پاکستان سے تعلق رکھنے والے لشکر طیبہ کے معروف عسکریت پسند نوید جھاٹ کے سنٹر ل جیل سرینگر سے صدر ہسپتال سرینگر پہنچنے اور دو محافظ پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر تیار کھڑی موٹر سائیکل پر فرارہونے تک پورا قصہ حقیقت سے زیادہ ایک افسانہ یا کسی فلم کا ڈرامائی منظرلگتا ہے ۔اب بھی یقین کرنا مشکل ہے کہ کوئی حکومت ، اس کی انتظامی مشنری اور اس کے سکیورٹی ادارے خوفناک ترین حالات میں بھی اس قدر خفتگی میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ ایک گرفتار شدہ جنگجو بہت آٰرام کے ساتھ فرار کا منصوبہ کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے ۔ کسی حکومت کی اس سے بڑی ناکامی اور اس سے بڑی نااہلی کوئی نہیں ہوسکتی ۔ مٹھی بھر جنگجوؤں کی اس سے بڑی کامیابی بھی کوئی نہیں ہوسکتی ۔چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ اس ایک واقعہ نے آپریشن آل آوٹ کے دباو ٔ کا اثر پلٹ کر رکھ دیا اور عسکریت کو ایک نئی قوت عطا کی ۔
ابھی اس واقعہ کی حیرتیں ذہنوں سے اُتر بھی نہیں پائی تھیں کہ جموں شہر کے دل میں سنجوان کے مقام پر واقع فوجی کیمپ کے اندر فدائین گھس گئے ۔چوبیس گھنٹے کے سخت مقابلے کے بعدتین فدائین مارے گئے جبکہ ایک شہری اور چھہ فوجی جوان مارے گئے ۔جو فوجی اہلکار مارے گئے ان میں بھی پانچ کشمیری مسلمان ہیں جن میں سے دو لولاب کپوارہ کے رہنے والے ہیں ۔ ایک صوبیدار محمد اشرف ہے جو اپنے پیچھے ایک بیوہ تین بچے دو بہنیں ، دوبھائی اور بوڑھے والدین چھوڑ گیا۔ دوسرے کانام حبیب اللہ قریشی ہے جو اپنے پیچھے پانچ بہنیں ، اپنی چھ بیٹیاں ، ایک بھائی ،بیوہ اور بوڑھے والدین چھوڑ گیا۔دونوں فوجی اپنے خاندانوں کے واحد کفیل تھے ۔انسانی المیے کا یہ پہلو بہت کم لوگ محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہوش و حواس پر متحارب سوچ حاوی ہے جو انسانی خون میں اپنا نفع اور نقصان ہی تلاش کرتی ہے ۔ جب ان فوجی جوانوں کی میتیں ان کے گھر پہنچائی گئیں تو لوگوں کی اچھی خاصی تعداد نے ان کی آٰخری رسومات میں حصہ لیا ۔ ان کے تابوتوں پر ترنگا لپیٹا گیا اور اس کے بعد قومی چینلوں پر طوفان برپا ہوا کہ کشمیرمیں اب تک جو جلوس دیکھے گئے وہ پاکستانی پروپیگنڈا تھا ،اصل حقیقت یہ تعزیتی جلوس ہیں جو بھارت کے فوجی جوانوں کی شہادت پر ان کی قربانی کو خراج عقیدت کے طور پر نکالے جارہے ہیں ۔ان ہی چینلوں پر کل تک کشمیریوں کو پاکستان کے ایجنٹ اور غدار قرار دیا جارہا تھا ۔ بہرحال یہ حالات کا ایک پہلو ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس واقعہ میں چار پاکستانی جنگجو مارے گئے اور یہ محض چند روز میں دوسرا بڑا جھٹکا تھا ۔جنگجو کا فرار جہاں ریاستی حکومت اور اس کے اداروں کی ناکامی کا ثبوت پیش کرچکا تھا وہیں سنجوان واقعہ دنیا کے دوسرے بڑے جمہوری ملک اور اس کے اداروں کی ناکامی کا ایک اور ثبوت تھا ۔جس ملک کی پارلیمنٹ پر حملہ ہوچکا ہو ۔ممبئی حملہ جس کی تاریخ کا المناک باب بن چکا ہو ۔ جس کی فوجی تنصیبات پر سالہا سال سے ایک کے بعد ایک حملے ہوتے رہے ہیں ۔وہ سائنسی اور تکنیکی ترقی کے اس دور میں بھی اپنی تنصیبات کے تحفظ کا انتظام کرنے میں سراسر ناکام ہے ۔اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں کو موت کا کوئی خوف نہ ہو ان کے لئے کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں رہتا ،لیکن اس کے باوجو د اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ بڑی آسانی کے ساتھ جنگجو چاروں طرف سے دیوار بند تنصیبات کے اندر آسانی کے ساتھ گھس جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب ہر فوجی کیمپ کے حکام پوری طرح سے جانتے ہیں کہ کسی بھی وقت کیمپ کے اندر گھس جانے کی کوشش ہوسکتی ہے ۔
