جموں و کشمیر میں مختلف مذاہب، نسل اور قبائل کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں ۔ جن میں گجر بکروال، بلتی، گدی، سیپی، چنگپا، بیڈا وغیرہ شامل ہیں ۔ کل ملا کر ان قبائلی لوگوں کی آبادی تقریباً ۱۵ لاکھ کے قریب ہے ۔ان میں سے گجر بکروال سب سے بڑا قبیلہ مانا جاتا ہے جو کی آبادی کافی تعداد میں یہاں کے اونچے پہاڑوں، جنگلاتی علاقوں، سر و سبز و شاداب چراگاہوں اور دیگر بہاکوں میں رہتے ہیں۔ ان کی تاریخ بہت پرانی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہ قبیلہ ترکی نسل ہے ۔
دیکھا جائے تو گُجر بکروال لفظ سے ریاست کے ہی نہیں بلکہ بیرون ریاست کے شہری بھی اس قبیلے سے بخوبی واقف ہیں ۔لفظ گُجر کے لغوی معنی گائیں چَرانے والے کے ہے جب کہ بکروال کے لغوی معنی بکریاں چَرانے والا کےہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق " بکروال " کا لفظ گوجری زبان کے لفظ بکارا (Bakara) سے ماخوذ ہے، جس کے معنی بکری، بھیڑ اور وال ہے اور ان جانوروں کے چَرانے والے کو بکروال کہتے ہیں۔ گجر و بکروال سماج کا ایک اہم حصہ ہے۔ گُجر اور بکروال لوگوں کی زندگی آپس میں کئی طرح سے مطابقت ہے ۔ ان دونوں کی تواریخ، کلچر، ثقافت، زبان، رہن و سہن، ذات اور نسلی شناخت ایک ہے۔ ان قبیلوں کی زندگی عموماً پہاڑوں و دیہات کے دور افتادہ علاقوں میں گزرتی ہے،جن کی زندگی بہت ہی کٹھن حالات سے دو چار ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر انہیں زندگی کے بنیادی سہولیات کا فقدان رہتا ہے، جس میں بجلی، ٹرانسپورٹ، تعلیم، طبی سہولیات جیسے قابل ذکر ہیں۔
جموں و کشمیر کے مختلف مقامات میں رہنے والے یہ قبیلے اس جدید سائنسی دور میں بھی باقی قوموں کے مقابلے میں ہر طرح سے پیچھےہیں اور یہ قبیلہ انتہائی پسماندہ و پچھڑا ہوا ہے۔ تعلیمی، معاشی، معاشرتی و دیگر شعبہ جات میں کافی پسماندہ ہے۔ کل ملا کر ان کی آبادی کا تناسب ریاست کی کل آبادی کا ۲۰ فیصدی ہے ،جب کہ تعلیمی اعتبار سے گجر قبیلے کی شرح خواندگی بتیس ( ۳۲ ) فیصد اور بکروال کی تئیس ( ۲۳ ) فیصدی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں روزگار کے مواقع حاصل نہیں ہو پاتے ہیں ۔ حالانکہ سنہ ۱۹۹۱ء میں اس قبیلے کو شیڈول ٹرائب جیسے خاص زمرے کے اندر لایا گیا تھا تاکہ انہیں مختلف قسم کی فائدے حاصل ہو سکیں، جب کہ سرکاری سطح پہ ان کے لئے باضابطہ طور پر موبائل اسکول اور سیزنل اسکول رکھے گئے ہیں، جو حقیقت سے بعید ہیں۔
کشمیر کے بالائی علاقوں میں رہنے والے یہ لوگ آج کے دور میں بھی کوٹھوںاور جھونپڑیوں میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اپنے مال مویشی کُھلے سر سبز میدانوں میں چُراتے ہیں ۔ ان لوگوں کی کمائی کا سہارا مال مویشی پر ہی منحصر ہے۔ یہ لوگ بھیڑ، بکریاں اور بھینسیں چَرا کر اِن سے دودھ حاصل کرتے ہوئے اپنی روز مرہ کی زندگی کاگزر بسر کرتے ہیں۔ یہ پسماندہ ضرور ہیں لیکن پُر امن زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں ۔
ان قبیلوں کے رسم و رواج صدیوں سے چلے آرہے ہیں، ان کی زبان، تہذیب و تمدن، ثقافت و دیگر رسم و رواج پہلے کی طرح آج بھی اپنی آن، بان اور شان کے ساتھ زندہ جاوید ہیں ۔جن سے وہ اپنی منفرد پہچان برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کا پہناوا اور بول چال باقی قبیلوں سے بالکل ہی الگ ہے۔ مرد قمیض شلوار و پکڑی پہنتے ہیں اور لمبی داڑھی رکھتے ہیں۔ جب کہ عورتیں قمیض و شلوار اور گوجری ٹوپی کے ساتھ چاندی کے زیورات پہنتی ہیں ۔
