دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے 23؍ فروری کو ٹول کِٹ کیس میں گرفتار کی گئی ماحولیات کی جہد کار دِ شا روی کی درخواستِ ضمانت یہ کہتے ہوئے منظور کر لی کہ حکومت کے خلاف ناراضگی کا مطلب ملک سے غداری نہیں ہے۔ دہلی عدالت کے جج نے یہ ریمارک بھی کیا کہ ملک کا دستور شہریوں کو اظہار خیال کی آز ادی دیتا ہے اور اگر کوئی شہری دستور کے چوکھٹے میں اپنی اس آ زادی کا استعمال کرتا ہے تو اسے جیل میں نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ 22سالہ دِ شا روی نے کسانوں کے احتجاج کی تائید کر تے ہوئے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ کسانوں سے اپنا اظہار یگانگت ظاہر کیاتھا۔سیکورٹی ایجنسیوں کو ان کی یہ بہادری پسند نہیں آئی اور فوری دشا اور ان کے دو ساتھیوں پر غداری کا مقدمہ دائر کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا اور عدالت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ دشا اور ان کے ساتھی، بیرونی ممالک کے ملک دشمن عناصر کے اشاروں پر ملک میں بد امنی پھیلانے کا منصوبہ بنارہے تھے۔ پولیس اور تفتیشی اداروں کو حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے بلکہ کچلنے ڈالنے کی جو بے لگام آزادی مل گئی ہے ،اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی بھی شہری کو بڑی آسانی کے ساتھ اپنے شکنجہ میں کسنے کا کوئی مو قع پولیس اور دیگر ایجنسیاں اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہیں۔ ایک دِ شا روی نہیں بلکہ گزشتہ ایک سال کے دوران کئی سماجی جہدکار، صحافی، ایڈوکیٹس، یونیورسٹی کے پروفیسرس اور طلباء و طالبات محض اس جرم میں قید کر لئے گئے کہ انہوں نے حکومتی اقدامات کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ملک کے ان فکر مند شہریوں کو حکومت کی نا قابل بیان اذیتوں کو جھیلنا پڑا۔ آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میں ان کو بند کر کے رکھا گیا ہے۔
ہندوستان جیسے وسیع تر جمہوری ملک میں ان دنوں انسانی حقوق کی پامالی جس دھڑلے سے ہورہی ہے، اسے خواب میں بھی ہمارے ملک کو آزاد کرانے والے رہنماؤںنے نہیں دیکھا ہوگا۔ عصری دور میں جہاں شہریوں کے اظہار خیال کی آ زادی کو یقینی بنانے کے لئے انقلابی اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہندوستان میں شہریوں سے پر امن احتجاج کر نے کا حق بھی چھین لیا جا رہاہے۔ ان کو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے بر طانوی دور کے قوانین استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے دوران جو قوانین انگریزوں نے مجا ہدین ِ آزادی کے خلاف استعمال کئے تھے انہی قوانین کو حکومت اپنے ہی شہریوں پر آزماتے ہوئے فخر محسوس کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتے ہوئے بر سر اقتدار طاقتیں اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کر تے ہوئے شہریوں کی آزادی اور حقوق پر کب تک قد غن لگاتی رہے گی؟ عدالتوں کے بے شمار فیصلوں کے باوجود شہر یوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ آج بھی ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ ہر تھوڑے دن میں کہیں نہ کہیں سے یہ اطلاع آ تی ہے کہ فلاں سماجی جہدکار کوپولیس نے دبوچ لیا ہے اور اس پر ملک سے غداری کا مقد مہ درج کر لیا گیا ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہوتے ہوئے اگر اس کے حکمران اپنے خلاف ہونے والی تنقیدوں کو ملک دشمنی سے تعبیر کر تے ہوئے اختلافِ رائے رکھنے والوں سے انتقام لینے پر اُ تر آ تے ہیں تو اسے کوئی اچھی علامت تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن موجودہ حکومت یہی رویہ اختیار کی ہوئی ہے۔اس سے سارے ملک میں خوف اور دہشت کا ماحول بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت کے کسی قانون کے خلاف ناراضگی یا احتجاج کرنا ایک نئی مصیبت کو دعوت دینا تصور کیا جا رہا ہے۔
