افسانچے نور شاہ

آخری خط
صرف دو روز قبل میں اپنی عمر کے ستر سال پار چکا ہوں اور جب کبھی میری سوچیں تنہائیوں کے پردے سے باہر آتی ہیں تو پرانے زمانے کی کچھ کچھ کہانیاں آنکھوں کے سامنے خواب بن کر بکھرنے لگتی ہیں اور پھر ناچنے بھی لگتی ہیں۔ دراصل میں ایک پوسٹ مین کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے کئی سال پہلے سبکدوش ہوچکا ہوں۔ گھر گھر کے دروازوں پر دستک دیتا اور ڈاک تقسیم کرنا میری واحد لیکن اہم ذمہ داری تھی اور میں یہ ذمہ داری مخلصانہ انداز میں ایمانداری کے ساتھ نبھاتا رہا۔ شاید اسی وجہ سے میرے ہر حلقے، ہر علاقے، ہر بستی کے لوگ میری کارکردگی سے مطمئن نظر آتے تھے اور ہمیشہ ہنستے مسکراتے مجھ سے ملتے تھے اور اپنے گھر کے دروازوں پر میرا استقبال کرتے تھے۔ میری خیرخیریت دریافت کرتے تھے جیسے میں اُن میں سے ایک ہوں۔ کبھی کبھی کسی تہوار پر مجھے انعام سے بھی نوازتے تھے۔ اپنے ساتھ کھانا کھلاتے تھے۔ اپنی ملازمت کے دوران میں محبت نامے بانٹتا رہا۔ ایک دوسرے کے دُکھ سکھ اُن کے خطوط کی وساطت سے بانٹتا رہا اور جب شام کو خالی بیگ لے کر اپنے گھر کے اندر قدم رکھتا تو میرا ذہن پُرسکون ہوتا۔ اَن دیکھے سپنوں سے مالا مال ہوتا، لیکن ایک خلش ایک تشنگی ضرور میری سوچوں میں ایک کیڑے کی طرح رینگتی رہتی۔ اس خلش، اس تشنگی سے میں واقف تھا بخوبی واقف تھا۔
میں غیر شادی شدہ تھا!
تنہا تھا، اکیلا تھا..!!
اور اب زندگی کے اس موڑ پر اپنی زندگی کی ایک کہانی یاد آرہی ہے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد میرا بیگ میرے کسی کام کا نہ رہا تھا۔ وہ بیگ محبت ناموں کے دُکھ سکھ کی داستانوں سے بھرا رہتا تھا اب خالی ہو چکا تھا۔ بالکل خالی!
ایک شام جانے کیا تلاش کرتے کرتے وہ بیگ میری نظروں کے سامنے آگیا۔ میں نے بیگ کو ہاتھ میں لیا اور گردوغبار صاف کر کے اپنے سینے سے لگایا۔ مجھے محسوس ہوا کہ بیگ کے اندر کچھ پڑا ہے۔ میں نے بیگ کھول کر دیکھا ایک خط تھا۔ افسوس ہونے لگا کہ نہ جانے کس کا خط بیگ میں ہی رہ گیا ہے۔ لیکن لفافے پر اپنا نام دیکھ کر حیران ہوا تشنگی بڑھ گئی۔ لفافہ کھولا تو لکھا تھا۔
پوسٹ مین صاحب۔۔۔۔!
’’میں جانتی ہوں کہ آپ آج ہی ملازمت سے سبکدوش ہورہے ہیں لیکن میں سالہا سال سے آپ کو دیکھتی آرہی ہوں ۔ کبھی بستی میں، کبھی بستی کے کو چوں میں کبھی میرے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے ۔ آپ سے جو کہنا چاہا تھا وہ اب تک کہہ نہ سکی۔ اب میں لفظوں کا سہارا لے کر اپنی بات کہنا چاہتی ہوں۔ میں شادی شدہ نہیں ہوں آپ بھی نہیں ہیں۔ آپ بھی میری طرح گھر کی خالی خالی دیواروں کو دیکھتے ہوں گے۔ ہماری عمروں میں زیادہ فرق بھی نہیں۔ کیا زندگی کے اس موڑ پر ہم ایک دوسرے کا سہارا نہیں بن سکتے….!
میرا نام جان کر آپ چونک پڑیں گے….!
عابدہ
اور جب حیرانگی کے عالم میں خط کو کئی بار پڑھا تو یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ اس خط کی تحریر کئی سال پرانی تھی۔ یہ تحریر ٹھیک اُسی دن کی تھی جب میں ملازمت سے سبکدوش ہوا تھا ۔ !
اور عابدہ کی کہانی کو میرے بیگ نے سنبھال کے رکھا تھا ..!!

 

تلاش
پہاڑوں کے دامن میں لہلہاتے کھیتوں کے درمیان گوجر بستی میں تیندوے کے جان لیوا حملے میں تین معصوم معصوم سے بچے اپنے مستقبل کو سدھارنے اور سجانے کی تمناؤں میں رنگ بھرنے کے لئے اسکول جاتے جاتے زندگی کی سانسوں سے محروم ہو گئے ۔ گوجر بستی میں ایک کہرام مچ گیا۔ بستی کے مرد وزن گھروں سے باہر آئے۔ ایک پُر درد ہنگامہ بپا ہوا۔ آنسوؤں کی بارش نے سینے میں جمی برف پگھلا دی اور پھر احتجاج پر احتجاج ہونے لگے۔ متعلقہ اہل کار بھی غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے ۔ خوف اور ڈر کے ماحول میں بستی ، کھیت اور جنگل ہر طرف ہر جگہ تیندوے کی تلاش شروع ہوئی اور یہ سلسلہ کئی روز صبح سے شام گئے تک چلتا رہا لیکن تیندوے کی پر چھا ئیں تک کہیں نظر نہ آئی۔
اور اُس شام سارے اہل کار اس بات سے مطمئن ہو گئے کہ تیندوا بھاگ چکا ہے یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا ہے اور اب خطرہ بھی ٹل چکا ہے۔ اس کی تلاش اب غیر ضروری بننے لگی ہے وہ اپنے تھکے تھکے قدموں سے اپنے اپنے گھروں کی جانب جانے ہی والے تھے کہ گل محمد اچانک چلا اُٹھا۔
’’ارے محمد رمضان کہاں ہے کچھ دیر پہلے تو میرے ساتھ تھا۔‘‘
اور محمد رمضان نامی اہل کار واقعی وہاں موجود نہ تھا ۔ تلاش شروع ہوئی ۔۔۔۔!
تیندوا ایک اور شکار کر چکا تھا۔ محمد رمضان کی لاش ٹھیک اسی جگہ دیکھی گئی۔
جہاں تیندوا تین بچوں کو نگل چکاتھا۔۔۔۔!

 

 

لل دید کالونی گوری پورہ، راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9906771363