صادق کے لقب سے پکارتے تھے ،آج اُسی اُمّت کا بیشتر حصہ بد دیانت ،بے ضمیر ،قاتل اور مقتول بن رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ انسان کو جب ٹھوکر لگتی ہے تو وہ سنبھل کے چلتا ہےاور جب کسی آفت ِالٰہی کا شکار ہوجاتا ہے تو عبرت حاصل کرلیتا ہے، اسکے اندر خوفِ خدا سرائیت کرجاتا ہےاور وہ حقیقی معنوں میں انسان بن جاتا ہے۔
کورونا کے وبائی قہر کی تباہ کاریوں کے دوران علماء و دانشوروں نے اپنے وعظ ونصیحت کے ذریعہ اُمت کو غور و فکر کرنے،خوفِ خدا سے ڈر نے اور آخرت کی فِکر کرنےکی یاد دہانیاں کروائیں، جس سے قوی امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ اس وبائی قہرکی تباہ کاریوںکے بعد اُمتِ مسلمہ ایک نئی پیش رفت اور مثبت تبدیلی کے ساتھ آگے کی سمت بڑھے گی، لیکن ان تباہ کاریوں اور دردناک اموات میں اپنے قریبی اقرباء و احباب کو کھودینے کے بعد بھی معاشرہ بجائے مثبت سمت کی طرف آگے بڑھنے کے منفی سمت کی ہی طرف گامزن ہے، بلکہ اس میںبُرائیاں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ جبکہ ملک میں مسلم لڑکیوں کا مرتد ہو نے کی وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اگرچہ اسطرح کے واقعات کیلئے خودلڑکیاں ذمہ دار ٹھہرائی جاتی ہیں لیکن ان کے والدین اور معاشرے پر اثر انگیز ہونے والے سماجی رابطے، فیس بک و دیگرذرائع کے مطابق مسلم لڑکیوں کی طرف سےاس غیر اسلامی حرکت میںوالدین کی غفلت ،لاپرواہی اور حد سے زیادہ اعتماد اور لاڈ وپیارشامل ہے۔ اللہ کے نبیؐ کا فرمان ہےکہ اولاد کیلئے والدین کا سب سے بہترین تحفہ انکی تعلیم و تربیت ہے،ظاہر ہےایسے واقعات میں اضافہ تربیت کی کمی،دنیا داری اور دین سے بیزاری کا ہی نتیجہ ہے۔ کثرت سے موبائیل فون اور سوشیل میڈیا کے استعمال سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ والدین کی اپنی اولاد پر کتنی کڑی نظر ہے؟ بہر حال ایک اورپہلو پر نظر ڈالتے ہیں، جو انتہائی اہم ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہندو توا آئیڈیالوجی تیزی سے آگے بڑھائی جا رہی ہے لیکن اُمّتِ مسلمہ کا معاشرہ اپنے ہی گھر آنگن میں جکڑا ہوا ہے، اپنے ہی معاشرے کو پراگندہ و تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے تو بھلا وہ منافر قوتوںکے خلاف کیسےآواز بلند کرسکتا ہے،کیونکہ امتِ مسلمہ کی نوجوان نسل طرح طرح کی خرابیوں اور بُرائیوں میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اُمّت کی بیٹیاں منافرطبقوں کےمقاصد کو خود ہی پورا کررہی ہیں ۔کیا یہ تعجب خیز بات نہیں ہے ؟کیا یہ احتساب کا وقت نہیں؟ کیا اُمتِ مسلمہ کو رہنمائوں،مذہبی پیشوائوں اور والدین کو اس صوررتِ حال پر مزید سوچنے کی ضرورت نہیں؟ ایک طرف ملک میں بیشتر مسلم علما جیل میں قید و بند ہیں، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعدا د برسوں سے جیل کی صعوبتیں برادشت کررہی ہے، مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے، مدارس توڑے جارہے ہیں، مسلمانوں کے لئے ملک کی زمین تنگ کردی جارہی ہے، لیکن اُمّت مسلمہ کاوہ طبقہ، یہ سب کچھ دیکھتےہوئے بھی اپنے آپ کی اصلاح کے لئے تیار نہیںاور اپنی شخصیت کو بدلنے کے بجائے بدستور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے،جو کہ پوری اُمت ِمسلمہ کیلئے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے ـ۔
