کوروناکا رونا نہ روئیں

کہ ہاں زندہ ہوں میں، زندہ لاش بن کے
تو جیتا بھی، تو میں بھی ہارا ہوں خاک بن کے
 حضرات! کورونا(آگے سے کرونا) سے آج کون واقف نہیں۔ شاید ہی کوئی ہوگاجسے اس بارے میںپتہ نہ ہو۔ حیرت اس بات سے ہے کہ اس لفظ کا مطلب کروُن (Crown) ہے۔ جسے اردو میں تاج اور ہندی میں مُکٹ کہتے ہیں۔ مجھے اس سے پریشانی نہیں کہ اسے اتنا اعزازی نام کیوں دیا گیا۔ تاج یا کروُن نام سنتے ہی انسانی دماغ میںبادشاہ، حکومت، سلطنت جیسے نام ضرور گھومتے ہیں۔ مگر یہاں میں بتاتی چلوںکہ جہاں تاج و حکومت پانے کے لئے ماضی میں خون کی ندیاں بہائی گئی وہیں اس تاج (کرونا) کو آج کی تاریخ میں پانے کی کسی کونہ حسرت ہے نا کوئی تمنا۔ جب کوئی بھی امید وار سامنے نہ آیا تو وائرس کے ایک خاندان نے اس نازک موڑ پہ دنیا کی باگ ڈورسنبھالی جو بعد میں کرونا نام کی حکومت کہلائی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ان کے آپسی اتحاد کی وجہ سے ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ قدرت کی ساری مخلوق اس سے خوش تھی ما سوائے انسانوں کے، جو کہ ان سے بہت ہی خوف زدہ تھے اور ہونا بھی چائیے۔ رفتہ رفتہ ان کو اپنے دور میں کی گئی ساری غلطیوں کا احساس ہونے لگا۔ مگر اب پچھتانے سے کیا ہوتا جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔
انسانی مخلوق پھر سے اقتدار میں آنا چاہتی تھی۔ ایسا کرنا مشکل تو تھا مگر ناممکن نہیں تھا۔ اپنا کھویا راج واپس پانے کے لئے ان کا مقابلہ ایک طاقتور حکومت سے تھا جس کے ساتھ پروردگار کی باقی ساری مخلوق کھڑی تھی۔ انسانوں نے خود کو اپنی محفوظ جگہوں پر بندکرلیا تھا کیونکہ باہر ان کو کرونا کی حکومت اپنے قیدی بناکر موت کی ابدی نیند سلا رہی تھی۔ کسی کو بھی بخشا نہیں جارہا تھا۔ انصاف تو یہاں بھی نہیں ہوا۔ کیونکہ کچھ انسانوں کی غلطیوں کی سزا پوری انسانیت کو مل رہی تھی۔ یہاں تک کہ بچے، بوڑھے، عورتوں تک کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مگر ایک یہ آدم کی اولاد تھی جو ابھی بھی ناسمجھی سے کام لے رہی تھی۔ ان میں آپسی بھائی چارے اور اتحاد کی کمی تھی جو انہیں اس مقام پر لے آتی تھی۔ کبھی ایک دوسرے پر الزام لگاتے تو کبھی کسی ایک خاندان کو اس کا قصوروار ٹھہراتے کہ تم نے غداری کی اور تم کرونا کی حکومت سے ملے ہوئے ہو۔ شاید یہ بھول چکے تھے کہ یہ سب ایک ہی درخت کی شاخیں ہیںاور درخت کی ایک شاخ کبھی اکیلے طوفانی ہواؤں کا سامنا نہیں کرسکتی۔ نتیجہ میںٹوٹ کر رہ جاتی ہیں سب کی سب شاخیں۔ہاں! یہ بھول چکے تھے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ اس مشکل گھڑی میں ابھی کچھ عقلمند لوگ موجود تھے جو مسلسل جدوجہد میں لگے تھے کہ کیسے انسانیت کو بچایا جائے۔پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور ان مسلط بلا ؤں سے نجات پانے کی دعائیں کرتے۔ انسانوں کو سمجھایا جانے لگا کہ کیسے یک جُٹ ہوکر مقابلہ کیا جائے اور یوں کرونا کا رونا نہ روئیں۔
سوشل ڈسٹنسنگ، کورنٹین، آئیسولیشن، سیلف آئیسولیشن، لاک ڈاؤن، سینیٹائزیشن اور ماسک جیسے ہتھیار بنائے گئے اور ان کو کیسے کیسے دشمن حکومت کے خلاف استعمال کرنا ہے، یہ سمجھانے کے لئے ڈاکٹر اور پولیس کے محکمہ کو تعینات کیا گیا، جو کہ اپنی پوری فوج لے کے انسانیت کو بچانے کے لئے میدان میں اتری۔ خود کی پرواہ کیے بغیر کرونا سے متاثر ہ افراد کا علاج کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بہت سے صحت یاب ہوکر اپنے گھر کو روانہ کئے گئے۔ یہی وہ واحد ہتھیار تھے جو پوری انسانیت کو کسی حد تک بچانے میں فائدہ مند ثابت ہوئے۔اور انسانیت کی جیت کے آثار بھی نظر آنے لگے۔
ایک طرف کی کہانی تو یہ تھی۔ تو دوسری طرف وہ تھی کہ جس کے زخم بھرآتے تھے، جس نے پھر سے ہنسنامسکرانا شروع کیا ، جس کے تن پہ پھر سے اس کی پسند کا لباس تھا،اس کے آنچل میں پھر سے چرند پرند و جانور کھیل رہے تھے اور خود کواس بار محفوظ محسوس کر رہے تھے ۔ ہاں! واقعی وہ سب محفوظ تھے۔ کیوں کہ اس بار وہاںوہ انسان نہیں تھاجس نے ان کے لئے قیدوبند کی پیمائشیں تعمیر کررکھی تھیں۔ اس سب کے باوجود کہ کیسے کیسے انسانوں نے ان بے زبانوں اور دوسرے قدرتی وسائل کا غلط استعمال کیا اور کیسے مرنے کے کئے چھوڑا۔ یہ ابھی تک زمین بھول نہیں پائی تھی۔ مگر وہ تیار تھی پھر سے انسان کو اپنی گود میںلینے کے لئے۔ شاید اس بار پوری کائنات کو انسانوں سے اچھی امیدیں تھی۔
(مضمون نگار بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامک سٹیڈیزکی طالبہ ہیں)
ای میل [email protected]