کشمیر۔۔۔مسلکی تفرفہ سے چوکنارہئے!

 گزشتہ ۷۰ سال سے کشمیری قوم اپنے سلب شدہ  بنیادی اور پیدایشی حق حق خودارادیت کی حصول یابی کے لیے بر سر جدوجہد ہے۔ اس دوران قوم نے قربانیوں کی ایک لازوال اور بے مثال تاریخ رقم کی جو تاریخ کشمیر کی جبین کے جھومر ہے۔ اس قوم کو اپنے جائز حق سے باز رکھنے کے لیے غالب قوت نے تمام اوچھے ہتھکنڈے اب تک آزمائے۔ خون آشامیاں، جبر واستبداد، گولیاں، بلیٹ و پیلٹ کی قہرسامانیاں ، گرفتاریاں، ماورائے عدالتی ہلاکتیں، جنسی زیادتیاں، اجتماعی عصمت دریاں غرض وہ کون سے مظالم ہیںجو اس مظلوم و مقہور قوم پر نہیں آزمائے گئے۔ کشمیری قوم کے زبردست جذبہ ٔ مزاحمت کو توڑنے کے لیے مظالم کے علاوہ طویل مدتی منصوبے بھی ترتیب و تشکیل دیے گئے ہیں تاکہ یہ قوم اپنی شناخت اور ملّی پہچان سے تہی دامن ہوجائے۔ ان منصوبوں میں ایک اہم حربہ مسلکی و گروہی اختلافات کو بھڑکا ناہے۔ ریاست کے عوام کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور کشمیری مسلمانوں میں مختلف مسالک و مشارب سے لوگ وابستہ ہیں جودشمن کی ریشہ دوانیوں کے باوجود کامل محبت اور ہم آہنگی سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلک کے نام پر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنا عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔رینڈ کارپوریشن(Rand Corporation) ایک امریکی تھنک ٹینک ہے جو امریکی ریاست کے لیے سفارشات مرتب کرتا ہے۔ امریکہ کی خارجی پالیسی کیا ہونی چاہیے؟ مختلف ممالک سے امریکہ کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ امریکہ مستقبل میںاپنی عالمی چودھراہٹ اور دبدبہ کس طرح قائم رکھ سکتا ہے؟ اس حوالے سے یہ تھنک ٹینک عمیق غور و فکر کے بعد منصوبے مدون کرکے امریکہ کے ارباب حل و عقد کو سپرد کرتا ہے اور انہی سفارشات پر پھر امریکہ کے دوسرے چیلے چانٹے اور حاشیہ بردار ملک بھی امریکہ کی اقتداء میں عملی اقدام کرتے ہیں۔ ۱۱/۹ کے بعد عالم اسلام میں امریکی حکمت عملی کے تحت رینڈ کارپوریشن نے اپنی سفارشات میں لکھا ہے’’مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے‘‘۔اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے کہ مختلف مسلمان ممالک میں ان اختلافات کو اتنا بڑھا دیا گیا کہ مسلمان آپس میں ہی دست و گریبان ہوئے اور آج ہم بچشم سر دیکھ ررہے ہیں کہ بہت سارے مسلمان ممالک اس مسلکی و گروہی آگ میں بری طرح جلس رہے ہیں ۔ حسین و خوب صورت ممالک کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں اور کچھ ممالک تیزی سے ہلاکت خیزی کی طرف بڑھ رہے ہیں (اللہ انہیںعقل و فہم عطا کرے)۔ بہ ہر حال ہم بات اپنی وادی ٔ بے آئین کی کررہے تھے کہ یہاں پر بھی مسلکی منافرت کو ہوا دینے کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور کچھ نادان، ناعاقبت اندیش اور فہم و فراست سے عاری لوگ اس سازش کا دانستہ یا نادانستہ طور حصہ دار بن رہے ہیں۔ یہ لوگ ایڈی چوٹی کا زور اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ اپنے مسلک کو حق اور دوسرے کو باطل ثابت کریں۔جزوی اور فروعی مسائل پر’ تو دیگری من دیگرم‘ کے قابل نفرین نعرے بلند کررہے ہیں۔ ایک دوسرے کو گم راہ ہونے کے فتوے دیے جارہے ہیں۔ کھلے عام مناظرہ بازی کے چلینج دیے جارہے ہیں۔ اگر چہ کچھ اہم اور توجہ طلب مسائل ہیں کہ جن پر جائز طور اختلافات ہیں اور ان کو حل ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے طریقہ نہایت غیر مناسب اختیار کیا جارہا ہے۔اگر اس مسلکی تعصب کے سرپٹ گھوڑے کو لگام نہ لگائی جائے تو خدا نخواستہ صورتِ حال خطرناک رُخ اختیار کر سکتی ہے اور پھر جو نتیجہ سامنے آئے گا وہ کتنا درد ناک ہوگا اس کا بخوبی اندازہ ہم اُن ممالک کے حالات سے لگا سکتے ہیںجہاں اس طرزِ عمل کو پنپنے کے لیے میدان فراہم کیا گیا جو پھر سینکڑوں علمائے عظام ، دانش وران اور عام انسانوں کی ہلاکت پر منتج ہوا۔
 جائز حدود میں رہ کر اختلاف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ تو امت کے لیے رحمت کے مصداق ہے کیونکہ اختلاف رائے سے غور و فکر کے مختلف ومتنوع آفاق کھلتے ہیں۔ قرون اولیٰ سے ہی مختلف اُمور میں اختلاف کا پایا جانا مسلّم حقیقت ہے۔ رسول اللہﷺ کے مبارک زمانے میں بھی بہت سارے معاملات میں صحابہؓ کے درمیان اختلاف ہوا لیکن ان ختلافات کی وجہ سے اُن میں کسی قسم کی چپقلش اور کدورت پیدا نہیں ہوئی۔ اور ان کی آپسی محبت اور الفت پر ان اختلافات کا کوئی اثر نہیں تھا وہ آپس میں ایک دوسرے کا احترام انتہا درجے کا کرتے تھے۔ یہی صورتِ حال ائمہ کرام ؒکے زمانے میں برقرار رہی کہ علمی مسائل میں اور جزوی اور فروعی مسائل میں بھر پور اختلاف کرنے کے باوجود ملّی اور دینی اتحاد و اتفاق میں رخنہ نہیں آنے دیا۔ نتیجہ یہ کہ پورے عالم پر اسلام کا دبدبہ اور غلبہ تھا۔ اس تناظر میں ہمارے اسلاف کرام کے چند واقعات یہاں نقل کرتا ہوں تاکہ ہم جان سکیں کہ ہمارا طرزِ فکر و عمل کیا ہونا چاہیے۔شیخین یعنی حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ کے درمیان بھی کئی مسائل میں اختلاف تھا مثلاً مفتوحہ اراضی کی تقسیم،حضرت ابو بکرؓ تقسیم کے قائل تھے جب کہ حضرت عمر ؓ کی رائے وقف کی تھی۔اسی طرح عطیات کی ترجیح میں بھی اختلاف تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ عطیات میں مساوات کے قائل تھے جب کہ حضرت عمر ؓ اس میں ترجیح کے قائل ۔مرتد قیدی عورتوں کے بارے میں بھی اختلاف تھا۔ اپنے دور خلافت میں حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے کے خلاف انہیں آزاد کرکے ان کے مردوں کے حوالے کردیا، سوائے ان عورتوں کے جن کے مالک سے کوئی اولاد ہوگئی تھی۔ جیسے محمد بن علی ؓ کی ماں خولہ بنت جعفر حنفیہ جو انہی قیدیوں میں تھیں۔اس طرح کئی مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود ان دونوں حضرات میں محبت اور تعلق خاطر بڑھتا ہی رہا۔ جب حضرت ابو بکرؓ  نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کیا تو کچھ صحابہ ؓ نے کہا آپ نے ہم پر عمر ؓ کو خلیفہ بنا دیا ہے ان کی سختی کو آپ جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روز محشر آپ ؓ سے اس کا سوال کرلیا تو آپؓ کیا جواب دیں گے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے جواب دیا’’میں کہوں گا، یا اللہ! میں نے تیرے بندوں میں سے سب سے اچھے کو ان کا خلیفہ بنایا‘‘۔