دنیا کے بہت سارے ممالک نے غداری کے قانون کو منسوخ کر دیا ہے تا کہ جمہوریت کی روح کو باقی رکھا جاسکے۔ شہریوں کو اظہار خیال کی آزادی سے ہی روک دیا جائے تو جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی لئے اب یہ قانون دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے ۔ لیکن ہندوستان میں اس قانون کو ہر اس فرد کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے جو حکومت کی کارکردگی کا معروضی جائزہ لیتے ہوئے اس کی غلطیوں کی نشاند ہی کر تا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ملک کے کسانوں کے خلاف بھی سخت قسم کے مقدمات درج کرتے ہوئے ان کے احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ کسان ، جو اپنی جائز مانگیں لے کر سڑکوں پر اُ تر آ ئے ہیں اور گزشتہ تین مہینوں سے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان تین زرعی قوانین کو واپس لے لے، جو حالیہ عرصہ میں پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کئے گئے ہیں۔ ان کے مطالبات کو قبول کر نے کے بجائے کسان قائدین کے خلاف این آئی اے نے مقدمات درج کردئے۔ وہ کسان جو اپنی شبانہ روز محنت کے ذریعہ ملک کی عوام کا پیٹ بھرتے ہیں جس میں حکمران طبقہ بھی شامل ہے، ان کے ساتھ اس قسم کا بے رحمانہ سلوک مستحسن قرار نہیںدیاجاسکتا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے لئے جدو جہد کرنے والوں کو ملک دشمنوں کی فہرست میں شامل کر کے ان کے حو صلوں کو پست کرنے کی حرکتیںکی جا رہی ہیں۔
جو صحافی اپنی جان ہتھیلی میں لے کر اپنا فرض نبھا رہے ہیں وہ قانون نافذکرنے والوںکی نظر میں ایک کانٹا بن گئے ہیں۔ نوجوان صحافی مندیپ پنیا کا کیا قصور تھا کہ دہلی پولیس انہیں گرفتار کر لی۔ وہ سنگھو بارڈر پر کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ کرنے گئے تھے۔ پولیس نے انہیں سرکاری فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا۔ سوال یہ ہے ایک نہتا شخص کیسے وردی میں ملبوس پولیس کے کاموں میں مداخلت کر سکتا ہے۔ دراصل دہلی پولیس مندیپ سے بدلہ لینا چاہتی تھی۔ یہ وہ صحا فی ہے جنہوں نے سنگھو سر حد پر کسانوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کا بی جے پی سے تعلق ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ مندیپ نے بتایا کہ پولیس نے ان کے ساتھ کتنا ظالمانہ سلوک کیا۔ انہیں لاٹھیوں سے مار پیٹ کی گئی، ان کے کپڑے اُ تار لئے گئے ، ان کا فون چھین لیا گیا اور دہلی کی شدید سردی میں انہیں چھوڑ دیا گیا تا کہ وہ ٹھٹھر کر مر جائیں۔ ایک مندیپ نہیں بیسیوں صحافی اس وقت حکومت کے نشانہ پر ہیں۔ کیرالا کے صدیق کپن کا صرف یہ قصورہے کہ وہ ہاتھرس ( یو پی ) میں دلت لڑکی کی عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل کے واقعہ کی رپورٹنگ کرنے وہاں گئے تھے جہاں یو پی پولیس نے ا نہیں غیر قانونی سر گرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت گرفتار کر لیا اور اب بھی وہ جیل میں محصور ہیں۔ اب دیانتدار صحافیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2020کے دوران 67صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ دس سالوں میں 30سے زیادہ صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے۔ ایسی بدترین صورت حال اس سے پہلے ملک میں دیکھنے میں نہیں آ ئی۔ملک کے نامور صحافیوں کو بھی بیجا مقدمات میں ماخوذ کرنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ راج دیپ سر دیسائی ، سدھارتھ وردا راجن اور امیت سنگھ جیسے مشہور صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کرلئے گئے ہیں۔
