افسانچے ہلال بخاری

احساس

ایک دن ایک شخص ایک راستے سے گذر رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک بزرگ شخص کو بھی اسی راستے پر دوران سفر پایا۔ اس نے دیکھا کہ وہ بزرگ ایک بھاری بوجھ لے کر اپنے گھر کی طرف بہت مشکل سے چلنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اُس سے چلا ہی نہیں جارہا تھا‌۔ وہ بزرگ ضعیف العمر تھا۔ وہ نوجوان شخص اس بزرگ کو جانتا تھا۔ اسکو اس پر رحم آیا۔ مدد کرنے کی غرض سے وہ اس کے پاس گیا اور کہا،

” چچا لاؤ آپکا یہ بوجھ میں آپکے گھر پہنچا دیتا ہوں۔”

وہ بزرگ اپنی کمزور نظروں سے اسے گھورتا رہا۔ وہ اسکو پہچان نہیں پایا۔ اس نوجوان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ بزرگ سماعت بھی کھو چکا ہے۔ اس نے اپنی بات کہنے کے ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر اس بزرگ سے وہ بوجھ لے لیا۔ اس بزرگ کو لگا کہ یہ نوجوان کوئی لٹیرا ہے۔ اگر چہ اس نے کوشش کی کہ اپنے مال کو بچائے لیکن اس نوجوان کی طاقت کے آگے وہ بے بس تھا۔ اس نوجوان کو معلوم تھا کہ اس بزرگ کا گھر کہاں ہے وہ سیدھے بنا مڑے چل دیا۔

وہ بزرگ کچھ دیر بعد چیخنے لگا کہ اس کا مال چھینا گیا ہے مگر نوجوان دور جاچکا تھا اور اس نے کچھ نہ سنا۔ اس راستے کے اردگرد دور دور تک کوئی اور انسان نظر نہ آیا۔

کچھ دیر بعد جب نوجوان اس کے گھر پر اسکا بوجھ رکھ کر اسی راستے سے واپس آیا تو اس بزرگ نے پھر اسے نہیں پہچانا۔ وہ اسے اپنی روداد سنانے لگا کہ کسی شیطان صفت انسان نے اسے لوٹا ہے۔ اس نوجوان نے پوری کوشش کی کہ اس بزرگ کو حقیقت سے آگاہ کرے مگر اس بزرگ کے کان اس لائق نہ تھے کہ وہ حقیقت سن پاتے۔ وہ نوجوان ہاتھوں سے اس کے  گھر کی طرف اشارے کرکے اسے سمجھانے لگا کہ آپکا بوجھ آپکے گھر پہنچ چکا ہے مگر اس اشارے کو دیکھ کر وہ بزرگ اور غمگین ہوا۔ اسکو لگا کہ وہ نوجوان اسے خاموشی سے گھر جانے کی صلاح دے رہا ہے۔ اس نے افسوس کے لہجے میں کہا،

” عجب ہے اب کوئی اس دنیا میں کسی کی مدد کرنے کے بھی قابل نہیں رہا۔” اسکی بے نور آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش برسنے لگی۔ اس نوجوان کو کچھ نہ سمجھ آیا کہ وہ اس بزرگ کو کس طرح سے حقیقت سے آگاہ کرے‌۔

پھر وہ دونوں اپنے اپنے راستے چل دیئے۔ اپنے گھر پہنچ کر جب اس بزرگ کو حقیقت کا احساس ہوا تو اس کو اپنی سوچ پر ہنسی آئی اور رونا بھی۔

اگلے دن جب وہ نوجوان اسی راستے سے پھر گزر رہا تھا تو اس نے پھر سے اسی بزرگ کو دیکھا۔ لیکن اس بزرگ نے پھر سے اس نوجوان کو نہیں پہچانا۔ جب اس نوجوان نے سلام کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا تو اس بزرگ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا،

“کل ایک فرشتہ صفت شخص نے میری مدد کی کاش وہ مجھے مل جائے تاکہ میں اس کا شکریہ ادا کروں۔”

وہ نوجوان یہ سن کر حیران ہوا۔ اس نے سوچا کہ انسان کس طرح اپنی سوچ کے

مطابق کبھی کسی کو شیطان کی طرح دھتکارنے لگتا ہے اور پھر اسی کو فرشتہ جان کر تعظیم کرنے لگتا ہے۔ اسے احساس ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ جو ہم کو محسوس ہو وہی حقیقت ہو۔

 

 

بینائی

ایک نابینا شخص ایک بڑے سائنسدان کا دوست تھا۔ وہ سائنسدان علم فلکیات کا ماہر تھا اور آسمانوں کے بہت سارے خوبصورت اور مخفی اسرار سے واقف تھا۔ ایک دن نابینا شخص کو دیکھ کر وہ مسکرا کر کہنے لگا ،

” کاش تم میری اس عظیم دوربین سے فلک کے دلکش اور دلفریب مناظر دیکھ پاتے۔ تم کو اندازہ ہوتا کہ یہ کائینات کتنی وسیع، منظم اور خوبصورت ہے۔”

اسکے نابینا دوست نے یہ سن کر مسکرا کر جواب دیا،

میرے عزیز،  ظاہر کو دیکھنے اور پرکھنے کے لئے نابینائی بینائی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ لیکن اگر ایک نابینا شخص باطن کے اسرار سے واقف ہو تو اس بینا سے افضل ہے جو باطن کو سرے سے ہی نکارتا ہے۔”

یہ سن کر اس سائنسدان نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا،

” ایک اندھا انسان بلا کس طرح دیکھنے والے سے افضل ہوسکتا ہے ؟”

تو اسکے نابینا دوست نے جواب دیا ،

” اس دنیا کی اصل ایک روح کی طرح ہے جس کو محسوس کرنے کے لئے آنکھوں کی ضرورت نہیں۔ بینائی وہ ہے جو جسم کی خوبصورتی کے بجائے روح کی حقیقت کو دیکھ سکے۔”

سائنسدان اپنے نابینا دوست کی یہ بات سن کر خاموشی سے کچھ سوچنے لگا۔

���

ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ

[email protected]