شادی و بیاہ کا خوشگوار موقع ہو یا موت کے گم خوار لمحات، غرض ان کے جینے کی ہر ادا الگ ہی ہے۔ یہ لوگ شادی بیاہ کا عمل اپنے اپنے قبیلے یا ایک دوسرے کے قبیلے میں بھی بڑی خوشی سے کرتے ہیں، یہ لوگ اس طرح کی تقریب کو بڑی سادگی سے انجام دے دیتے ہیں، جس کے لئے انہیں نہ کسی سائبان یا میریج حال کی ضرورت پڑتی ہے ۔یہ اپنے ہی آس پڑوس میں عام طور پر کھلے سر سبز شاداب میدانوں میں انجام دیتے ہیں، چند محدود پکوانوں سے مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، دُلہا کو گھوڑے پر اور دُلہن کو ڈولی میں سجا کر لے جاتے ہیں، جن کے پیچھے مہمان قطار در قطار چلتے ہیں ۔
یہ لوگ موسم کے اعتبار سے اپنے مال و مویشی کو ایک علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے کی طرف لے جاتے ہیں، جس سے ٹریبل میگریشن کہتے ہیں، تاکہ خود بھی سردیوں سے بچیں اور مویشیوں کے لئے بھی گھاس کا انتظام بہ آسانی دستیاب کر سکیں۔ اکثر و بیشتر یہ لوگ وادئ کشمیر میں سردیوں کا موسم آتے ہی صوبہ جموں کے ضلع ریاسی کی مختلف جگہوں کی طرف رُخ کر کے چلے جاتے ہیں اور جموں میں گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی دوبارہ وادئ کشمیر کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ جس کے لیے یہ لوگ پہاڑوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ وادئ کشمیر میں گجر و بکرول لوگ صدیوں سے رہتے چلے آئے ہیں۔
درد ہوتا ہے مجھے اس بچھڑے طبقہ کو دیکھ کر اے منظور
سرکار کو سوچنا چاہیے ایسے لوگوں کے بارے میں ضرور
ایسے پسماندہ لوگوں کو آج بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ سرکار کی مختلف اسکیموں سے یہ لوگ استفادہ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ سڑک، بجلی و پانی جیسے بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ جہاں سے بجلی کی ترسیلی لائنیں اور سڑکیں ختم ہوتی ہیں، وہاں سے گجر و بکروال لوگوں کی بستیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ انہیں بیمار ہونے پر بلاک سطح کے پرائمری ہیلتھ مراکز تک پہنچنے کے لئے کئی کئی کلو میٹر کی مسافت کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ ان کے بچوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آج کے دور میں بھی اسکول کی عمارتیں موجود نہیں۔ اس کے علاوہ آنگن واڑی مراکز یا پھر طبی مراکز کی اگر بات کی جائے تو ان کا کہیں نام و نشان ہی نہیں ملتا۔ سرکار کی جانب سے ایسے غریب لوگوں کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے، جب کہ سیاسی طور پر ایسے پسماندہ طبقات کو صرف ووٹ بینک کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ ایسے قبیلوں کے لئے گزشتہ سال سرکار نے ۱۳ ستمبر کو ایک تاریخ ساز دن کے طور پر قرار دیا، جب جموں و کشمیر میں فارسٹ رائٹس ایکٹ 2006 کا باضابطہ طور پر آغاز ہوا۔ اس ایکٹ کے عملانے سے گجر بکروال اور پہاڑی علاقوں میں آباد دیگر پچھڑے قبائل کے لوگوں کی ترقی یقینی ہے کیونکہ اس سے جموں و کشمیر کے دور دراز جنگلاتی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہو نے کی اُمید ہے، جن کے وہ حقدار ہیں ۔
(دودھ مرگ، ترال،فون نمبر- 6005034899)