افسانچے

ملک اعجاز

رِستے زخم

شام کو آفس سے نکلتے ہی مہک تیز تیز قدموں سے جونہی باہر پہنچی تو بوندا باندی شروع ہوگئی تھی، اُس نے اپنے بیگ کو ٹٹول کے چھاتا ڈھونڈنا چاہا مگر دوسرے ہی پل یاد آیا کہ وہ تو پرسوں اتوار کو گھر میں ہی رکھ دیا تھا جب ممی(ساس) نے بارش میں دوائی لینے کے لئے بھیجا تھا۔ تھوڑی دیر آفس کے گیٹ پہ رُک کے جب مہک نے اپنے موبائل پہ ٹائم دیکھا تو وہ بارش کی پرواہ کئے بغیر نکل پڑی کیونکہ اُس کے ذہن میں اختر کی ڈانٹ اُس کے پورے وجود کو زخمی کئے جارہی تھی۔
اختر نے بحث و تکرار میں آج صبح جب مہک کو اونچی آواز میں کہا کہ “مرجانا آج وہیں سے” تو مہک کی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں اور اوپر سے اُس کی ساس اور نند کی ہر معاملے میں اذیت ناک دخل اندازی مہک کو جیتے جی مار رہی تھی۔ نمناک آنکھوں کے ساتھ وہ آج صبح آفس نکلی تھی۔ نازوں سے پَلی کل کی مہک آج درد کی تصویر بن چُکی تھی۔
کیا کچھ نہی تھا اُس کے سسرال میں۔ دھن، دولت، بڑا خاندان، گاڑی، بنگلہ سب کچھ تھا بس صرف ایک سکون نہیں تھا، سمجھنے والا اور سُلجھا ہوا شوہر نہیں تھا جس کے لئے مہک آٹھوں پہر تڑپتی تھی۔
برستی بارش میں آج کسی کو پتہ نہیں چل پارہا تھا کہ مہک کی آنکھوں سے بھی جھر جھر ساون برس رہا ہے۔ نہ جانے آج مہک کو بار بار ایاز کی اتنی یاد کیوں آرہی تھی، ایاز مہک سے بہت پیار کرتا تھا اور مہک بھی اُس سے بے حد محبت کرتی تھی، وہ ایاز کی رگ رگ میں بس چُکی تھی اور ایاز اُسے پانے کے لئے دنیا کی ساری حدیں پار کرنے کو تیار تھا۔ مگر مہک کو آج ایاز کی اتنی یاد آرہی تھی کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد بھی وہ آج ایاز کی محفوظ بانہوں میں پناہ لے کے پُھوٹ پھوٹ کے رونا چاہتی تھی مگر وہ ایاز کو اپنی اَکڑ اور اَنا سے کھوچُکی تھی جس کا اُسے شدید افسوس ہورہا تھا۔
نمناک آنکھیں لئے مہک آج دھیمی دھیمی آواز میں کہہ رہی تھی “ایاز، تمہاری مہک آج رورہی ہے، تم جس کے آنسوں دیکھنا بھی برداشت نہ کرتے تھے آج وہی مہک راستوں میں چل چل کے رورہی ہے، ایاز مجھے اپنے ساتھ سکون کی وادیوں میں لے جاؤ، تم تو مجھے جگر کا ٹکڑا کہتے تھے ایاز، کہیں سے لوٹ کے آجاؤ”
یہ سوچتے سوچتے مہک اپنے سسرال کی دہلیز تک کیسے پہنچی اُسے پتہ بھی نہ چلا۔ بے سکونی کے مکان میں داخل ہونے سے پہلے آج مہک کی نظریں پیچھے کی جانب مُڑیں، اُسے ایسا لگ رہا تھا کہ ایاز ابھی آکے اُس کا نرم ہاتھ پکڑ کے اُسے اپنی محفوظ بانہوں میں چُھپا کے ذلیل دنیا کے کٹھور لوگوں سے دور کہیں سکون کے گھروندے میں لے جائے گا مگر اُس کا خواب پَل میں ٹوٹ گیا جب اُس کے شوہر نے اُسے آتا دیکھ بڑے ہی ڈھیٹ انداز میں اپنی ماں کی طرف دیکھ کے کہا کہ “یہ تو زندہ ہی لوٹ آئی”
اب گھر کے باہر بھی بارش زوروں سے برس رہی تھی اور گھر کے اندر بھی کسی کی بڑی بڑی تھکی تھکی آنکھوں سے ساون سیلاب بن کے برس رہا تھا۔