یہ بات بھی کس قدر افسوسناک ہے کہ ملک کے وزیراعظم حکومتی پالیسیوں اور قوانین کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو "آندولن جیوی"یعنی احتجاج پر زندہ رہنے والے قرار دیتے ہوئے ان آوازوں کی اہمیت کو گھٹا نے میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کا ادعا ہے کہ ملک میں جہاں کہیں کوئی احتجاج ہوتا ہے ایسے عناصر اس احتجاج میں شامل ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ اس قسم کی سر گرمیوں میں حصہ لے کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کسانوں کے جاریہ احتجاج میں ایسے "آندولن جیوی "شامل ہو گئے ہیں ، جو سَرے سے کسان ہی نہیں ہیں۔ بی جے پی حکومت کسانوں کے احتجاج کو خالصتانیوں، نکسلایٹوں اور ماؤ نوازوں سے جوڑ کر یہ تا ثر دینا چاہتی ہے کہ یہ سب ملک دشمن عناصر ہیں جو ایک اچھی حکومت کے خلاف نہ صرف ملک کی عوام کو ورغلا رہے ہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی اپنی سر گرمیاں جاری رکھے ہیں۔ دِشا روی کو اسی الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ خالصتانی تحریک کے لئے کام کر رہی ہیں۔ لیکن اس کا کوئی معمولی ثبوت بھی پولیس پیش نہیں کر سکی ۔جس کے نتیجہ میں دہلی عدالت کو دشا کو ضمانت پر رہائی کا حکم دینا پڑا۔
جمہوریت کا خاصّہ ہے کہ مخالفانہ رویہ کو بھی برداشت کیا جائے۔ مخالف کو دلائل کے ذریعہ مطمئن کیا جائے۔ حکومت سے سوال کرنے والوں یا اس کے کسی قانون کے خلاف احتجاج کر نے والوں کو غداری کے مقدمات میں پھانس کر انہیں جیل بھیج دیا جائے تو ایک دن آ ئے گا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا اور حکومت عوامی غیض و غضب کے سامنے ٹِک نہ سکے گی۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جہاں حکمرانوں نے ظلم اور بر بریت کی انتہا کردی وہاں عوام نے اپنی قربا نیاں دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی حکمت ِ عملی اب کامیاب نہیں ہوگی۔ عوام حکومت کے ارادوں کو بھانپ چکی ہے۔ ہر طرف سے حکومت کو اس کی ذ مہ داریاں یاد دلائی جا رہی ہیں۔ عوام کے بنیادی حق کو چھین کر زیادہ دن تک مسند ِ اقتدار پر فائز نہیں رہاجا سکتا۔ حکومت نے ہر احتجاج کو قوم اور ملک دشمن قرار دینے کی جو روش اختیار کرلی ہے اس سے دیگر ممالک میںبھی ملک کی ساکھ متا ثر ہورہی ہے۔ کسانوں کے احتجاج کو لے کر ساری دنیا ہندوستان کو گھیر رہی ہے۔ مشہور پاپ سنگر ریہانا ہو کہ ماحولیاتی جہد کار گریٹا کے تبصرے ہوں یا پھر امریکی انتظامیہ کے ریمارکس ہوں ، ان سے ہندستان کا امیج دن بہ دن خراب ہوتا جا رہا ہے۔ اس معا ملے میں کسی کو کچھ کہنے سے بہتر ہے کہ ہم خود حالات کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں اور عوامی احتجاج یا ناراضگی کو غداری سے جوڑنے کے بجائے حب الوطنی کے نظریہ سے اسے دیکھیں کیوں کہ احتجاج کرنے والے بھی ہندوستانی ہیں اور ان کو بھی اپنے ملک سے اتنی ہی محبت ہے جتنی ارباب بست و کشاد کو ہے۔
فون نمبر۔91+9885210770