آج بھی اُمّت مسلمہ کے پاس وقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلیں، اپنے گھروں کو اسلامی ماحول میں ڈھالیں۔ ہم جس معاشرے میں زندگی گذار رہے ہیں، اُس میں تبدیلی لائیں، تب ہی ایک صالح سماج کی تشکیل ممکن ہے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تمام دینی جماعتیں تنظیمیں وفاقی طور پر اصلاح معاشرہ کے کام میں تیزی لائیں تاکہ اُمّت ِمسلمہ کے معاشرے کی از سر نو تشکیل ہوسکے۔ اُمّت مسلمہ کو اسکافرضِ منصبی یاد دلائیں، اُس کے دل میںخوفِ خدا اُتاریں۔ اُمّت ِ مسلمہ کا یہ ایمان ہےکہ اسکو مرنے کے بعد اٹھایا بھی جائے گا، اس کا نامہ اعمال پڑھایا جائے گا اور اُسی کے مطابق اُسے جزا اور سزا دی جائے گی،تو پھر کیوں اُمت کے بیٹے اور بیٹیاں اتنی بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں ؟جو دین ِ کامل ہے، آج اُسی کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ اُمّت کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا،اپنے اوقات کا بے جا اسراف نہ کریں بلکہ ان سب کو دین کی کاز کیلئے وقف کریں ۔معاشرے کو بُرائیوں سے پاک بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔یا د رہےکہ یہ دین معاشرے میں کام کرنے کیلئے آیا ہے، گوشوں میں بیٹھ کر کام کرنے کیلئے نہیں ۔ہمیں چاہئےکہ ہم پہلے اپنا جائزہ لیں کہ کیا میں دین کا کام معاشرے میں کررہا ہوں یا نہیں یا پھر میں دین کے کام کو سرے سے ہی منہ موڑ کر بیٹھا ہوں؟ ہمیں چاہئے کہ اپنے قلوب کا بھی جائزہ لیں اور تنہائی میںاپنے ضمیرکو جھنجھوڑ کر خود احتسابی کریں ؟رات کی تنہائی میں اللہ کےحضور خود کو پیش کرکے دیکھیں ،اِن شاء اللہ ہماری زندگی ضرور بدل جائے گی ۔ـ
ظاہر ہے کہ ہمارا دین ِاسلام ایک مکمل دین ہے جو نماز ،روزہ،زکوٰۃ، حج کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر معاملہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، خواہ ہمارا معاملہ کسی بھی طرح کا ہو،باہمی تعلقات کا ہو، لین دین کا ہو، خاندانی نظام کا ہو، معیشت کا ہو، وراثت کا ہو ، جائداد کا ہویا طلاق کا ہو ۔پھر کیوں ہم قرآن کے مطابق اپنی زندگی کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش نہیںکرتے؟ کیوں ہم علماء کی رہنمائی حاصل نہیں کرتے؟ کیوں ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنا نہیں چاہتے ؟علماء کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ مسلمانوں کو قرآن سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دلوائیں، تب ہی ہم معاشرے میں پھیل رہی بُرائیوں کی روک تھام کرسکتے ہیں اور انسنایت کی معراج حاصل کرسکتے ہیں۔ ابھی بھی امت کا ایک بڑا طبقہ اپنے نجی مسائل کو پولیس اسٹیشن اور کورٹ کچہیری تک پہنچاتے رہتےہیں ۔کیا ہم انہی گھریلو معاملات میںاُلجھ کر اس دنیا سے فنا ہو جائیں گے۔ بہر کیف کہنا یہی مقصود ہےکہ ہم اپنی طرز ِزندگی کو بدلیں ،نظام ِزندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالیں،بُرائیوں سے باز آجائیںاور اپنے معاملات کو گھر کی چار دیواری میں حل کریں، تب ہی ہم باطل کی کارستانیوں کو ناکام بنا سکتے ہیں،ورنہ ہمیںدنیامیں اور آخرت میں بھی صرف اور صرف رُسوائی ملے گی۔
[email protected]>