یہ بھی ایک المیہ نہیں تواور کیا ہے؟

بلاشبہ باکردار اور تعلیم وتربیت سے مزّین نوجوان ہی قوم کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں مگر ایسے نوجوان اُن ہی اقوام کو نصیب ہوتے ہیں جو اُن کی اعلیٰ تربیت میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ہمارے یہاں جو موجودہ صورتحال ہے، اگر اس کاحق پرستی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ ہمارے نوجوان بتدریج تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی تعلیم ،ہنر اور دیگر صلاحیتوں کا گراف بھی بڑھ رہا ہے، مگر اس کے مثبت نتائج معاشرےپر مرتب نہیں ہورہے ہیں ۔ہمارے نوجوانوں میں عام طور پر سوچنے اورسمجھنے کا وہ انداز نہیں پایا جاتا ہے جسے معقولیت پر مبنی یا Scientificسوچ کہا جاسکتا۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض دفعہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں جن کی اُن سے توقع نہیں کی جاتی ۔عموماًسماج کے لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوا ہے جو جوان جتنا پڑھا لکھا ہو ،اُس کی سوچ اور ذہانت اتنی ہی بلند ہوگی ۔مگر جب ہم زمینی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ خود والدین اپنی کم فہمی اور بے جا لا ڈ پیار یا سخت روی سے اُن کی بہترتربیت اور صحیح رہنمائی کرنے میںپورے نہیں اُترتے ہیں۔جس کے نتیجہ میں بعض نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں لینے کے باوجود بھی ذہنی اور فکری اعتبار سے نہایت کورے اور نابالغ نظر آتے ہیں۔اکثر والدین نوجوان نسل کو عملی سرگرمیوں میں اُتارکر اُنہیں صلاحیتیں آزمانے کا موقع ہی فراہم نہیں کرتےہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ایک نوجوان اعلیٰ تعلیم کے بعد بھی خود کو نابالغ سمجھتاہو، مگر عام طور پر جو کیفیت ہے وہ یہی ہے کہ نوجوان نسل اپنے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کے باوجود جن منفی اثرات کو قبول کرتے ہیں،جن سے اُن کی شخصیت متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام معاشرے کو بھی ناخوش گوارحالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ والدین نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے عموماً تین قسم کی غلطیاںکر بیٹھتے ہیں۔اول یہ کہ والدین خود تو اپنی اولاد کے لئے بہت کچھ کرتے ہیںلیکن اولاد کو کچھ کرنا نہیں سکھاتے ہیں۔دوم،ہر والدین اپنی اولاد کو ہر میدان میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیںاور اپنے خوابوں کا بوجھ اُن ہی پر ڈالتے ہیں اور سیوم،والدین اُن کی کردار سازی کے بجائےاُن کی ظاہری خوبصورت پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ان غلطیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنی صلاحیتیں کھو دیتی ہیں، محنت اور عزم و استقلال کے جذبے سے محروم رہتی ہے اور دوسری قوموں سے مستعار ٹیکنالوجی اور ایجادات پر تکیہ لگائے بیٹھتی ہیں ۔یہ رجحان ایک نفسیاتی بیماری کی طرح ہمارے اندر سرایت کرچکا ہے۔جس کے باعث جہاں ہمارا کشمیری معاشرہ مختلف سماجی،سیاسی اور اقتصادی مسائل سے دوچارہوجاتا ہے، وہیں ہماری نوجوان نسل بھی حالات کے سیلاب بے سمت تیرتی رہتی ہے ۔نوجوانوں کا حالات کے سامنے بے بس ہونے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔جن میں ایک یہ بھی ہےکہ ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل کو تب ہی بالغ یا Matureسمجھا جاتاہے، جب وہ سرکاری ملازمت حاصل کرتاہے۔اگر چہ وہ ملازمت تیس ،پنتیس سال کی عمر کے بعد ہی حاصل ہوجائے۔ ایسے والدین کی تعدادبھی کافی ہے جو اپنی اولاد کی محبت میں اتنے اندھے ہوتے ہیں کہ وہ اُن کو کبھی یہ احساس نہیں دلاتے ہیں کہ تم اب بڑے ہوگئے ہواور اب تم پر گھر اور سماج کے حوالے سے کچھ ذمہ داریاں بھی عاید ہوتی ہیں۔اس احساس سے والدین اُن کو یہ باور کرتے رہتے ہیں کہ ابھی تمہارے لئےاپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا وقت نہیںآیا ہے ۔جس کے باعث بیشترنوجوان اپنی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنانے میں عدم توجہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔گویاوالدین اُن کو صرف روزی روٹی کمانے کے لئے تیار کرتے ہیں، زندگی گزارنے کے لئے نہیں۔المیہ یہ بھی ہے کہ 35یا 30سال کا نوجوان یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ہے کہ جب میں بڑا ہوجائوں گا تب بڑے کارنامے انجام دوں گا ۔لیکن وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ انسان 30سال کی عمر گزارنے کے ساتھ ہی تقریباًاپنی زندگی کا آدھا حصہ گزار چکا ہوتا ہے اور پھر 45سال کی عمر کے بعد انسان مختلف جسمانی کمزوریوں کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی صلاحیت اور جذبہ بھی کمزور ہونے لگتا ہے ۔نوجوانوں کی اس اجتماعی سوچ نے بھی معاشرے کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے ۔ہمارے ہزاروں نوجوان نجی سیکٹر میں عمدہ کام انجام دے رہےہیں،پھر اکثر والدین اُن کو بھی بے روز گار سمجھ کر اُن کی شادی یا اُن کی زندگی کے حوالے سے دیگر فیصلے لینے سے کتراتے ہیں،جو کہ ایک المیہ نہیں تو اور کیاہے۔