قیصر محمود عراقی
نصاب کو کورس کہا جانے لگا اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیک میں رکھ دی گئیں۔ ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا، اسلامیات اسلامک اسٹڈی بن گئی، انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی ، اسی طرح طبیعات ، فیزیکس میں اور معاشیات اکنامکس میں ، سماجی علوم سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے۔ پہلے طلبا پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنس اسٹڈی کرنے لگے، پہاڑے یادکرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگی، اساتذہ کیلئے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرزکیلئے ٹیبل اور چیئرز لگانے لگے، داخلوں کے بجائے ایڈمیشنز ہونے لگے، اول ، دوم اور سوم آنے والے طلبافرسٹ ، سیکنڈ اور تھرڈ آنے والے اسٹوڈنٹ بن گئے، پہلے اچھی کار کردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے، بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے، یہ سب کچھ سرکاری اسکولوں میں ہوا ہے، باقی رہے پرائیویٹ اسکول تو ان کا پوچھئے ہی مت ان کاروباری مراکز تعلیم کیلئے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا: مکتب نہیں مکان ہے، بیوپار ہے، مقصد یہاں علم نہیں، روزگا ہے۔ اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے ، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی جگہ ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔ زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہوگئے ، خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈروم کا نام دے دیا، باورچی خانہ کیچن بن گیااور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے، غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا، پھر ترقی کرکے واش روم بن گیا، مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ مکانوں میں پہلی منزل کو گرائونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسرے منزل کو فرسٹ فلور ۔ دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی، کمرے روم بن گئے، کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔ ابوجی یا ابا جان جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا اور ہر طرف ڈیڈی ، ڈیڈ ، پاپا، پپا، پاپے کی گردان لگ گئی ، حالانکہ پہلے تو پاپے (رس) صرف کھانے کیلئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں، اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ امی یا امی جان ممی یا مام میں تبدیل ہوگیا، سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
چچا ، چچی ، تایا ، تائی ، ماموں ، ممانی ، پھوپھا ، پھوپھی ، خالواور خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سا لفظ انکل اور آنٹی میں تبدیل ہوگئے۔ بچوں کیلئے ریڈھی والے سے لیکر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے یعنی محمود ایاز سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے ۔ ساری عورتیں آنٹیاں ، چچا زاد ، ماموں زاد، خالہ زاد، بہنیں اور بھائی سب کے سب کنزز میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی ، نہ جانے ایک نام تبدیلی کے غرض کیسے بچ گئے اور وہ نا م ہے گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھی، اب بھی ماسی ہی ہیں۔ گھر اور اسکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہوگئیںاور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے،آخر کیوںنہ ہوتا دکان دار بھی تو سیلزز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شوپنگ کرنے لگے۔ سڑکیں روڈ بن گئیں، کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنا دیا گیا، کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا، نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا ، یا ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔ ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے ۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا، جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی ، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں، بابو کلرک اورچپراسی پیون بن گئے۔ پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے، اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا۔ سود جیسے قبیح فعل کو انٹریسٹ کہا جانے لگا، طوائفیں آرٹسٹ بن گئی اور محبت کو ’’لَو‘‘کا نام دیکر محبت کی ساری چاشنی اور تقدسی چھین لیا گیا۔ صحافی رپورٹر بن گئے اورخبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے، کس کس کا اور کہا ں کہاں کا رونا رویا جائے ۔ اُردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں ، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے اور دُکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنے خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہوکر کیسے بگاڑلیا ہے۔ وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہم کہاں سے کہاں آگئے اور کہاں جارہے ہیں؟ دوسروں کا کیا رونا روئیں ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں ،دوسرا کوئی نہیں ۔ بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کردیا ہے اور آج بھی مسلسل دفن کرتے جارہے ہیں اور روز بروز یہ عمل پیشتر ہوتا جارہا ہے۔
رُکیے ۔۔۔!خدارا رُکیے!! اردو کو مکمل زوال پذیر ہونے سے رُکیے۔ قومیں اپنی قومی زبان کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں، موجودہ زمانےکا یہی سکہ پابندِ اصول ہے ، جاپان ،روس ،اٹلی، فرانس اور چین اس کی زندہ مثال ہے ۔ ملک کیلئے تعلیم کا میدان ہمیشہ بنیادی مسئلہ رہتا ہے کیوں کہ اس کی نوعیت اور معیاری سطح سے معاشرے کی ہمہ گیر تعمیر وترقی ، عوام کی خوشحالی وآسودگی کا رشتہ لازم وملزوم ہوتا ہے۔ اس کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ وہ بچوں اور بڑوں کو ان کی مادری یا قومی زبان میں دی جائے۔ اس بات کی تصدیق چین یا جاپان جیسے ممالک کی مثالوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اردو زبان کے ایک جاپانی پروفیسر نے ’’اخبار اردو‘‘کو انٹرویوں دیتے ہوئے کہا تھا کہ جاپان کی ترقی کا ایک راز یہ ہے کہ وہاں تعلیم اپنی زبان میں دی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ذریعہ تعلیم کا معاشرہ بہت درینہ ہے جو پیچیدہ بحث ومباحثہ کا شکار رہا۔ سوال یہ ہوتا تھا کہ بنیادی طور پر تعلیم قومی زبان اردو، علاقائی زبان یا انگریزی میں دی جانی چاہئے، اکثر اکثر محققین مختلف سرویز کی تجاویز اور آرا ءاس بات پر متفق نظر آتی تھیں کہ ذریعہ تعلیم بنیادی طور پر قومی زبان اردو اور علاقائی زبانوں پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس موقف کیلئے کئی دلائل پیش کئے جاتے تھے۔ مثلاً یہ کہ بچے کو اردو پر عبور حاصل کرنے کیلئے انگریزی کے مقابلہ میں کم وقت درکار ہوگا اور وہ سیکھنے والے مضمون کو اپنی زبان میں بہتر طور پر اپنا لےگا۔ اس کے علاوہ ایک اور وزنی دلیل پیش کی جاتی تھی کہ قومی زبان ملک اور اس کے عوام کا ایک جیتا جاگتا تشخص ہے۔ قوم زندہ ہے اگر اس کی زبان زندہ ہے۔ اردو کے مفاد میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جو اردو رابطے کی زبان ادا کرتی ہے، علاقائی زبانوں سے ہر لحاظ سے قریب ہے، یعنی رسم الخط ایک ہے ،ذخیرہ الفاظ میں کافی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ عام طور پر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس دور میں زبا ن کیلئے انسان کا رویہ دو طرح سے ظاہر ہونے لگا ، ایک یہ کہ انسان کی اپنی مادری زبان کی طرف کشش فطری وجذباتی ہے جس کو وہ بچپن کے زمانے سے بولتا اور سنتا آیا اور جسے وہ دل وجان سے چاہتا ہے، اس لئے بعض لوگ اس کو دل کی زبان کہتے ہیں۔ ایک اور زبان کاروباری جو انسان کو روزگار فراہم کرکے ترقی کے راستے پر لے جاسکتی ہے ،اسے روٹی کی زبان کرسکتے ہیں، اگر آدمی کیلئے یہ دونوں پہلو ایک ہی زبان میں مل جائے تو اس زبان کی مقبولیت اور تعمیر وترقی کیلئے تمام راستے ہموار ہوجاتے ہیں۔
رابطہ۔6291697668