 

لافانی محبت

ایمن آج صبح سے ہی کچھ بیقرار سی، کچھ کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھی۔ آج وہ سورج کے نکلنے سے کافی دیر پہلے اپنے بے ترتیب بستر سے نکلی تھی، رات بھی کہاں اچھے سے سوپائی تھی، حیدر کی یادیں تو نیندوں پہ بھی حاوی تھیں۔ اُس کی ماں اُسے کچھ بول رہی تھی، کچھ پوچھ رہی تھی مگر ایمن حیدر کی یادیں اپنی بانہوں میں سمیٹے ہوئے نہ جانے کہاں نکل چکی تھی۔
یہ محبت بھی عجیب روگ ہے کہ جِسے لگ جائے اُس کی سانسوں سے لیکر سوچوں تک اُس کے محبوب کا بسیرا ہوجاتا ہے۔
ایمن نے اپنی ماں سے دھیمی دھیمی اور دم توڑتی سی آواز میں کہا “ممی آج حیدر کا جنم دن ہے اور مجھے اُس کے لئے کچھ لانا ہے، کیک تو میں کل ہی لائی تھی، میں جلدی واپس آؤں گی” یہ کہتے کہتے ایمن کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوں اُس کے دامن پہ گِر آئے۔
اُس کی ماں جو اُس کے ابو کے لئے توے پہ روٹی گرم کر رہی تھی، بیٹی کی بات سُن کے روہانسی ہوکر اُس کے آنسو پونچھ کے کہنے لگی “ایمن، میرے جگر کے ٹکڑے، آج نہ جاتی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ایمن نے اپنی ماں کی بات کاٹتے ہوئے اُس کا ہاتھ چُومتے ہوئے کہا “جلدی آؤں گی، حیدر انتظار کررہا ہوگا نا”
اپنا پرس اور بیگ اُٹھائے ایمن بس میں چڑھی اور پورے راستے میں صرف حیدر کی یادیں اُس کے ذہن و دل پر ایسے حاوی رہیں کہ وہ یونیورسٹی کے گیٹ تک کب پہنچی اُسے پتہ بھی نہ چلا۔
کہتے ہیں نا کہ جب محبت حدِ کمال تک پہنچ جاتی ہے تو پھر دل کی دھڑکنوں سے لیکر اِک اِک سانس تک، جسم کی نص نص سے لیکر ذہن کے پور پور تک پورے وجود پر محبوب کی محبت کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ ایمن عشق کی اِنہی جان لیوا وادیوں میں کافی عرصہ سے ننگے پا ئوں محوِ سفر تھی۔
آج اتوار کے روز یونیورسٹی میں وہ چہل پہل نہ تھی۔ بس اُس طرف کچھ باغبان پھولوں کی کیاریاں درست کر رہے تھے اور دوسری جانب دو ایک جگہ پہ کچھ couples محوِ گفتگو۔ دسمبر کی یخ بستہ سردی میں آج پتوں کے بغیر چناروں کی جانب نظر اُٹھاتے ہی ایمن کو وہ درخت ماتم کناں نظر آئے۔ شعبۂ اقبالیات کی بلڈنگ کے بالکل پیچھے پہنچتے ہی ایمن رُک گئی اور منتظر آنکھوں سے جیسے کچھ دیکھنے لگی، محسوس کرنے لگی۔ جلدی سے اُس بینچ پہ بیٹھ کے جہاں وہ اکثر حیدر کے ساتھ محبت کے خوبصورت خیالی مستقبل کے سپنے پِروتی تھی۔ اُس نے بیگ سے کیک نکالا اور پیار سے سجا کے چھوٹی سی کینڈل اُس پہ روشن کردی۔ آج حیدر کا جنم دن تھا مگر ایمن نے شمع بھی روشن کی تو آنسؤوں کی دھار کے ساتھ، کیک پر لکھوایا گیا حیدر کا نام لبوں سے پکارتے ہی ہچکیاں بندھ گئی، خوبصورت سا قلم بیگ سے نکال کے حیدر کو گفٹ دینے کا سوچتے ہی ایمن کی آنکھوں سے ساون برسنے لگا۔ پتہ تھا ایمن کو کہ حیدر کو قلم کتنے اچھے لگتے تھے۔
“حیدر اپنی مہکتی سانسوں سے یہ شمع بُجھا دو تو تمہاری ایمن تمہارے جنم دن پہ تمہیں اپنے ساتھ جینے کی ڈھیر ساری دعائیں دے گی” ایمن نے سامنے محسوس ہوتے حیدر سے بِلکتے ہوئے جب یہ کہا تو ہوا کے ایک مدھم جھونکے سے شمع گُل ہوئی تو ایمن بینچ سے نیچے آکے زمین پہ ایسے بیٹھ کے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی جیسے کوئی مسافرہ اپنی ساری دنیا لُٹ جانے کے بعد خاک سر پہ ڈال کے بیٹھ جاتی ہے۔ ایمن کی بھی تو دنیا لُٹ چکی تھی۔ “حیدر تم یہیں پہ ہو، تمہاری خوشبو میں اپنے وجود سے محسوس کررہی ہوں، اپنی ایمن کے ہاتھوں سے آج کیک نہیں کھاؤ گے، اپنی ایمن کے ہاتھ آج چومو گے نہیں حیدر، ایک بار تو میرے سامنے آجاؤ مجھ سے اِتنے وعدے اِتنا پیار کرنے والے”
خاک پہ بیٹھ کے ایمن کی یہ فریادیں خاموش چناروں کے کلیجے بھی آج چیر رہی تھیں۔
مگر اُس دیس جانے والے کب لوٹ کے آتے ہیں۔ چار سال کا عرصہ بِیت گیا تھا اب حیدر کو گزرے ہوئے۔ ایک ایکسیڈنٹ نے ایمن کا آٹھ سالہ پیار، اُس کی پوری دنیا، اُس کی ساری ہنسی، اُس کی کھلکھلاہٹ، اُس کے سپنے سب کچھ چھین لئے تھے اور ایمن کی جھولی میں محبت کے صدقہ کے طور بس حیدر کی یادیں، آنسوئوں، گھٹن اور پریشاں و منتظر نگاہیں آئیں۔
کچھ دیر بعد فضا میں ایمن کی ہچکیوں کی آواز تھی، ایمن تو سرخ و تر آنکھیں اور خالی ہاتھ لئے دور جا چکی تھی،مگر کیک اُسی بینچ پہ پڑا تھا، بجھی ہوئی شمع بھی اور قلم بھی لیکن حیدر۔۔۔ شاید وہ آیا تھا کیونکہ ہوا کی سرسراہٹ اُس کی آمد کی خبر دے رہی تھی۔ کیا پتہ کہ وہ بھی ایمن کی حالت اور اُسے اکیلا واپس جاتے ہوئے دیکھ کے بہت رویا ہوگا کیونکہ محبت تو لافانی شے ہے اور اِس میں جسم و روح کی کوئی قید نہی ہوتی۔
���

حسینی کالونی چھترگام،بڈگام،موبائل نمبر؛9797034008