افسانچے

فلک ریاض

چُھٹکارا
وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ اوپر پہاڑی کے اُوپر کی طرف جارہا تھا۔۔سارا جسم خون میں تر۔۔بھاری بھرکم چیز کو بازؤو میں لئے گِرتا سنبھلتا دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔۔کبھی جنگل کے دیو قامت درختوں سے ٹکراتا تو کبھی خونخوار جھاڑیوں میں پھنس جاتا۔۔۔آنکھیں بھی تو نہں تھی ۔۔اس نے جو بھاری چیز اٹھائی ہُوئی تھی اس سے عجیب عجیب آوازیں آرہی تھیں، جیسے کئی کردار اس چیز سے باہر نکلنے کی انتھک کوشش میں تھے، مگر یہ تھا کہ ان کو کسی بھی کونے، دَرار یا سوراکھ سے نکلنے نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔بہت اونچائی پر پہونچ کر اس نے بہت طاقت لگا کر اسے نیچے کھائی میں پھینک دیا۔
گرِتے گرتے بہت شور و فغاں ہو ا اور کانوں کو پھاڑنے والی چیخیں۔۔ واویلا۔۔۔ ماتم۔۔۔ لیکن۔۔۔کچھ دیر بعد سکون۔۔۔ خاموشی۔۔۔ پورے جنگل میں سناٹا۔۔۔ لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ یہ اتنا بھاری آخر ہُوا کیسے تھا۔
پھر اس کی سمجھ میں آیا کہ اس چیز کے اندر جو دماغ تھا۔۔اس میں کہانیاں تھیں،غزلیں تھیں،نظمیں تھیں جو روز و شب ہنگامہ برپا کئے ہوے تھی اور باہر آنا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔وہ ہزاروں کی تعداد میں ان کو باہر نکال چُکا تھا۔۔مگر فائدہ ؟ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔نہ کچھ اس کو فائدہ نہ زمانے کو وہ غریب ہوتا گیا، زمانہ اس کو پڑھ پڑھ کر بھی سدُھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔وہ قلم کار ہوتے ہوے بھی مزدوری کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج اس نے اپنا ذہین سر اپنے جسم سے کاٹ کر پہاڑی سے نیچے پھینک دِیا تو راحت سی محسوس کر رہا تھا۔

حل
اغواء۔۔ریپ۔۔۔تیزابی حملہ۔۔۔بیوی کی مارپیٹ۔۔۔۔ غیرت کے نام پر بہن کا قتل۔۔۔۔دورانِ سفر صنفِ نازک کے ساتھ چھیڑ چھاڑ۔۔۔جہیز نہ لانے پر طعنے۔۔اس نے بچپن سے یہ سب دیکھاتھا مگر اب اُس سے یہ دیکھا نہیں جارہا تھا۔ اس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی۔ وہ خود ایک عورت تھی اورعورت کا درد سمجھ رہی تھی۔ اس نے بہت ساری عورتوں کے ساتھ ملِ کر جنگل میں رہنے کا انتظام کیا اور بستی کی تمام عورتوں کو بستی سے نکال کر جنگل میں پہونچایا۔ اور راتوں رات تار بندی کرکے جنگل اور بستی کے درمیاں سرحد بنائی۔ مرد سبھی اکیلے رہ گئے۔ انہوں نے کئی بار کوشش کی سرحد کو توڑنے کی مگر عورتوں نے اُن کی یہ کوششیں ناکام بنادیں۔
اب ایک سال سے وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ رہنے لگی۔۔۔انہوں نے پردہکرنا، چہرہ چھپانا اور بال بند رکھنا سب ترک کیا تھا اب چونکہ جنگلی جانوروں کی نگاہیں خراب نہیں تھیں اسلئے وہ خوشی خوشی رہنے لگی ۔
اور سرحد پر مامور عورتیں پوری چوکسی برت رہی تھیں کہ کوئی درندہ بستی سے نکل کر جنگل میں نہ گُھس آئے۔

جواربھاٹا
بیٹی کی شادی دھوم سے ہو رہی تھی۔پورے مکان کو روشنی کے قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ مہمان دعوت کھا کر نکل رہے تھے۔۔۔رشتہ دار عورتیں سرگوشیوں میں مصروف تھیں” ارے دل سے فقیر لوگوں نے پکوایا ہی کیا تھا۔۔۔نہ روغن جوش تھا۔۔۔نہ آبگوش اور نہ پُلاؤ ۔۔۔اس سے تو بہتر تھا دعوت ہی نہ کرنا۔۔۔۔”سن کر میمونہ خالہ بولی۔۔۔ شکست خوردہ انسان ہے اشرف۔۔۔۔۔یہ شادی کا وازہ وان نہیں ختم شریف کا نیاز لگا مجھے۔۔۔۔”سب قہقہے مار کر ہنسنے لگے۔۔۔۔اور ادھر تین بیٹیوں کے باپ محمد اشرف کا چہرہ اچانک زرد پڑ گیا تھا کیونکہ موبائیل فون پر پیغام آیا کہ چار مہینہ پہلے جو لون بنک سے لیا اس کی ادائیگی کی قسط کل سے شروع ہو رہی ہے۔ پیشے سے آٹو ڈرائیور اشرف مہمانوں سے مسکرا کر اور ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ مگر دل کا جوار بھاٹا پورے جسم میں اُتھل پُتھل مچا رہا۔تھا۔۔۔

عبادت
وہ دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ لیکن نہ کبھی کسی پڑوسی کے کام آتا۔ نہ کوئی دعوت قبول کرتا نہ سخاوت کرتا اور کسی کی مدد کے لئے سخاوت کرتا۔ صدیوں سے دعاؤں میں روتا رہا۔ ایک دن دعاءمیں محو تھا اور آنسو رواں تھے تو بجلی کے بلب پر نظر پڑی۔ اس میں ایڈیسن کا مسکراتا چہرہ نظر آیا۔ پھر دیوار پر رائٹ بردرس ۔۔۔گراہم بیل۔۔۔ نیوٹن۔۔۔ گلیلیو۔۔۔ ماری کیوری۔۔۔۔اینیسٹین ۔۔۔۔وغیرہ بہت سارے انسانوں کے چہرے نظر آیئے۔
آج اس کے آنسوؤں نے رنگ لایا اوردعاؤں نے کام کیا۔
وہ سوچنے لگا کہ خدا کو ان سب کی عبادت پسند آئی ہوگی یا میری۔۔۔۔ میں نے کیا کام کیا ۔۔میں کب انسانوں کے کام آیا۔۔۔۔” سوچ کر وہ رونے لگا زور سے اور تڑپ تڑپ کر سجدے میں گرِ گیا۔۔۔۔۔ اور دعا کی۔۔۔۔ خداوندا مجھے انسانوں کا مدد گار بنا۔۔۔۔۔”

 

حسینی کالونی چھتر گام،کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109