کسی نے ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ سے کہا کہ آپ کئی باتوں میں حضرت ابو بکرؓ سے بھی بہتر ہیں۔حضرت عمر ؓ پر یہ سن کر گریہ طاری ہوگیا۔ کافی دیر تک روتے رہے۔ پھر فرمایا، اللہ کی قسم! ابو بکرؓ کی ایک رات عمر اور آل عمر سے زیادہ بہتر ہے۔یہ باہمی اختلاف کے باوجود الفت و محبت کی مثال ہے۔ ان عظیم ہستیوں کے دلوں کو آسمانی کلام کی رسیوں نے جکڑ رکھا تھا ۔ ان کی اتباع میں ہمارے ائمہ کرام ؒنے بھی علمی اختلافات کی یہی شان برقرار رکھی۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور امام شافعیؒ اپنے وقت میں ائمہ مدینہ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اگرچہ وہ آہستہ یا زور سے بسم اللہ پڑھنے کا التزام نہیں کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک نکسیر پھوٹنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ان سے کسی نے پوچھا کہ امام کے بدن سے خون نکلا اور اس نے وضو نہیں کیا۔ بتائیے کیا اس کے پیچھے نماز ہوگی؟ آپ ؒنے جواب دیا کہ میں امام مالک ؒ اور سعید بن المسیب ؒ کے پیچھے کیسے نماز نہ پڑھوں۔ ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے موطا کے چند نسخے بنوا کے دوسرے شہروں میں بھیجنے کا ارادہ کیا تاکہ لوگ ایک ہی فقہ پر عمل کریں اور اختلافات ختم ہوجائیں۔ امام مالک ؒ کو معلوم ہوا تو فرمایا ایسا نہ کریں لوگوں تک بہت سی احادیث اور روایات پہنچ چکی ہیں اور ہر جگہ کے لوگ ان میں سے کچھ اپنا چکے ہیں جو انہوں نے اختیار کرلیا اس پر انہیں چھوڑ دیں۔ آ پ ؒکے اس اقدام سے مزید اختلافات بڑھیں گے۔ خلیفہ منصور نے یہ سن کر کہا:’’ابو عبد اللہ آ پ کو اللہ تعالیٰ اور توفیق دے۔ان واقعات کو نقل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم آداب اختلاف کی نوعیت سے واقف ہوں۔ اگرچہ ہمارے اسلاف کے ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے مگر مضمون کی تنگ دامانی مجھے مزید نقل کرنے سے مانع بن رہی ہے لہٰذا صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا گیا۔
بہر کیف ہماری ریاست اس وقت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ہر روز جوانوں کے جنازے اُٹھ رہے ہیں۔ سیاسی غیر یقینیت کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ حالات کی مار سے مظلوم عوام کے چہرے افسردگی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان جان گداز حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو ہمت و حوصلہ دیا جائے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی جستجو کی جائے۔ اور قوم کو مسلکی اور فروعی مسائل میں اُلجھانے کے بجائے ملت کی شیرازہ بندی کی سعی ٔ مشکود کی جائے۔ علمی اختلافات کوسوشل میڈیا پر اچھالنے اورعوام میں ڈالنے کے بجائے مناسب پلیٹ فورم پر بہترین اخلاق اور متانت سے موضوع ِ بحث لائے جائیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں جادۂ اعتدال پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین    ؎
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
9858735895