کیا اس طرح سے یہ تاثر پیدا نہیں ہوتاکہ فوج خود اپنا تحفظ نہیں کرپارہی ہے اور کیا یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ فوج کی ہیبت کا بھر م ٹوٹ رہا ہے اور نوجوان پتھر لیکر فوجی جوانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہے ہیں۔ہندوستان کا اقتدار اور اس کی دانش اس بات پر غور کرنے کے بجائے کہ فوج جیسے ادارے کی کوئی چھوٹی سی ناکامی بھی ایسی جگہ عوامی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کرسکتی ہے جہاں غم و غصے اور نفرت کا عنصر رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے یہ سوچ پیدا کرنے میں پوری قوت صرف کررہے ہیں کہ’’ پتھر لیکر فوج کے سامنے آنے والوں کو بھی دہشت گرد ہی قرار دیا جائے او ر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے جودہشت گردوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔‘‘
یہ اس سخت گیر سوچ کا دوسرا قدم ہے جو بی جے پی حکومت نے مذاکرات معطل کرکے پاکستان اور جنگجوؤں کیخلاف سخت سٹینڈ لینے کا اعلان کرتے ہوئے روبہ عمل لایا اور جس کے پہلے قدم کے طور پر کشمیر سے جنگجوؤں کا خاتمہ کرنے کے عزم کے ساتھ فوج کو پوری آزادی اور اختیار عطا کیاگیا ۔یہ اُس وقت ہوا جب نوجوانوں کی عسکری صفوں میں شامل ہونے کی تعداد نوے کی دہائی کے مقابلے میں نوے فیصد سے زیادہ گھٹ چکی تھی لیکن اس کے بعد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جنگجووں کی صفوں میںشمولیت اختیار کرنی شروع کی اور برہان وانی کی صورت میں ایک جدت طراز جنگجو نئی عسکریت کی علامت کے طور پر ابھرا اور چھاگیا اور پھر اس کی موت نے احتجاجی لہر کا طوفان پیدا کرکے پوری وادی کواس طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ خود کشمیر کے باشندے بھی حیرت زدہ رہ گئے ۔تب سے نہ صرف عسکری سرگرمیوں کا پھیلاو گزشتہ دو دہائیوں کا ریکارڈ توڑ گیا بلکہ عوامی سطح پر بھی بے چینی ، شورش یا مزاحمتی لہر نئی جہتیں حاصل کرگئی ۔اس ساری صورتحال میں پاکستان کا کیا کردار رہا ؟ ۔
یہ ایسا بحث طلب معاملہ ہے جس پر تجزیہ نگاروں کی رائے میں تضاد ہوسکتا ہے، لیکن اس بات پر تضاد کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہندوستان جیسے ملک کی سکیورٹی سے وابستہ اداروں کے پاس اس کا کوئی ٹھوس ڈاٹا موجود نہیں ۔سوائے اس عام رائے کے کہ ہر معاملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے اورکشمیر میں اس کے ایجنٹ اس کے تمام منصوبوں کو روبہ عمل لارہے ہیں ۔اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے تو کیا یہ بھارت کے مضبوط ترین سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا اعلان نہیں جنہیں نہ پاکستان کی سازشوں اور منصوبوں کا کوئی پتہ چل رہا ہے اور نہ ہی وہ ان کا توڑ کرنے میں کوئی کامیابی حاصل کررہے ہیں حالانکہ ان منصوبوں کا توڑ کرنے کیلئے این آئی اے کی مہم بھی شروع کی گئی ، نوٹ بندی بھی کی گئی اورآپریشن آل آؤٹ شروع کیا گیا۔ لیکن جب سے یہ سب ہوا کشمیر کے حالات پہلے سے زیادہ بدتر ہوتے چلے گئے ۔خفیہ ادارے کشمیر میں ستر سال سے سب سے زیادہ سرگرم رہے ہیں لیکن ان کی سرگرمیاں حکومتوں کو گرانے یا بنانے اور مختلف سیاسی شخصیتوں کی شبیہہ بگاڑنے اور بنانے کی کوششوں پر ہی مرکوز رہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ کئی علیحدگی پسند قوتوں کو اُبھارنے اور قوت عطا کرنے میں بھی ان کا اچھا خاصا کردار رہا ہے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ یہ سب اب تاریخ کا ایک حصہ ہے ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں اورعوام بھی اس سے ناواقف نہیں ہیں ۔
جس وقت کشمیر میں عسکری تحریک کے تانے بانے تیار ہورہے تھے ان اداروں کو اس کی بھنک تک نہیں تھی ۔ حاجی گروپ (حمید، اشفاق، جاوید ، یٰسین)کب بنا اور کب کشمیر میں اس کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا کسی مرکزی خفیہ ادارے کو اس کی کوئی اطلاع نہیں تھی اورخود ریاست کا محکمہ انٹلی جنس اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتا تھا ۔ اس کے بعد بھی ان اداروں کو ان اہم واقعات کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا جنہوں نے کشمیر میں دُور رس اثرات مرتب کئے ۔ اس صورتحال میںجو حالات پیدا ہوئے ان کیلئے کس کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟
اصل حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے سیاسی ، فوجی اور خفیہ اداروں کے ساتھ ساتھ پالیسی سازوں کا طریقہ کار وہ نہیں رہا ہے جو ایک بڑے ملک کا اہم اور حساس معاملات پر ہونا چاہئے ۔ہر ادارے کے الگ اورمتضاد اپروچ نے اہم اور نازک مرحلوںپر پیچیدگیاں اورالجھاو پیدا کیا جس کے نتیجے میں فاش غلطیوں اور غلط فیصلوں کا جنم ہوا ۔ ابھی تک بھی نہ کشمیر کو صحیح طریقے پر سمجھا جارہا ہے اور نہ کشمیریوں کو ۔ آج بھی ایک کے بعد ایک غلط فیصلے ہی روبہ عمل آرہے ہیں جس کے نتیجے میں سارے جمہوری ، سیاسی ، انتظامی ،تہذیبی ، معاشی اور تعلیمی ادارے بنیادوں سے اکھڑ رہے ہیں ۔ انہی اداروں پر اس توازن کا دار و مدار ہوتا ہے جس پر امن و سکون ، اعتبار اور اطمینان کا دا ر و مدار ہوتا ہے ۔ان کی تباہی کے بعد وہ طوفا ن اٹھتے ہیں جن کی کوئی سمت نہیں ہوتی اورکشمیر آج انہی طوفانوں سے دوچار ہے لیکن اس کا صحیح ادراک اور احساس اس ملک کو نہیں جو عالمی سطح پر ایک بڑے کردار کی تلاش کیلئے سرگرداں ہے ۔
ان بنیادی عوامل پر سوچ بچار کے بجائے آج بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پاکستان کے ساتھ بات چیت کا ڈھنڈورا کیوں پیٹ رہی ہے ،پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کیوں نہیں کررہی ہے ۔فوج کیخلاف ایف آئی آر درج کیوں کیا جارہا ہے ۔ فوج ایک مقدس ادارہ ہے جو ہر جواب دہی سے مبرا اور پاک ہے ۔ایک جمہوری ملک میں یہ بات کہی جارہی ہے جس کے آئین کی بنیاد عوام کی آزادی ، عوام کے حقوق اور عوام کی بالادستی ہے ۔کہیں سے ایک بھی آواز نہیں اٹھ رہی ہے کہ عوام اہم ہیں یا وہ ادارے جو اس کی عزت و آبرو کے محافظ بنائے گئے ہیں ۔ان اداروں کا مطلب اور مقصد بدل دیا جائے تو ملک کی قدریں کہاں رہیں گی اور ملک کہاں رہے گا ۔؟
ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر